ڈاکٹر خالد سہیل کے افسانوں کا مجموعہ: دیوتا


کرونا میں مبتلا ہو کر، میں گزشتہ ایک ہفتے سے قرنطینہ میں ہوں۔ یہ یقیناً ویکسین یافتہ ہونے کی افادیت ہی تھی کہ موذی وائرس کا حملہ زیادہ کار گر ثابت نہ ہوا۔ محسوس ہوتا ہے کہ وائرس ابھی تک ہمارے ناک، کان اور گلے کے شعبے میں گھوم پھر رہا ہے۔ شعبہ ہائے سینہ و سانس تا حال محفوظ ہیں۔ ہماری ہم سب کے توسط سے قارئین سے محبت بھری گزارش ہے کہ کسی نے اگر ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی تو پہلی فرصت میں لگوا لیں۔ اس کی بہت زیادہ افادیت ہے۔

اس دوران ڈاکٹر خالد سہیل کی تازہ ترین کتاب دیوتا پڑھنے کو ملی، جس نے تنہائی کا مزہ دوبالا کر دیا ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے پچیس افسانوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے مطالعے کے دوران جو عمومی تاثرات ہمارے ذہن میں ابھرے وہ چند سطور میں یوں بیان کیے جا سکتے ہیں :

اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں جا بسنے والوں کا کرب تین قسم کا ہو سکتا ہے :

اول: کچھ لوگ نئے دیس میں جا بسنے کے با وجود اپنے آبائی وطن کے طور طریقوں اور رسم و رواج سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ماضی کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے نئے دیس میں رہتے ہوئے بھی اس کو دل سے قبول نہیں کرتے اور ایک تکلیف دہ زندگی بسر کرتے تھک ہار کر چور ہو جاتے ہیں۔

دوئم : وہ مہاجرین جو نئے دیس میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ اپنے اصلی دیس اور ماضی کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ لیکن جب آخری عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے اپنے بچے بھی ان سے بیگانے ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ اب ان کو اپنے اصلی وطن کی یاد ستانے لگتی ہے۔ وہ وطن کو یاد کر کے تنہائی میں روتے رہتے ہیں۔ پچھتاوا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

سوئم : یہ افراد دیار غیر میں پہنچ کر دو کشتیوں میں سوار ہو جاتے ہیں۔ وہ مغرب کی ترقی و خوشحالی کی ساری سہولیات و آسائشوں سے مستفید بھی ہونا چاہتے ہیں اور اپنے وطن کی روایات کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ معروضی ماحول سے آنکھیں چرا، وہ اپنے بچوں کی تربیت اپنے آبائی وطن کی روایات پر کرنا چاہتے ہیں۔ بچے ان کے دوہرے معیار اور جبری روئیے کی وجہ سے یا تو باغی ہو جاتے ہیں یا دیوانے۔

مگر مہاجرین کی ایک چوتھی قسم بھی ہے۔ وہ اس قسم کے مہاجرین ہیں جو دونوں تہذیبوں کے رنگ اپنے اندر جذب کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تہذیبی توازن برقرار رکھ کر دونوں تہذیبوں سے لطف کشید کرتے ہیں۔ میں ان کے لئے تہذیبی مجذوب کا استعارہ استعمال کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر خالد سہیل کا تعلق بھی اسی چوتھے قبیلے سے ہے۔

ان کا افسانہ : جڑیں، شاخیں، پھل۔ ان چاروں قسم کے افراد کی زندگیوں کا ایک دلکش عکاس ہے۔

خالد سہیل قوم، نسل مذہب، عقیدے، جنس، جذباتیت اور روایات کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر ایک فطری زندگی گزارنے کے پر چارک ہیں۔ یہ بات اگرچہ صرف علمی و فکری معیار پر پوری اترتی ہے اور کسی حد تک مغرب میں قابل عمل بھی ہے۔ مگر ہم جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشروں کے معروضی حالات میں دور دور تک ایسی فطری زندگی کا کوئی امکان نہ ہے۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حقیقت پہلے افسانہ ہی ہوا کرتی ہے۔ آدرش و خواب ہوں گے تو حقیقت کا روپ کبھی نہ کبھی اختیار کر ہی لیں گے۔ افسانہ : دو کشتیوں میں سوار۔ اسی کیفیت کا افسانوی بیانیہ ہے۔

سہیل سنجیدہ ادب لکھتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے ان کا فکشن زندگی کے سنجیدہ مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ ان میں نفسیاتی بیماریوں اور جنسی الجھنوں میں مبتلا لوگوں کے دکھ اور درد شامل ہوتے ہیں۔ یوں ڈیمینشیا، ڈپریشن، اینگزائٹی اور ٹرانس جینڈر اور ٹرانس سکسوئل جیسے نفسیاتی و حیاتیاتی موضوعات ان کی کہانیوں کے اہم موضوعات بن کر ابھرتے ہیں۔ ان کے افسانے : مکیں کہیں اور چلا گیا، ہمزاد، الجبرا یا جیومیٹری اور کھلے اور بند دروازے ان ہی موضوعات کی عمدہ مثالیں ہیں۔

اس کے علاوہ افسانے : چند گز کا فاصلہ اور دو پیروں والی ماں۔ بالترتیب بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل اور جانوروں سے انسانوں کے ناروا سلوک پر نہایت دلکش تحریریں ہیں۔

اگرچہ تقسیم ہند اور پاکستان بننے کی داستان خون سے رنگین ہے۔ مگر دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے کے بعد بھی وطن عزیز کو نالائق، خود غرض اور نا عاقبت اندیش سیاست دانوں اور طالع آزماؤں نے چھ سات دہائیوں تک اپنے مفادات کی آماجگاہ بنائے رکھا۔ اس ضمن میں میٹھا زہر، گینگ ریپ اور دھرتی ماں اداس ہے۔ وطن سے محبت اور اہل وطن کے دکھ، درد آلام و مصائب کے حوالے سے تاریخی اور یاد گار افسانے ہیں۔

دھرتی ماں اداس ہے، ایک طویل داستان ہے جس میں سر زمین پاکستان و کشمیر نانی بن کر اپنی نواسی ۪ یعنی آنے نسل کو اپنی آپ بیتی سناتی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سو برس پر محیط بر صغیر پاک و ہند کی داستان خونچکان ہے۔ اس طویل داستان کے ذریعے ہماری تاریخ کی تلخ حقیقتوں سے نئی نسل کو روشناس کرایا گیا ہے۔ یہ طویل کہانی نئی نسل پر حقیقت اور عقیدت میں فرق واضح کرنے میں ممد و معاون ہو سکتی ہے چوبیس صفحات پر مشتمل، دھرتی ماں اداس ہے، وحدت تاثر کے اعتبار سے بھی ایک شاہکار کہانی ہے۔

تخلیقیت، دیوانگی اور روحانیت کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ افسانہ : بحران۔ اس فلسفیانہ دعوی پر پورا اترتا نظر آتا ہے۔

اسی طرح جن ماؤں کے جگر گوشے کبھی واپس نہ آنے کے لئے دیار غیر میں جا بستے ہیں ان کی جذباتی و نفسیاتی حالت کیسی ہوتی ہے۔ افسانہ: یوسف کی ماں۔ ایک ایسی ہی غمزدہ ماں کی روداد ہے۔

دیوتا : ٹائٹل افسانہ، کتاب کا آخری افسانہ ہے۔ یہ ایک ایسی بستی کی کہانی ہے۔ جہاں پر ہر طرف حزن و ملال نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لوگ اداس پریشان حال اور مایوسی کا شکار ہیں۔ اس کیفیت کو افسانے میں یوں منظوم کیا گیا ہے :

جب
ان کے بچے، جان اور بوڑھے اندر سے ٹوٹنے لگے تھے
ان کے دل پژمردہ ہو گئے تھے
ان کی روحوں میں پلنے والی آگ ٹھنڈی پڑنے لگی تھی
ان کے باطن پر جمتے جمتے راکھ ان کے چہروں تک آ گئی تھی
ان کے کردار کی خوشبو زائل ہو گئی تھی
ان کی آنکھوں کے چراغ بجھ گئے تھے
پورے شہر کو بے اطمینانی کے بادلوں نے گھیر لیا تھا
لوگ اپنے من کی گہرائیوں میں جھانکتے تو وہاں راکھ ہی راکھ نظر آتی
نہ کوئی خواہش تھی نہ کوئی خواب
نہ کوئی آرزو تھی نہ کوئی اضطراب
نہ کوئی چنگاری تھی نہ کوئی آگ
بس راکھ ہی راکھ۔

پھر ایک مسافر نے لوگوں کو بتایا کہ اس شہر سے بہت دور ایک پہاڑی کے سائے میں ایک دیوتا رہتا تھا جس کی قربت زندگی کی شمع کو ایک دفعہ پھر جلا دیتی تھی۔ لوگ کوسوں کا فیصلہ طے کر کے اس پہاڑی کے سائے میں پہنچے۔ وہ دیوتا ایک دراز قد، لمبے لمبے گیسؤوں والا مرد تھا جس کے چہرے پر زندگی کی بشارت تھی اور آنکھوں میں زندگی کی حرارت۔ وہ دیوتا ہر بچے، مرد اور عورت کا مسکرا کر استقبال کرتا۔ ان سے ہاتھ ملاتا، معانقہ کرتا، گفتگو کرتا، اور دعائیں دے کر رخصت کرتا۔

اس کی قربت سے لوگوں میں ایک نیا جذبہ ایک ہمت، ایک توانائی ایک ولولہ عود کر آئے تھے۔ اس طرح لوگوں کے چہرے پر پڑی راکھ آہستہ آہستہ کم ہونے لگی اور ان کے چہروں کی بشاشت اور زندگی کی حرارت لوٹ آئی۔ اس کے بعد جب بھی لوگوں کے من کی آگ کی لو میں کمی واقع ہونے لگتی وہ دوبارہ اس پہاڑ کے سائے میں اس دیوتا سے ملنے چلے جاتے۔ پھر ایک دن خبر آئی۔ دیوتا مر گیا۔ سب لوگ جوق در جوق اس پہاڑ کی طرف لپکے جس کی آغوش میں وہ دیوتا اپنا وقت گزارا کرتا تھا۔ ان کی ملاقات دیوتا سے تو نہ ہوئی، اس کی لاش سے ہوئی جس نے مرنے پہلے اپنی انگلی سے زمین پر لکھ رکھا تھا :۔ تم میں سے ہر انسان ایک دیوتا ہے۔

مصنف گزشتہ چار دہائیوں سے اوپر عرصہ سے مغرب میں مقیم ہیں۔ شاید اسی لئے چند افسانوں کے علاوہ زیادہ تر کے پلاٹ مغربی ہیں مگر وہ اپنے اندر مشرقی کاٹ رکھتے ہیں۔

زبان و بیان کی سادگی، کہانی کی بنت، الفاظ کا چناو اور پختگی و اثر آفرینی ان افسانوں کا خاصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قاری کی دلچسپی اور کہانی میں محویت کے اعتبار سے خالد سہیل کی کتاب دیوتا اردو ادب میں اہم اضافہ ہے۔ میں ڈاکٹر خالد سہیل کو ایک اور ادبی شاہکار تخلیق کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments