دور کے ڈھول سہانے


اونچے، لمبے برج، سجے سجائے جھروکے، پھولدار بالکونیاں، کھلے کھلے لان، منقش دروازے، رنگدار کھڑکیاں، جدید اور قدیم طرز تعمیر پر ایستادہ، وسیع و عریض رقبے پر پھیلی وہ عمارت ہر گزرنے والے کو ایک دفعہ تو ضرور رکنے پر مجبور کرتی ہے۔

ماسی رحمتے : چالیس سالہ عورت، جو روز اس راستے سے گزرتی ہے اور ساتھ والی پوش سوسائٹی میں گھروں میں کام کرتی ہے۔ جب تھکی ہاری گھر کو واپس آتی ہے تو بڑی اوکھی ہو کے دل میں اٹھنے والی حسرتوں کو اندر ہی اندر دباتی ہے کہ کاش وہ بھی اس طرح کی عالی شان رہائش رکھتی، بیسیوں نوکر اس کے اردگرد گھومتے، وہ دوسروں پر حکم چلاتی، ہڈیاں دبواتی، ہزاروں کھانے پکواتی لیکن ہائے اس کی حسرتیں۔

احمد علی: بارہ سالہ بچہ جس کا بچپنا لڑکپن سے گلے مل رہا ہے۔ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ اسی علاقے میں دوڑتا بھاگتا ہے۔ اسی حویلی کے پاس چھپن چھپائی، گلی ڈنڈا، کرکٹ، بنٹے کھیلتا ہے۔ اسی راہ گزر سے میل دو میل آگے اس کا اسکول ہے۔ اور جب وہ اپنی سائیکل پر سوار یہاں سے گزرتا ہے تو کئی ننھی منی خواہشوں کی کونپلیں اس کے دل میں سر ابھارتی ہیں۔ کہ میں بھی بڑی گاڑی میں بیٹھ سکوں۔ باہر سے نظر آنے والے جھولوں پر اندر جا کے پاگلوں کی طرح جھوموں۔ اس بڑے سے لان میں شاہد آفریدی کی طرح چھکے لگاؤں۔ ان فریب دیتی راہداریوں میں لیکن میٹی کھیلوں اور کبھی اپنے دوستوں کے ہاتھ نہ آؤں لیکن ہائے! اس کی خوار ہوتی خواہشیں۔

شفیق حسن: چودھویں گریڈ کا سرکاری ملازم، جس کا دفتر اس اونچی، بلندوبالا، کشادہ محل کے ایک طرف اور اس کا گھر اس کی دوسری سمت ہے۔ جسے چار و ناچار اس امارت ٹپکاتی building کا دیدار آتے جاتے کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور یہ دیکھنا اس کے لئے قیامت ڈھا دیتا ہے۔ اور اسے اپنا چار مرلے کا مکان مزید سکڑتا محسوس ہوتا ہے۔ اپنی اچھی بھلی موٹر سائیکل، پھٹپھٹی لگنے لگتی ہے۔ اپنا عالم چنا جتنا قد بونا دکھنے لگتا ہے اور ارمان مچل مچل کر اللہ سے بہت سارے پیسوں کی دعا کرنے لگتے ہیں۔ لیکن ہائے، اس کی بے تاب تمنائیں۔

محمد حسین: علاقے کا درمیانے درجے کا زمیندار، جس کا اس پر تمکنت رہائش کے مالک سے باہر باہر، کبھی کبھار کا ملنا ملانا ہے۔ لیکن یہ شاذ و نادر کا ملنا ہی اس کی سوچوں کو بھاری کر دیتا ہے۔ مقابلے کا دھواں اس کی ساری مثبت سوچوں کو کالا کرتا جاتا ہے۔ حسد کے ناگ اس کے اندر کو ڈنگ مار مار کے زہریلا کرتے ہیں۔ کہ کب وہ بھی اتنا بڑا جاگیردار بنے گا اور کب ایسی باوقار، بے فکر زندگی اس کا نصیب بنے۔ لیکن ہائے اس کے نا آسودہ خواب۔

اور آئیے اب اس ہر دم لبھاتے در و دیوار کے اندر چلتے ہیں جس کے دروازوں پر چاق و چوبند دربان ہر وقت چوکنا ہیں۔ نظر دوڑائیں تو چم چم کرتا، ہریالہ باغ آنکھوں کو بہت بھلا لگتا اور طراوت بخشتا ہے۔ کمرے، دالان، بالکونیاں سب لش پش کر رہی ہیں لیکن ایک احساس جو اس سب پر حاوی ہے وہ ویرانی، خاموشی اور چپ کا ہے۔ ذرا اور آگے جائیں تو تین کمروں میں تین افراد اپنی اپنی سوچوں میں گم ہیں۔ گھر کا مالک جس کی اکلوتی اولاد، اس کا بیٹا چھ سال کی عمر سے اپنی بینائی کھو رہا ہے

اور ہر طرح کی دوڑ دھوپ کے بعد کہیں سے بھی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا اور ایک سال کے دوران اس کی رہی سہی بینائی بھی بالکل ختم ہو جانی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ وہ حالت نزع میں ہے اور کسی معجزے کا منتظر ہے ورنہ یہ مال و اسباب، یہ شان مرتبہ کس کام کا؟

اس سے ملحقہ کمرے میں مالکن اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے، ہر وقت ایک ہی ورد کرتی ہے کہ اس گھر کے چراغ کی روشنی سلامت رہے۔ کوئی انہونی اس کے لاڈلے، چار اولادوں میں سے صرف بچ جانے والے اس کے سپوت کو اندھیروں سے بچا لے۔ چھن جانے کا خوف اس کے دل سے نکال دے۔ وہ کپڑوں، زیور، خوشی سے بے نیاز ہر گھڑی بہتے آنسوؤں اور خشک ہونٹوں سے بس یہی دعا کرنے میں مگن ہے۔

اور تیسرے کمرے کی کھڑکی کے پاس آرام دہ کرسی پر وہ بیٹھا ہے جس کی بصارت تاریکی میں بدل رہی ہے۔ بچپن سے ہاتھ کا چھالا بنا کر، ہر آسائش کے ساتھ اس کی پرورش ہوئی ہے۔ لیکن اب کوئی ایسا نہیں جو اسے اس قطرہ قطرہ ہاتھوں سے پھسلتی ریت جیسی دولت کو سمیٹنے کا ہنر تھما دے۔ وہ سارا دن بھوک پیاس سے بے پرواہ اس کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا ہے۔ ہر گزرنے والے انسان، جانور، چرند، پرند، پھول، بوٹے کو حسرت سے دیکھتا ہے اور اتنی جزئیات سے دیکھتا ہے کہ ایسی تفصیل کسی بینا کو بھی یاد نہ ہو۔

بات کچھ گہری لیکن بڑی مختصر ہے کہ:

دولت صرف پیسوں کی نہیں ہوتی۔ زندگی، صحت، ایمان، محبت، بصارت، سماعت، عقل، سمجھ، صبر، اور قناعت بھی بے مول امیری ہیں۔

آزمائشیں ہر ذی روح کی مختلف ہیں۔ اولاد کا ہونا نہ ہونا، بیماری، بے امنی، جنگ، مال کا ہونا نہ ہونا، عزت و مرتبے کا ہونا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔

ہمارا رب رحیم، کریم، عادل اور منصف ہے وہ پوری کائنات میں صرف کسی ایک کو کیوں اور استطاعت سے زیادہ کیوں محروم رکھے گا؟

ہر خوشی روپوں سے نہیں خریدی جا سکتی۔ دنیا کے بازار میں ہر مال بکاؤ نہیں۔

اس لئے آگے ضرور بڑھیں، ترقی کا سفر کرنا آپ کا حق ہے لیکن ہر انسان کو اس کے لئے اپنی آزمائشوں سے شکر، لگن، یقین، محنت اور توکل کی ایسی ترکیب سے خود گزرنا ہے جس میں حسد، مقابلہ بازی، بے حسی اور بے صبری کے ingredients نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments