اٹھو کہ وہی معرکہ روح بدن ہے


فکری پسماندگی اور ذہنی افلاس کا نوحہ کیا لکھا جائے کہ صد بار وہی دلائل، وہی ڈھاک کے تین پات، اور وہی رویہ کہ ذبح کر کے ثواب بھی سمیٹنا۔ عقل کی ناؤ جب بحر جہالت میں ہلکورے کھانے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ سوچ کے پتوار دریا برد ہو چکے ہیں۔ قوموں پر فکری زوال بھی آتے ہیں، مگر چند سالوں کے لیے۔ ہمارے یہاں تو ایسا اندھیر ہے کہ لفظ ”زوال“ اس مفہوم کو ادا کرنے سے قاصر آتا ہے۔ جس کو دیکھو ناصح بنتے ہوئے پارسائی کی لٹھ تھام کر دوسروں کی عاقبت سنوارنے کی تگ و دو میں ہے۔

اختلاف کرو اگر کسی سے تو کافر بنو، غداری کا لیبل لگواؤ یا قصور وار ٹھہرو۔ ناصحوں کی صف میں کچھ تخصیص کسی کی نہیں۔ دائیں و بائیں بازو والے دونوں ہی ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے بے تاب۔ غامدی صاحب اس ملک کا اثاثہ تھے، جو حشر ان کا ہوا، ایسا حشر تو گناہ گاروں کا بھی حشر کے دن نہ ہو گا۔ غامدی صاحب سے اختلاف روا ضرور ہونا چاہیے مگر یہ دانائی کہاں کی ہے کہ انہیں مغرب کا ایجنٹ کہا جائے۔ کوئی بھی اختلاف کا گھونٹ حلق سے اتارنے پر آمادہ نہیں ہے۔

چلتے چلتے ایک اور بات بھی سنتے جائیں۔ ہمارے مہربان کو اصرار ہے کہ سخت سزائیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ان کے نقطہ نظر کا احترام تھا، مگر سوال تو نہیں دبتے، سانسوں کی ڈوریاں ٹوٹ جاتی ہیں، سوالات کی مالا کبھو نہ ٹوٹے۔ ان کی مخالفت میں کچھ سوالات اٹھے۔ انہوں نے جواب دیے، اس حد تو حاجت روائی تھی کہ جوابات دیے گئے وگرنہ تو سوالات اٹھانے والوں کو ہی اٹھا لیا جاتا ہے۔ مگر یہ کیوں کہ سوالات اٹھانے والے کو قصور وار کہا گیا، ایسا کیوں کہ سخت سزاؤں کا موقف رکھنے والوں کو یہ کہا جائے قصور ان کا نہیں بلکہ ان کے استادوں کا ہے۔

کیا وہ مطلقاً اس بات سے بے خبر تھے کہ سائل تو حاجت روا کو بھی نثری پیرائے میں استاد سمجھتا ہے۔ خیر چھوڑئیے، لب کشائی لاہور کے واقعے پر مقصود ہے۔ اول دلیل یہ ہے کہ ٹک ٹاکر نے اس ہجوم کو خود دعوت دی اس لیے یہ الم ناک، اندوہ ناک، اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ اگرچہ دلیل نہایت بودی ہے لیکن پھر بھی جائزہ لے لیتے ہیں تا کہ دائیں بازو والوں کو مزید تشنگی نہ رہے۔ ہم نے تو دیکھا نہیں لیکن اس ٹک ٹاکر نے یہی بتایا ہو گا کہ میں اپنی ٹیم کے ہم راہ صبح مینار پاکستان پر ویڈیو بنانے آ رہی ہوں، یا زیادہ سے زیادہ یہ لوگوں کو بھی کہا ہو گا کہ آپ بھی ادھر آ جانا۔

دل پر ہاتھ رکھیئے اور سانس تھام کر بتائیے کہ کیا فقط اس بنیاد پر اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جا سکتا تھا۔ دائیں بازو والے بھی فیصلہ خود کریں کہ ضمیر بہرحال کم لوگوں کا مردہ ہوتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ اس ہجوم کو فلائنگ کس (ایسے الفاظ کا اردو میں ترجمہ کرنے سے ہمیشہ عاجز آتا ہوں ) کا اشارہ کر رہی تھی اس لیے ہجوم بپھر گیا۔ کیا فلائنگ کس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ مجھ پر ٹوٹ پڑو، میرے کپڑے پھاڑ دو، میرے جسم کو نیلاہٹ زدہ کر دو، میری روح کے تاروں کو بکھیر دو۔

وہ ہجوم اس لیے وہاں آیا تھا کہ ان کے نزدیک وہ ٹک ٹاکر سلیبرٹی تھی، اور سلیبریٹیز اپنے فینز کو فلائنگ کس کرتی ہیں مگر کیا اس مراد ان کی یہ ہوتی ہے کہ اب میرا جسم اور تمھاری مرضی۔ جائیے اگر کسی بازار میں کوئی موزوں دلیل ہو تو خرید لائیے، ایسی بچگانہ اور بھدی دلیلوں سے تو آپ کے نقطہ نظر کی ترویج نہیں ہو گی۔ یہ کن کے ماننے والے عورتوں کی تذلیل سے نفس کی تسکین حاصل کر رہے ہیں۔ جن کو مانتے ہو وہ تو اخلاقیات کی معراج پر فائز تھے، مگر تم ہو کہ پستیوں میں گر کر بھی نازاں ہو۔

مکہ کی اس عورت کو بھول گئے ہو جو جسم اطہر پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ کیا اس عورت کو بھول گئے ہو جس نے کھانے میں رسالت مآبﷺ کو زہر دیا تھا، کیا یہ بھی بھول گئے ہو کہ رسالت مآبﷺ کا رویہ کیا تھا عورتوں کے ساتھ۔ ہمیشہ اچھا برتاؤ کیا، درگزر سے کام لیا۔ شکایت ہوئی تو چپ رہے۔ نظریں جھکی رہتیں۔ عورتوں پر تبصرے نہ فرمائے جاتے۔ کسی کو بھلائی و برائی کا سرٹیفیکیٹ نہ دیا جاتا۔ ایسا تھا رویہ رسالت مآبﷺ کا۔ حوالہ اس وقت ذہن سے محو ہے۔

امیر المومنین سیدنا عمر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ کی گلیوں سے گزر رہے تھے۔ دو آدمیوں کی جھگڑتے دیکھا۔ جھگڑنے والوں میں سے ایک کی نسبت امیر المومنین کا ساتھی کہنے لگا کہ یہ بہت نیک انسان ہے۔ کیا تم نے اس کے ساتھ دنیا داری کا کوئی معاملہ کیا ہے جو کہہ رہے ہو کہ وہ نیک ہے، امیر المومنین نے پوچھا۔ دنیا کا معاملہ تو نہیں کیا البتہ دیکھتا ہوں کہ وہ نماز بہت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے اور دین کے باقی احکام پر بھی عمل پیرا رہتا ہے۔

خدا تیرا بھلا کرے جب تو نے اس کے ساتھ کچھ معاملہ ہی نہیں کیا تو فقط نمازوں کی بنیاد پر کیوں اسے اچھا کہہ رہے ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہو۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ فقط دین داری کی بنیاد پر لوگوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ امیر المومنین کی فراست کو بھول چکے ہیں۔ نام بس تعظیم سے لیتے ہیں باقی تعلیمات سے کچھ غرض نہیں۔ امید ہے کہ لوگ اب افاقہ محسوس کریں گے، اگر افاقہ محسوس نہ ہوا تو اگلی بیٹھک میں پھر ملاقات ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments