جی سیون اجلاس میں طالبان کو تسلیم کرنے یا پابندیاں عائد کرنے پر بحث متوقع


فائل فوٹو

ویب ڈیسک — دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے حامل ملک (جی سیون) ایک ورچوئل اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں جہاں وہ اس بارے میں اتحاد قائم رکھنے کا عزم کریں گے کہ آیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا ان پر پابندیاں عائد کرنی ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے دو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جی سیون رہنماؤں کا یہ اجلاس منگل کو ہو گا۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس اجلاس کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔

‘رائٹرز’ کے مطابق واشنگٹن میں غیر ملکی سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد واشنگٹن کی جانب سے رابطوں میں فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ورچوئل اجلاس کا مقصد تعاون ہے۔

یورپی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ جی سیون ممالک کے رہنما اس بات پر اتفاق کریں گے کہ آیا طالبان کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، اور اگر انہیں تسلیم کرنا ہے تو وہ وقت کون سا ہو گا۔

سفارت کاروں کے بقول جی سیون ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کریں گے۔

یکم مئی کو افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلا شروع ہونے کے بعد طالبان کے انتہائی سرعت سے ملک پر قبضہ کرنے اور صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار کے بعد غیر ملکی حکومتیں تذبذب کا شکار ہیں اور ملک سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور جاپان کے رہنما اس اجلاس میں ممکنہ طور پر طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے یا پھر ان پر نئے سرے سے پابندیاں لگانے پر اتفاق کریں گے تاکہ طالبان کو خواتین کے حقوق اور بین الاقوامی تعلقات کے ضابطوں کی تعمیل کا پابند بنایا جا سکے۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن جی سیون ممالک کے اجلاس میں ایک متفقہ پالیسی پر زور دیں گے۔

امریکہ کے لیے برطانیہ کے سفیر کیرن پیرس کے مطابق جی سیون اجلاس میں مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) کے سیکریٹری جنرل یینز اسٹولٹنبرگ اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شریک ہوں گے۔

کیرن پیرس نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ ہم ایک ایسے واضح منصوبے کی شروعات چاہتے ہیں جس سے ہم سب نئی افغان انتظامیہ کے ساتھ متفقہ طور پر معاملات چلا سکیں۔

ان کے بقول، “ہم افغانستان کی نئی انتظامیہ کو ان کے بیانات کے بجائے ان کے اقدامات پر پرکھیں گے۔”

‘طالبان کو تسلیم کرنا ایک اہم ہتھیار ہے’

طالبان کو غیر ملکی ریاستوں کی جانب سے تسلیم کرنا ایک سیاسی اقدام ہو گا جس کے اہم نتائج ہیں جیسا کہ طالبان کو غیر ملکی امداد تک رسائی دینا جس پر پچھلی افغان حکومت کا انحصار تھا۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے طالبان سے 2020 میں جو معاہدہ کیا تھا اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ امریکہ طالبان کے اس گروپ کو تسلیم نہیں کرتا۔

امریکہ کی ایک سابق سفارت کار اینی فارزیمر کا کہنا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنا ایک اہم ہتھیار ہے جس کو ہم اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور یہ ہتھیار خاطر خواہ حد تک طاقتور ہو گا بشرطیکہ باہم مشورے اور رابطہ کاری سے اسے استعمال کریں۔

اینی فارزیمر نے سال 2017 سے 2018 تک کابل میں امریکی سفارت خانے میں ڈپٹی چیف آف مشن کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ ان کے بقول امکان ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت مخلوط ہو گی اور وہ افغانستان کی جانب سے انسانی حقوق سے متعلق وعدوں کو تسلیم کرتی ہو گی۔

جی سیون ممالک امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی جانب سے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کی مہلت میں ممکنہ توسیع پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے تاکہ امریکہ اور دیگر ممالک کو مزید وقت مل سکے کہ وہ اپنے شہریوں اور ان افغان شہریوں کو افغانستان سے نکال سکیں جنہوں نے نیٹو اور امریکی فورسز کی مدد کی تھی اور ان افراد کو بھی نکالا جا سکے جن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ اور فرانس شہریوں کے انخلا کے لیے مزید وقت لینے پر زور دے رہے ہیں لیکن طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی فورسز نے توسیع کی درخواست نہیں کی ہے اور اگر وہ درخواست کرتے بھی ہیں تو اسے منظور نہیں کیا جائے گا۔

جی سیون ممالک کسی بھی طرح کی پابندیوں اور پناہ گزینوں کی نئی لہر کی آبادکاری پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے۔

جرمنی کے وزیرِ خارجہ ھیلو ماس نے پیر کے روز کہا ہے کہ ان کا ملک جی سیون پر زور دے گا کہ انسانی امداد کے لیے اضافی فنڈز مہیا کیے جائیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ وہ لوگوں کے افغانستان سے باہر لے جانے کے عمل میں تعاون کریں لیکن مذہبی عسکریت پسند گروپ طویل مدت کے لیے اپنے لیے جائز حیثیت چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments