ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کا نام حسینیت ہے


 

امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ میں اس نقطہ ماسکہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے گرد امت کے تمام گروہ اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیعہ سنی تقسیم اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ہو چکی تھی لیکن شہادت امام حسین علیہ السلام نے اس تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا، وسیع اور منظم کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام انتہائی زیرک انسان تھے وہ اپنے والد بزرگوار خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور اپنے بڑے بھائی سیدنا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ اہل کوفہ کی بے وفائی کے چشم دید گواہ ہونے کے باوجود اہل کوفہ کے دام فریب میں کیسے آ گئے؟ کن محرکات کے تحت امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کی دعوت کو قبول کر لیا؟ کیا امام حسین علیہ السلام پیش آنے والے حالات کا درست ادراک نہیں رکھتے تھے؟

ان سوالات کا جائزہ لینے سے قبل اگر ہم یہ بات پہلے سمجھ لیں کہ امام حسین علیہ السلام کو پیش آنے والے حالات کوئی پوشیدہ امر نہیں تھا تو باقی سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ ناصرف امام حسین ؑ بلکہ اہل مدینہ اور مکہ میں بیشتر افراد اس بات کا انتہائی واضح ادراک رکھتے تھے کہ عنقریب شہادت امام حسین ؑ کی صورت میں بہت بڑا المیہ رو نما ہونے کو ہے۔ جن میں سے چند ایک افراد کی امام حسین ؑ کے عراق کی جانب سفر پہ رائے دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔

محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے بیٹے اور امام حسین ؑ کے بھائی تھے جب آپ کو امام حسینؑ کی کوفہ روانگی کا علم ہوا تو آپؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ ”میرے بھائی آپ مجھے سب لوگوں سے پیارے ہیں۔ اور میری نظروں میں آپ کی عزت بہت زیادہ ہے۔ مخلوق میں ایسا کوئی شخص نہیں جو میری نصیحت کا آپ سے زیادہ حقدار ہو۔ آپ یوں کریں کہ خود بھی یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے دوسرے شہروں کو بھی ایسا کرنے سے روکیں۔

پھر لوگوں کے پاس قاصد بھیج کر انہیں اپنی طرف بلائیں۔ اگر وہ آپؑ کی بیعت کر لیں تو ہم اس پر اللہ کی تعریف کریں گے۔ اور اگر ان کا کسی اور پہ اتفاق ہو تا ہے تو اللہ اس سے نہ آپ کے دین میں کوئی کمی کرے گا اور نہ ہی آپ کے عقل اور مردانگی میں کوئی کمی آئے گی۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کسی شہر میں کسی جماعت کے پاس جائیں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوں اور کچھ لوگ آپ کے خلاف ہوں اور وہ آپس میں لڑ پڑیں تو پہلے نیزے کا شکار آپ ہو جائیں۔ اس طرح امت کے ہر اعتبار سے افضل اور بہتر انسان کا خون رائیگاں چلا جائے گا۔

اس پر امام حسین ؑ نے جب پھر سے جانے کا ارادہ ہی ظاہر کیا تو وہ پھر سے گویا ہوئے کہ پھر آپ ؑ مکہ چلے جائیں۔ اگر وہاں اطمینان میسر ہو تو ٹھیک ہے ورنہ شہر شہر پھرتے رہیں اور لوگوں کے فیصلے کا انتظار کریں۔ اس پر امام حسین ؑ نے ارشاد فرمایا میرے بھائی تم نے میری خیر خواہی کی اور میں امید کرتا ہوں کہ تمہاری رائے درست ہو گی۔ لیکن امام حسین ؑ کوفہ جانے پہ مصر رہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ امام حسین ؑ کے والد کے چچازاد بھائی تھے۔ جب انہیں آپ ؑ کی کوفہ رانگی کا علم ہوا تو آپ ؑ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ آپؑ کی عراق کی طرف روانگی کا سن کر بہت پریشان ہوں۔ کیا آپ ایسے لوگوں کی طرف جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال کر ملک پہ قبضہ کر لیا ہے؟ اگر تو ایسا کر لیا ہے تو بڑے شوق سے جائیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور حاکم بدستور ان کی گردنیں دبائے بیٹھا ہے اور اس کے کارکن مسلسل اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو فتنہ اور جنگ کی طرف بلا رہے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ لوگ آپ کو دھوکہ نہ دیں اور جب دشمن کو طاقتور دیکھیں تو آپ کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیں۔ اس پر امام حسین ؑ نے حالات پہ نگاہ رکھنے اور اللہ سے استخارہ کرنے کی بات کر کے بات ٹال دی۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو لگا کہ امام حسین ؑ ان سے شاید کچھ چھپا رہے ہیں تو عین کوفہ روانگی کے وقت پھر امام حسین ؑ سے کہنے لگے کہ ”آئے چچا زاد میں خاموش رہنا چاہتا تھا لیکن خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں اس راہ میں آپؑ کی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں۔ اہل عراق دغا باز قسم کے لوگ ہیں ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہیں قیام کریں یہاں تک کہ اہل عراق اپنے دشمن کو نکال باہر کریں۔ اگر آپ ؑ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیں وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں۔ ملک کشادہ اور لوگ آپ کے والد کے ہم نوا بھی ہیں۔ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہیں۔ خطوط اور قاصدوں کے ذریعے اپنی دعوت پھیلاتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ یہ کام کریں گے تو کامیاب ہوجائیں گے۔

ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسین ؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہارے باپ اور بھائی کے ساتھ اہل عراق نے جو کیا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ تم ان لوگوں کے پاس جا نا چاہتے ہو حالانکہ وہ دنیا کے پجاری ہیں۔ تمہارے ساتھ وہی لوگ قتال کریں گے جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ اور تمہیں وہی لوگ بے یارو مدد گار چھوڑ جائیں گے جنھیں تم ان لوگوں سے پیارے ہو جن کی وہ معاونت کریں گے۔

ان افراد کے علاوہ جن افراد نے امام حسین ؑ کو کوفہ جانے سے نہ صرف روکا بلکہ اہل عراق کے بے وفا اور بزدل ہونے کی نشاندہی کی ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، ابو سعید خذری، حضرت جابر بن عبداللہ، آپ کے بہنوئی اور حضرت زینب ؑ بنت علی ؑ کے شوہر حضرت عبداللہ بن جعفر طیار، ابو واقد لیثی، عمرہ بنت عبد الرحمان، عبداللہ بن مطیع، سعید بن مسیب، عمرو بن سعید بن العاص رضوان اللہ تعالی عنہ اور عرب نے عظیم شاعر فرذق سمیت کئی دیگر عظیم ہستیاں شامل تھیں۔

ان افراد کی امام حسینؑ سے ہونے والی گفتگو سے یہ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین ؑ کو پیش آنے والی مشکلات سب پہ عیاں تھیں تو ایسے میں امام حسین ؑ بھلا کیسے ان سے پردے میں رہ سکتے تھے۔ یعنی اہل کوفہ کے رویے ان کے ماضی کے آئینے میں امام حسین ؑ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔

یزید کے مسند اقتدار پہ بیٹھتے ساتھ ہی اہل کوفہ نے امام حسین ؑ کو اپنے ہاں مدعو کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہزاروں خطوط اور کئی وفود کے ذریعے اما حسین ؑ کو اپنی بیعت کی یقین دہانی کروا رہے تھے۔ امام حسین ؑ سے کوفہ روانگی سے متعلق جس کسی نے بھی گفتگو کی امام حسین ؑ نے کسی سے کوئی بحث نہیں کی بلکہ ہر کسی کو ایک ہی بات کی کہ اہل کوفہ کے دعوتی خطوط ان کے پاس ہیں۔ جو امام حسین ؑ نے مختلف تھیلوں میں باندھ رکھے تھے جن کی تعداد تاریخ میں ہزاروں بیان ہوئی ہے۔

یعنی اس قدر حالات کی سنگینی کے بیان پر بھی امام یہ ہی فرماتے کہ میرے پاس اہل کوفہ کے ہزاروں میں خطوط موجود ہیں۔ یہاں تک کہ مقام اشراف پہ ابن زیاد کے لشکر جس کی قیادت حر بن یزید کر رہا تھا سے ملاقات ہوئی تو اس وقت بھی امام حسین ؑ نے اہل کوفہ کے خطوط کو ہی اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ یہ ہی آپ نے کربلا میں یزیدی لشکر کے سربراہ عمر بن سعد کے ساتھ مذاکرات میں بیان کیا کہ میری آمد کا مقصد یہ تھیلوں میں پڑے اہل کوفہ کے خطوط ہیں۔

امام حسین ؑ اہل کوفہ کی دعوت پہ تشریف لائیں۔ آپ ؑ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ بھیجا۔ ابتدائی طور پہ 18 ہزار کے لگ بھگ افراد نے بیعت کی لیکن عین وقت پہ سبھی نے اپنی جان بچانے کے لیے امام حسین ؑ سے کو کربلا میں تنہا چھوڑ دیا۔ امام حسین ؑ اوپر درج کیے گئے صحابہ اکرام میں سب سے زیادہ زیرک انسان تھے انہیں خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اہل کوفہ کی سرشت میں بے وفائی اور بزدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔

لیکن اگر امام حسین ؑ دیگر صحابہ اکرام کی بیان کردہ حکمت عملی پہ عمل پیرا ہوتے تو یقیناً آپ تخت شام کے لیے اتنا تر نوالہ ثابت نہ ہوتے۔ ایک بہت بڑی خونریزی کے بعد آپ ؑ کے کامیاب ہونے کے بھی واضح امکان ہو سکتے تھے۔ لیکن اس سے مستقبل میں انقلاب ہر تخت شام کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اہل کوفہ کی منافقت کی نظر ہو جاتی۔ کوئی حق کے لیے اٹھنے والی تحریک کوفیوں کے شر سے محفوظ نہ رہ پاتی۔ آپؑ کے اس سفر سے جہاں امام حسین ؑ حق کے استعارے کے طور پہ ابھرے وہیں پہ تخت شام ظلم اور اہل کوفہ آستینوں کے سانپ کے طور پہ متعارف ہوئے۔

اگر امام حسین ؑ کوفہ کی جانب سفر نہ کرتے اور یزید کا اقتدار مستحکم ہو جاتا تو اہل کوفہ ہمیشہ اسی بات کا طعنہ دیتے کہ ہم نے امام حسین ؑ کو اپنی قیادت کی دعوت دی تھی لیکن امام حسین ؑ کا قیادت سے پیچھے ہٹ جانا یزید کے اقتدار کو مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ امام حسین ؑ اپنے ضمیر پہ اہل کوفہ کا یہ طعنہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ ؑنے اپنی اور اپنے اہل خانہ اور جانثاروں کی قربانی دے کر حق کی ہر تحریک کو اہل کوفہ سے خبردار کیا ہے۔ امام حسین ؑ تمام تر خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود صرف اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔ اور یہ ہی انسانیت کی معراج ہے کہ اسے اپنے ضمیر کے سامنے کھڑا ہونے میں کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments