آخر عورت جائے کہاں؟


نور مقدم کے بہیمانہ قتل کا معاملہ ابھی زیر بحث تھا کہ مینار پاکستان کے احاطے میں ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ نہایت افسوسناک واقعہ رونما ہو گیا۔ ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والی انتہا درجے کی بد تہذیبی کا تذکرہ روایتی اور سوشل میڈیا پر چھایا ہوا تھا کہ چنگ چی رکشہ پر سوار خواتین کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔ ویڈیو میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ کوئی نامراد خواتین کے ساتھ بیٹھی بچی پر جھپٹتا ہے۔

جوابی ردعمل کے طور پر ساتھ بیٹھی خاتون کو اپنا جوتا ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔ نور مقدم قتل کیس کے حوالے سے ہمارے ہاں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ روایتی اور لبرل طبقات اس قضیے کو اپنی اپنی عینک کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ یہی حال ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والی بد تہذیبی کا بھی ہے۔ ایک نقطہ نگاہ کے حامل لوگ اس قصے میں کلی طور پر مجمع کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خود ٹک ٹاکر بھی اس قصے میں شریک جرم ہے، جس کی دعوت عام پر یہ مجمع اکٹھا ہوا تھا۔ لیکن چنگ چی رکشے والے قصے میں صرف ایک رائے پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مردوں نے خواتین کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔

برسوں سے ہم یہ جملے سنتے ہیں کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ خواتین یہاں غیر محفوظ ہیں۔ مرد کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان باتوں سے کافی حد تک متفق ہونے کے باوجود یقین رکھتی ہوں کہ ہمارے سماج میں خواتین کو خصوصی حیثیت بھی حاصل ہے۔ ان کا نہایت عزت و احترام بھی کیا جاتا ہے۔ انہیں خصوصی سلوک کا مستحق بھی سمجھا جاتا ہے۔ کسی ائر پورٹ، بنک، دفتر، وغیرہ کی لمبی قطار میں خاتون کھڑی ہو تو بصد احترام اس کا کام پہلے نمٹا دیا جاتا ہے۔

نامی گرامی سیاست دان، وزیر، بیوروکریٹ، بزنس مین، صحافی، وغیرہ میں نے دیکھے ہیں، مجھ سمیت کوئی خاتون ان کے دفتر میں جائے تو احتراماً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ چند ایک اگر اپنی سیٹ سے نہیں اٹھتے تو مجھ جیسی بھی دل ہی دل میں برا مانتی ہے۔ ان کے بارے میں ذہن میں کچھ اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔ سڑک پر ڈرائیونگ کے کسی اصول ضابطے کی خلاف ورزی پر وارڈن روک لے تو خاتون ہونے کا لائسنس دے کر بغیر چالان کیے جانے دیتا ہے۔

سفر کرتے کسی بس، وغیرہ میں آج بھی مرد حضرات، خواتین کے لئے اپنی سیٹ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بیرون ملک جائیں تو ہمیں اپنی صنف کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ لمبی لائنوں میں لگ کر باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بس، میٹرو، ٹرین میں سفر کرتے سیٹ نہ ملے تو مردوں ہی کے برابر کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ اپنا بھاری بھرکم سامان، اپنے گناہوں کی مانند، خود اٹھانا اور گھسیٹنا پڑتا ہے۔ آج بھی دیہات میں کسی لڑائی جھگڑے اور دشمنی میں گھر کی ماں، بہن، بیٹی مخالف پارٹی سے معافی تلافی کی درخواست کرے تو معاملات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔

ان عمومی رویوں کے باوجود، میں تسلیم کرتی ہوں کہ پاکستان میں مردوں نے بچیوں اور خواتین کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ان کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ اطمینان کے ساتھ اپنے گلی، محلے، سے گزر کر قریبی سڑک تک نہیں جا سکتیں۔ وہ کسی بس سٹاپ پر کھڑی ہو کر سکون سے اپنی بس ویگن کا انتظار نہیں کر سکتیں۔ وہ کسی بس، ویگن، ٹرین میں اطمینان کے ساتھ سفر نہیں کر سکتیں۔ وہ اپنے دفتروں میں مردوں کی نگاہوں، جملے بازیوں اور بسا اوقات دست درازی سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں پر عورتیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں، اور چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی۔ قبر میں پڑی عورت تک محفوظ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو شرافت کے ساتھ رہنے کی آزادی اور اطمینان میسر نہیں، اور یہ نام نہاد مرد ہر طرح کی بد تہذیبی اور بے ہودگی کا لائسنس لئے گھومتے ہیں۔

میں علمی و تحقیقی کام نمٹانے کے لئے اکثر و بیشتر اپنی شاگرد بچیوں کی مدد لیتی ہوں۔ ان بچیوں کا گھر میرے راستے میں ہو تو پک اینڈ ڈراپ بھی دے دیتی ہوں۔ ہر مرتبہ جب بچیوں کو ان کے گھر کے قریب، یا کسی ٹیکسی یا بس سٹاپ پر اتارتی ہوں۔ ایک نہایت سنجیدہ بزرگانہ نصیحت میں انہیں کرتی ہوں۔ لیکن انہیں شرمندگی سے بچانے کے لئے مذاق کے انداز میں کہتی ہوں کہ ”دیکھو، ذرا احتیاط سے جانا، ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں چھیڑ چھاڑ جائے“ ۔

کچھ عرصہ پہلے ایک بچی کو ڈراپ کرتے جب روزانہ میں یہ جملے دہراتی تو ایک دن وہ کہنے لگی۔ میڈم، آپ بھی عجیب باتیں کرتی ہیں۔ یہ چھیڑ چھاڑ تو کوئی بات ہی نہیں رہ گئی۔ جسے آپ اتنا سنجیدہ لیتی ہیں۔ معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے۔ روزانہ آتے جاتے دو تین بار تو ایسا ہونا ایک معمول ہے۔ ہم تو برسوں سے اس کے عادی ہو چلے ہیں۔ اور پھر یہی بات میں نے مختلف الفاظ کے ساتھ بہت سی بچیوں کے منہ سے سنی۔

یہ باتیں سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ بچیاں جو اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، کس طرح کی اذیت سے دوچار ہیں۔ ان کی زندگی مردوں نے کس قدر مشکل بنا رکھی ہے۔

اس قصے کے بعد میں حسب عادت میں تحقیق اور تفتیش میں جت گئی۔ درجنوں شاگردوں اور دوستوں سے باتوں باتوں میں تفتیش کی کہ انہیں کس طرح کے معاملات درپیش رہتے ہیں۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی جب ہر ایک نے مجھے کئی کئی قصے سنائے۔ پتہ یہ چلا کہ دفاتر میں مردوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے واقعات معمول ہیں۔ اگرچہ اچھے مردوں کی بھی کمی نہیں، لیکن اگر کوئی لفنگا کسی بڑی سیٹ پر براجمان ہو جائے، وہ اسی قدر ڈھیٹ اور بے حیا ثابت ہوتا ہے۔

آتے جاتے گلی، محلے، سڑک پر یہ واقعات بھی روز کا قصہ ہیں۔ یہ کریہہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ تعلیمی اداروں کے کچھ مرد اساتذہ بھی اس گھٹیا کام میں پیش پیش رہتے ہیں۔ خواتین جائیں تو کہاں جائیں؟ کس کس کا منہ نوچیں۔ کس کس کا گریبان پکڑیں۔ کس کس کی زبان روکیں۔ کس کس کا ہاتھ توڑیں۔ اندازہ کیجیے کہ مجبوری کے تحت نوکری کرنے والی عورت اپنے دفتر میں ایسے مردوں کے ساتھ کیسے گزارا کرتی ہوگی۔ گھر والوں کی منت سماجت کے بعد یونیورسٹی، کالج میں پڑھنے کی اجازت لینے والی لڑکی کس منہ سے اپنے باپ بھائی کو اپنے ساتھ ہونے والی وارداتوں کے قصے سناتی ہو گی۔

سچ یہ ہے کہ حصول تعلیم کے لئے کالج یونیورسٹی جاتی، سودا سلف لانے بازار جاتی، یا نوکری کے لئے دفتر آتی جاتی بچیوں اور خواتین کو تنگ کرنے والے مرد، مرد کہلانے کے مستحق ہی نہیں۔ یہ تو انسانوں کے روپ میں درندے اور جانور ہیں۔ جو کسی گدھ، بھیڑیے اور باولے کتے کی مانند اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ شکار ملتے ہی اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔

اس ساری صورتحال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون کا نفاذ اور مجرم کی پکڑ کا رواج نہیں۔ ہمارے شہر کراچی سے ذرا دور دبئی واقع ہے۔ یہی پاکستانی لفنگے تلنگے جب دبئی جاتے ہیں، تو وہاں بے لباسی کی حدوں کو چھوتی عورت تک کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنی گردنیں اور سر جھکائے، محنت مزدوری میں مصروف رہتے ہیں۔ کیا وہاں ان لفنگوں میں فرشتوں کی روح حلول کر جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہاں قانون کا ڈنڈا موجود ہے، جو انہیں ان کی حدود (بلکہ اوقات) تک محدود رکھتا ہے۔ جبکہ یہاں ہماری پولیس کی کارگزاری اور استعداد کار ہمارے سامنے ہے۔

ٹک ٹاکر عائشہ کے ساتھ بھی جو کچھ ہوا۔ وہ نہایت قابل مذمت ہے۔ یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ عائشہ نے خود مجمع کو باقاعدہ دعوت دے کر بلایا تھا، تب بھی مجمع کو فقط تماش بینی تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی عورت واقعتاً غیر محفوظ ہے، خواہ وہ سات پردوں میں لپٹی ہوئی ہو یا کم لباسی کی تصویر بنی۔ آئے روز ہونے والے ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کس تیزی سے اخلاقی پستی میں گرتے جا رہے ہیں۔ ان واقعات سے ہمارے سماج کی بے نیازی اور بے حسی کی تصویر بھی ابھرتی ہے۔ یعنی کوئی بھی آوارہ شخص کسی راہ چلتی عورت سے ظلم زیادتی کر گزرے، وہاں موجود لوگ ظالم کو آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش تک نہیں کرتے۔ بس اللہ پاک اس ملک اور قوم پر رحم فرمائے۔ آمین۔

بشکریہ: روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments