افغانستان پر طالبان کا قبضہ: برطانوی فوج کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والے دو افراد کی کہانی


طالبان نے جیسے ہی افغانستان کا کنٹرول سنبھالا، پوری دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو وہاں کے عوام، خواتین اور ان افراد کی فکر ہوئی جو مغربی فوجوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ امریکہ،اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور ان افغانوں کی افغانستان سے نکالے گیں جو ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔

افغانستان سے لوگوں کو محفوظ نکالنے والی بعض پروازیں اب برطانیہ پہنچ چکی ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی نے برطانیہ پہنچنے والے ایک ایسے شخص سے بات کی جو برطانوی فوج کے ساتھ بطور مترجم کام کرتے تھے اور جن سے ان کی ملاقات افراتفری کے ماحول میں کابل ائیرپورٹ پر ہوئی تھی۔

خالد برطانوی فوج کے سابق مترجم تھے اور حال ہی میں افغانستان سے محفوظ نکالے جانے کے بعد انگلینڈ پہنچے ہیں۔

اپنے ہوٹل کے کمرے سے بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ تھی اور وہ بہت خوش تھے۔

انہوں نے بتایا، ” بہت اچھا محسوس ہورہا ہے۔ سب بہت اچھا ہے”۔

خالد

خالد کا کہنا ہے کہ برطانیہ آکر وہ بہت خوش ہیں

ہماری خالد سے پہلی بار ملاقات جمعہ کے روز کابل ائیرپورٹ پر ہوئی تھی۔ اس وقت ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور تین بچے تھے جن میں سے ایک نوزادہ تھا۔ برطانوی سفارت خانے نے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی لیکن ائیرپورٹ کے گیٹ کے قریب لوگوں کا بڑا ہجوم دیکھ کر وہ گھبرا گئے کہ ان کے لیے ائیرپورٹ کے اندر جانا بالکل ناممکن ہے۔

دھول مٹی، گرمی، اور افراتفری کے ماحول میں ان کو فکر تھی کہ ان کا بچہ مرجائے گا۔

خالد نے بی بی سی کو بتایا، ” میں نے سوچا کہ میں کبھی بھی کمیپ کے اندر داخل نہیں ہو پاؤں گا۔ میرے بچے کی حالت کافی خراب تھی۔”

ان کے اس آزمائش میں ہجوم کے درمیان طالبان کے ہاتھوں کوڑے کھانا بھی شامل ہے۔

ائیرپورٹ کے باہر مشکل حالات میں بیٹھے لوگوں میں بیشتر کو ابھی تک ویزا نہیں ملے ہیں۔ وہ افغانستان چھوڑ کر جانے کے لیے بے چین ہیں اور بس اس امید میں ائیرپورٹ کے باہر بیٹھے ہیں کہ انہیں ویزا مل جائے گا۔ وہ اپنے ساتھ بیرونی سفارتخانوں اور فوجوں کے ساتھ کام کرنے کے شواہد والے دستاویزات لیے بیٹھے ہیں۔

ائیرپورٹ کے باہر لوگوں کا بھیڑ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جن کے پاس ملک سے باہر جانے کا اجازت نامہ اور ان سے متعلق دستاویزات ہیں ان کو بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

خالد اپنے اہل خانہ کے ساتھ

خالد کے سب سے چھوٹے بچے کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی

ہم نے خالد اور ان کے خاندان کی صورتحال کے بارے میں برطانوی فوج کو اطلاع کی جس کے بعد وہ خالد کو ائیرپورٹ کے اس کاونٹر تک لے گئے جہاں خالد جیسے لوگوں کے جہاز میں بٹھانے کے لیےدستاویزات چیک کیے جارہے تھے۔

برطانیہ کے لیے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے خالد کی اہلیہ اور نوزادہ بچے کو طبی امداد بھی موصول ہوئی۔

خالد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے محفوظ نکلنے پر انہیں سکون کا احساس ہے لیکن وہ ایک ایسا لمحہ تھا جس میں خوشی بھی تھی اور غم بھی۔خالد کو ڈر تھا کہ برطانوی فوج کے لیے کام کرنے کی وجہ سے طالبان ان کو نشانہ بناسکتے ہیں حالانکہ طالبان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ بیرونی افواج کے لیے کام کرنے والے افراد کو کچھ نہیں کہیں گے۔

خالد کا کہنا ہے ، ” وہ اس وقت یہ سب کہ رہے ہیں لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیا ہوگا”۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ، ” مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے اپنا ملک چھوڑا، اپنے لوگ، اپنی ماں، بھائی ، بہن، سب چھوڑ دیا۔ لیکن اب میں برطانیہ آکر خوش ہوں”۔

خالد کو اپنے ان دوستوں اور رشتہ داروں کا فکر ہے جو افغانستان میں پرائیوٹ برطانوی سیکورٹی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی اور ملک میں رہائش میں مدد کے لیے اہل نہیں ہیں۔ خالد برطانوی حکومت سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں بھی افغانستان سے محفوظ نکلنے میں مدد فراہم کی جائے۔

خالد کے رشتے داروں اور دوستوں کی طرح متعدد افراد ایسے ہیں جو افغانستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں لیکن جا نہیں پارہے ہیں۔

خالد اپنی بیٹی کے ساتھ

خالد کی برطانوی حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ان لوگوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد کرے جو برطانیہ کی پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے تھے ۔

اس کے علاوہ خالد ہی کی طرح برطانوی فوج کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والے بھی ایسے متعدد افراد ہیں جو ابھی تک افغانستان میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سے بی بی سی کے ‘ریڈیو فار’ نے دو روز قبل بات کی ہے۔

(سیکورٹی خدشات کی وجہ سے اس مترجم کی شناخت واضح نہیں کی گئی ہے)۔

’میں جہنم میں ہوں اور یہاں سے نکلنے کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں۔‘

کابل ائیرپورٹ پر موجود اس مترجم کا کہنا تھا کہ اُن کے وہ ساتھی جو بین الاقوامی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کر چکے ہیں ان کو پہلے ہی طالبان کی جانب سے دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں۔

وہ کہتے ہیں آج اپنے ملک میں وہ جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ برطانوی فوج کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔

ان کے مطابق وہ وہ اپنی اہلیہ اور چار ماہ کی بچی کے ساتھ گذشتہ 24 گھنٹوں سے زیادہ وقت سے ائیرپورٹ پر لگی لمبی قطار میں کھڑے تھے تاہم طیارے میں سوار ہو کر افغانستان سے نکل سکیں۔

یہ مترجم ان ہزاروں افراد میں شامل ہیں جو گذشتہ کئی دنوں سے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر موجود ہیں اور فلائیٹ پر سوار ہونے کے منتظر ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد اس وقت ائیرپورٹ پہنچنا شروع ہوئے تھے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔

برطانیہ امریکی فوج کے ساتھ مل کر افغانستان کے شہریوں کو انخلا میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

داڑھی سے ’استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ‘ اور طالبان کی کاسمیٹکس کی دکان سے بیویوں کے لیے خریداری

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ‘سلطنتوں کا قبرستان’ بناتا ہے

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان پناہ گزین کہاں جائیں گے؟

انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں آپ کو بغیر کھائے پیئے 14 سے 15 گھنٹے انتظار کرنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں بہت سے افراد کو دیکھ سکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو۔ اطلاعات کے مطابق ائیرپورٹ کے گیٹ کے باہر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی طریقہ، کوئی راستہ نہیں کہ ہم وہاں جائیں اور لوگوں سے پوچھیں۔ میں دراصل کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے کوئی (برطانوی) سفارتخانے سے مل جائے تو میں اس سے صرف یہ پوچھوں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

”میں ان کو ہمیشہ دسیوں ای میلز بھیجتا ہوا اور میں ان سے کہتا ہوں خدارا ہماری مدد کریں اور وہ مجھے بس ایک جوابی ای میل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں۔ ”

وہ کہتے ہیں کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے اور یہ حدت ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کی عمر فقط چار ماہ ہے۔

‘’وہ رو رہی ہے، چیخ رہی ہے وہ بہت بے چین ہے اور میں کیا کہوں۔‘’

”میرے کچھ دوست پہلے سے ہی کچھ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مثلاً انھیں طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل چکی ہیں۔ کچھ لوگ ہمارے گھر کے دروازے تک آئے اور انھوں نے ہمارے بارے میں پوچھا۔ ”

”یہاں مترجم کی خدمات دینے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کا مستقبل بے حد غیر یقینی کا شکار لگتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہم جہنم جیسی صورتحال میں ہیں۔‘

افواج کے امور سے متعلق وزیر جیمز ہیپی نے ‘بی بی سی بریک فاسٹ’ کو بتایا کہ 6631 افراد کو افغانستان سے گذشتہ ہفتے نکال لیا گیا ہے اور 24 گھنٹوں میں نو فلائیٹس چلانے کا منصوبہ ہے۔

افغان مترجم جو برطانوی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں وہ برطانیہ میں افغان ریلوکیشن اینڈ اسسٹنٹ پالیسی پر کام کر سکتے ہیں۔

لیکن جس مترجم کی بی بی سی سے بات ہوئی وہ ان مترجمین میں شامل ہیں جو اب بھی افغانستان سے محفوظ طریقے سے نکلنے کے منتظر ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ 2000 مترجم افغانستان سے اب بھی برطانیہ کی سکیم کے تحت نکلنے کے منتظر ہیں۔

برطانوی حکام سے براہ راست التجا کرتے ہوئے مترجم نے پیغام دیا میں آپ کے ساتھ ہر جگہ تھا، میں بہت سے خطرناک علاقوں میں آپ کے ہمراہ تھا۔

”مجھے ان کے لیے خوراک کی ضرورت نہیں، مجھے ان کے لیے چھت کی ضرورت نہیں میں بس ان کو اس جہنم سے نکالناچاہتا ہوں۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp