بٹنوں والا موبائل نظام بدلنا ہو گا


جس طرح موبائل ٹیکنالوجی ترقی کی منازل طے کرتی کرتی، بٹنوں سے ٹچ سکرین تک آ گئی۔ بالکل اسی طرح دنیا کے آرڈر و قوانین بدلتے اور ترقی کرتے رہے۔ جیسے انگلستان برصغیر سے جان چھڑانے کے لیے بہت سے معاملات میں الجھا تھا، وہیں جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے پہلے برطانیہ بھی اہم ستون ثابت ہوا۔ یعنی برطانیہ بچاؤ یا برصغیر بچاؤ۔ قوم پرست تھیوری نے کام کیا، جس وجہ سے ہمارے لوکل لوگ ہیرو بن گے۔ خیر یہ الگ عنوان ہے کہ تاج برطانیہ نے طاقت بھی اپنے برطانیہ پلٹ گریجویٹس کو عطا فرمائی۔

جنگ دوئم کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے، کہ دنیا کو جاپان پہ ایٹمی حملہ کی تباہ کاریوں کا پریکٹیکل علم ہو گیا۔ جس کے بعد تمام ترقی یافتہ ممالک ان تباہ کاریوں سے بچنے کے اسباب ڈھونڈنا شروع ہو گئے۔ بہت سے محققین نے نئے علم و تحقیق کی بنیاد رکھ دی۔ جس میں نیوکلیئر ری نیو ایبل انرجی، اور نیوکلیئر میڈیسنز سرفہرست ہیں۔ خصوصی طور پہ 1960 کے بعد نیوکلیئر فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا معاملہ سر اٹھانے لگا۔ مزید فضلہ پیدا کرنے کی شدید حوصلہ شکنی شروع کردی گئی۔

فضلات کو ری نیو ایبل انرجیز سے جوڑ کر انسانی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ اب سائنس کی دنیا میں دو چیزیں ریڑھ کی ہڈی کے طور شامل کی گئی ہیں، نمبر ایک گرین ریسورسسز، نمبر دو پبلک ہیلتھ سسٹمز۔ اب دنیا نیوکلیئر بم پہ پیسے لگانے کی بجائے ان دو ریسورسسز پہ پیسہ لگا رہی ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ آپ اتنا پیسہ لگا کے بم بنائیں، جو یقیناً بعد میں کہیں استعمال نہیں ہوگا، نہ دنیا آپ کو کرنے دی گی۔

اس کی نسبت آپ ہیلتھ انوویشن پہ پیسہ لگائیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اس نقطہ پہ جنگ ہو رہی ہے، کہ بہترین ویکسین کون بناتا ہے۔ اب فائزر اور سائنو فارم کی جنگ ہے۔ ہم نے دو ہزار بیس دیکھا ہے، جب سپرپاور کو تھرڈ کلاس نامکمل خلیہ کوویڈ۔ 19 نے گھٹنوں کے بل کر دیا تھا۔ آج بھی سب ابنارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں دنیا اپنے تمام ریسورسسز ویکسین بنانے پہ لگا رہی ہے۔ اس دوران ہم نے کوئی چار بم ٹیسٹ کر لیے ہیں۔ ہم نے ڈبلیو ایچ او سے تقریباً تین ارب ڈالر کوویڈ کی مد میں امداد لے چکے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ ہمارا وزیراعظم، وزیر خارجہ قرض و امداد مانگنے قریہ قریہ ملک ملک کی خاک چھانتے نظر آتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سائنسدانوں کو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں صفر بجٹ دے کے مکمل ذہنی بیروزگار کر دیا گیا ہے۔ وہ ناکارہ مشینوں کے اوپریٹرز ہیں۔ جو مشین خراب ہونے پہ اچھے ٹیکنیشن تک ثابت نہیں ہوتے۔

ہاں، البتہ ہم نے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لیے کچھ بندوبست کیے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ایک وزیر کی چیخ و پکار دو سو ارب ڈالر ہوتی تھی۔ جو ارب سے عرب ہوتے ہوتے، اب ترک ہو گئی ہے۔ ارطغرل ڈرامے کے لیے بجٹ لگایا گیا۔ اس کا اردو میں ترجمہ کر کے سرکاری ٹی وی پہ نشر کیا گیا۔ جہاں عوام کی ذہنی نشوونما بادشاہ کی اطاعت کرنے میں کی گئی ہے۔ ہر اختلافی آواز کو غداری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ دنیا بادشاہت سے نکل عوامی جمہوری ہو چکی ہے۔ مگر ہمارا بٹنوں والا موبائل نظام بادشاہت قائم ہے۔ اختلاف، تنقید جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ جس سے حکومتی بنچ کو قبلہ درست کرنے میں مدد ملتی ہے۔ خیر سونے سہاگہ ایک اور ڈرامے پہ خرچ کرنے کی تیاری جاری ہے۔ تاکہ ڈکٹیٹر مائنڈ سیٹ کو ترقی دی جاسکے۔ یاد رکھیں ریسرچ کے لیے ہمارے پاس ایک روپیہ نہیں۔

دنیا میں ہر لیبارٹری اور سائنسدان اپنی ڈومین میں تگ و دو کر رہا ہے، کہ وہ سسٹین ایبل ریسورسسز اینڈ ہیلتھ میں نئی جہتیں لائے گا۔ گاڑیاں، بجلی گرین انرجی پہ کنورٹ ہوچکے ہیں۔ وہیں ہم دور حاضر میں بھی پیٹرول پہ چل رہے ہیں۔ آئے روز بجلی کے بل ریوائز ہو رہے ہیں۔ یاد رکھو اب بموں کی نہیں محض ایک وائرس کی جنگ ہو گی۔ جو وہی جیتے گا جس کے محقق تگڑے ہوں گے ۔ مگر کیا کریں ہمیں بموں اور ڈراموں سے نجات نہیں ملتی۔ علم و حکمت کی کوکھ بانجھ نہیں مگر کوئی مائی کا لال نہیں جو اسے ہرا کرے۔

دنیا ہائی رائز بلڈنگ پہ چلی گئی مگر ہم آج بھی زرعی زمینوں پہ مرلہ مرلہ کھیل کے سیمنٹ بھر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا ہاؤسنگ سیکٹر ایک اعلی ترین ریسورس ہے۔ ہمیں نئے شہر اور ہائی رائز بلڈنگ پہ توجہ دینی چاہیے۔ آپ یقین کریں اسلام آباد میں آبادی، گاڑیاں اس قدر ہو گئی ہیں کہ گھٹن ہوتی ہے۔ یہاں نوکری کے لیے آنے والے بہت کم ہیں۔ مگر جو دھرنے پہ آئے وہ واپس نہیں گے۔ دھرنے بھی برسات میں ہوئے، جب پہاڑیوں کا حسن جواں تھا۔

سب لوگوں نے یہیں کلے ٹکا لیے۔ خیر اب تو دھرنے والے کرسی پہ بیٹھے ہیں، جو نہ واپس جائیں گے نہ نئے شہر بسیں گے، نہ دو سو ارب ڈالر آئیں گے، نہ ہی تحقیق پہ پیسے لگے گے۔ یہ ملک ایسے ہی پرانے بٹنوں والے موبائل کے نظام پہ چلتا رہے گا، پھولی ہوئی بیٹری کے ساتھ۔ جس کے خزانے کی چارجنگ بھی عوام کے خون کے ساتھ ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments