دل کے داغ دھوئے کون؟


دنیا میں ہر انسان کے دل کی کیفیت ایک جیسی نہیں ہو سکتی، کسی کا دل شیشے کی طرح صاف ہے اور کسی کا دل پتھر کی طرح سخت ہے۔ ہم یہ قیاس آرائی ضرور کر سکتے ہیں کہ پاکیزہ دل شیشے کی طرح صاف ہو سکتا ہے اور سخت دل پتھر کی طرح۔ بلاشبہ اس بات کا اطلاق حساسیت اور اثر پذیری پر مبنی ہے۔ کون کس حالت میں ہے؟ اس کیفیت کو وہی جانتا ہے جس پر یہ عالم طاری ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کو حالات و واقعات ہی ضرب کاری لگا کر اسے ایسا بناتے ہیں۔ اگر اس انہونے لوتھڑے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ

دل جسمانی اور روحانی زندگی کا علمبردار ہے۔ یعنی اس عضو کی فضیلت جسمانی طور پر بھی نمایاں اور روحانی طور پر بھی بالاتر ہے۔ دونوں صورتیں زندگی کے مفہوم کو واضح کر کے بنی نوع انسان کو یاد دلاتی ہیں کہ دل خدا کی خوب صورت کاریگری ہے۔ اس میں زندگی کی وہ باتیں، خیالات، احساسات اور جذبات سموتے ہیں، یہاں زندگی کی خوبصورتی اپنے رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہو کر اپنی سمت دریافت کرتی ہے۔ ویسے یہ دل کیا چیز ہے؟ جس سے جسمانی اور روحانی زندگی کا چشمہ پھوٹتا ہے اور پھر اس چشمے سے میٹھا یا کھاری پانی نکلتا ہے۔

یقین کیجئے قوت فیصلہ قوت ارادی کے تحت وجود میں آتا ہے۔ لہذا قوت اور سمت زندگی کے وہ بنیادی محرکات ہیں۔ یہاں سے انسان کی پہچان شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ زندگی کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے اندر تخیل کی بلند پروازی ہونا ضروری ہے، تاکہ اغراض و مقاصد واضح ہو جائیں۔ اگرچہ اس دل میں شعلہ نفسی اور فکر و خیال کے جوہر موجود ہیں۔

یہ دل بھی کیا چیز ہے؟ جس میں چاہتوں کے ارمان، خوشیوں کے پھول، موسموں کی اثر پذیری، اور تصورات کی جنگ ہے۔ جو بھروسے کی فضا بھی پیدا کرتی ہے اور بدظن ہونے کی خاک بھی اڑاتی ہے۔ بس کیا کریں کبھی یہ دل بھروسے کی ریکھائیں بناتا ہے۔ اور کبھی قول و اقرار کا ورد کرتا ہے۔ ہمارا سماجی شعور کس قدر پختہ ہے؟ اگر اس کڑوی حقیقت کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا

ہمارا سماج سائنسی اور دنیاوی اعتبار سے روز بروز تعمیر و ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اور وقت ہر انسان کو ترقی کے یکساں مواقع عطا کرتا ہے۔ خیالات آزاد پرندوں کی طرح دل کے گہرے سمندر میں اچھلتے کودتے رہتے ہیں، کبھی یہ بقا کی خوشخبری اور کبھی جہنم کے آگ میں اتارتے ہیں۔

ذرا سوچئے! یہ دل تو منبع حیات ہے، نہ جانے کیوں پھر بھی ہم اپنے قدم دلدل میں پھنساتے ہیں۔

فطری طور پر تو یہ دل حساس شفاف اور پاکیزہ ہے۔ تو پھر کیوں ہمارے منزہ جذبے ماند پڑتے ہیں اور خواہشات کے حصار اسے کیوں داغدار کرتے ہیں؟ ہم اسے اتنا کیوں مجبور اور بے بس کر دیتے ہیں یہاں مایوسی اور افسردگی کی پرچھائیاں پڑنے لگتی ہیں؟ ہمارا دل ہم سے سوال پوچھتا ہے تم مجھے اتنا کیوں جلاتے تڑپاتے اور رلاتے ہو؟ جب کہ میں تو زندگی کی شہ رگ ہوں۔ میرا کچھ تو لحاظ رکھو اور دیکھو میں کیسا مہربان ہوں۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دل کی کیفیت بار بار بدلتی ہے۔ کبھی یہ دل محبت کی جگالی کرتا ہے اور کبھی یہ کڑواہٹ کی رال ٹپکاتا ہے۔ یہ بار بار واویلا کرتا ہے

کہ میرے اندر سے ان لعنتوں واہموں، کرچیوں، ناچاقیوں، ناپا کیوں، اور بدیوں کو دور کرو میں تمہیں جسمانی اور روحانی برکات سے مالامال کروں گا۔ میں تمہیں فرش سے عرش پر بٹھاوٴں گا۔ میں تمہیں دلی اطمینان اور سکون کی پرچھائیاں عطا کروں گا۔ لیکن میری شرط یہ ہے کہ مجھے پاکیزہ اور منزہ رہنے دو۔ مجھے پاکیزہ خیالات سے غسل دو تاکہ میں اجلا ہو جاؤں۔

دیکھو آج میں تمہارے آگے عذر پیش کرتا ہوں کہ مجھے ترو و تازہ رکھو تاکہ صبح ہوتے ہی مجھ سے شبنم کے قطرے نکلیں، جو اجلے موتیوں کا منظر پیش کریں۔ میں تمہیں حسین وادیوں، باغیچوں، باغوں میں لے جاؤں گا جہاں تمہیں ہریالی تروتازگی اور زندگی کی امید نظر آئے گئی۔

عموماً دل کی دولت اس وقت ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ جب اعتماد کی گانٹھیں اسے گرہ لگاتی ہیں۔ تو پھر یہ ایک طاقت بن کر ہمارے حوصلے بلند کر دیتی ہے۔ انسان میں جنگ لڑنے کی ایک قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اعتماد کا عصا تھام کر نکلتا ہے۔ تاکہ مخالف قوتوں کا سامنا کر کے لڑ سکے۔ کبھی یہ بیچارا افسردہ ہوتا ہے اور کبھی خوش و خرم۔ کبھی وہ خود پہ نوحہ کناں ہوتا ہے،

کہ تم نے میرا کیا حشر کر دیا؟ اسے ذرا ٹٹول کر دیکھو تو تمہیں داغوں کی خزاں ملے گی۔ نہ تم نے مجھے وقت پر پانی پلایا اور نہ تم نے مجھے متوازن غذا کھلائی بلکہ تم نے ملاوٹ سے مجھے ناپاک کر دیا۔ تم مجھے اتنا دکھ دینے کے باوجود بھی مجھ سے زندگی کی بھیک مانگتے ہو۔ آج تم دنیا کے اتنے کم بخت بھکاری کیوں بنتے جا رہے ہو؟ البتہ میں تمہاری زندگی کی چیخ و پکار، شور اور ہنگامہ سنتا ہوں تم نے مجھے آنسوؤں کے ندی نالے نہیں بلکہ سمندر میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس لیے میرا بہاؤ نہ رکتا نہ ٹھہرتا ہے اس لئے میں تمہارے جذبات بہا کر لے جاتا ہوں۔ دیکھو آج! میں وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تم سے کچھ مانگتا ہوں۔

دل کی خواہشات کے ساتھ عقل سے کام لینا بھی پختہ شعور کی علامت ہے۔ بلاوجہ خواہشات کے حصار میں جلنا

ایک بیوقوفی ہے اور ضمیر کی آواز نہ سننا اپنے منافقت ہے۔ وہ بار بار دہائی دیتا ہے مجھ پر خواہشات کا اتنا بوجھ نہ ڈالو، کہ میرا ستیاناس ہو جائے اور میرے اندر سے زندگی کی امید ختم ہو جائے۔

کاش! تم میری آواز پر کان دھرو میرا شور اور ہنگامہ سنو میں تمہیں اس کی بدلے سر اور راگ سناؤں گا جو تمہاری روح کے لئے غذا بن جائے گا۔ تم میرے دل کے اندر جھانک کر دیکھو میرے دل کے اندر کتنے روشن خانے ہیں۔ کیا کبھی تم نے چار سمتوں کا سفر نہیں کیا، کاش کیا ہوتا اور تمہیں مسافت کا اندازہ ہوتا۔

مجھے معلوم ہے تم نے میری فزیالوجی جانی، میری شکل بند مٹھی جیسی ہے اور میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوں جو تمہارے بدن میں دھڑکتا ہوں۔ کیا تم نے کبھی میرے اندر احساسات اور جذبات کا دیا جلایا تاکہ اس روشنی سے جہالت مٹ سکے؟ میرا امتحان لو اور مجھے آزما کر دیکھو میں تمہاری جہالت کو کس طرح روشنی سے دور کرتا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ میرا مشورہ یہ ہے کہ صبر اور شکر کا پیمانہ تھام کر رکھو کیونکہ صبر کا پھل میٹھا اور شکر، اپنے رب کی شکر گزاری کا درس دیتا ہے۔

میں تم سے ایک التماس کرتا ہوں کہ تمہارے پاس فکر و خیال کا وسیع حدود دربہ ہے، تاکہ میں تمہیں ایسا مقام اور فضیلت بخش دوں جہاں دو راستوں کا سفر ایک منزل میں تبدیل ہو جائے۔ میرے اندر تیل ڈالو میں خود جلوں گا۔ مجھے ہوا دو میں تمہیں بدلے میں آکسیجن دوں گا۔ تم مجھے لاکھ مصنوعی آلوں سے تراش کر دیکھ لو تم لوگوں سے میری کبھی بھی اصلی صورت نہیں بنے گی، کیوں کہ میں قدرت کی عجب صنائی ہوں۔ تم مجھے چلانے کے لئے جتنے مرضی مصنوعی ریموٹ کنٹرول بنا لو میرے اندر کبھی بھی خون کی سپلائی نہیں آئے گی کیوں کہ خدا نے مجھے خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔

ہماری فطرت بھی تعجب خیز ہے۔ یہ ہلکی سی مسکراہٹ کے پھول سے خوش ہو جاتی ہے۔ اور اپنے اندر یقین و ایمان کی فضا پیدا کر لیتی ہے۔ یہ انسانی فطرت میں رچا ہوا ایسا شگوفہ ہے۔ جو اپنے اندر سے اثر قبولیت کی کونپلیں نکالتا ہے۔ لیکن جب ان پر منافقت کی دھوپ پڑتی ہے تو یہ کونپلیں کملا جاتی ہیں اور پھول کھلنے سے پہلے سوکھ جاتا ہے، دل نوحہ کناں ہوتے ہوئے کہتا ہے!

میں آج تم لوگوں سے رنجیدہ ہوں کیونکہ تم لوگوں نے میرے اندر حسد، جلن اور کڑھن کی دھونی جلائی، تاکہ میں بہت جلد ناکارہ ہو جاؤں۔ میں نے اپنی خوردبین سے تمہاری ریاکاری دیکھی۔ تم نے مجھے سوائے داغوں کے اور کچھ نہیں دیا۔ تم نے میری حسی قوتوں کو جلا ڈالا جس سے میرے جذبات اور احساسات آگ کی نظر ہو گئے۔ تم نے میری ساتھ مادہ کے تینوں حالتوں کا کھیل کھیلا ٹھوس حالت نے مجھے سخت بنا دیا، گیس اور مائع نے جلا کر را کہ کر دیا۔ اب تم مجھے جواب دو میں ان شعلوں، داغوں، اور کثافتوں کو مٹانے کے لیے کون سا کیمیکل استعمال کروں۔ مجھے جواب دو کہ میں کون سی صراحی سے غسل دوں، کون سا برقی کرنٹ استعمال کروں اور علتیں کاٹنے کے لیے کون سی ڈور استعمال کروں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments