سندھ میں تعلیمی اداروں پہ بندش



صوبہ سندھ کے اندر رواں نیا تعلیمی سال اس دفعہ اگست کے مہینے سے شروع ہونا تھا، پر کورونا وائرس کی چوتھی خطرناک لہر کو مدنظر رکھتے ہوئے، پہلے تو لاک ڈاؤن کر دیا گیا، پھر محرم کی آمد پر لاک ڈاؤن تو ختم کر دیا گیا پر اسکول نہ کھولے گئے، اور عاشورے کے بعد اسکول کھولنے کا اعلان کر کے واپس لیا گیا۔ پر جب پیر کے روز آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کی طرف سے کراچی میں احتجاج کیا گیا تو، نئے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے احتجاج ختم کروا کر وعدہ کیا کہ تمام تعلیمی ادارے پچاس فیصد حاضری کے ساتھ تیس اگست سے کھول دیے جائیں گے بشرطیکہ ان کے اسٹاف کی سو فیصد ویکسینیشن مکمل ہو چکی ہو۔

انہوں نے یہ بھی ہدایات دیں کہ طلبا کے والدین بھی ویکسین کرا لیں۔ صوبہ سندھ میں محکمہ تعلیم ہمیشہ نظرانداز ہی رہا ہے، اور کسی ایک وزیر کو زیادہ دیر اس محکمے میں ٹکنے نہیں دیا گیا، اس کی وجوہات تو بہت ساری ہیں، پر سادہ سا تجزیہ یہ ہی ہے کہ جب ایک وزیر اس محکمے کو سمجھنے لگتا ہے اس سے قلمدان واپس لے لیا جاتا ہے۔ جب سعید غنی کو وزیر تعلیم بنایا گیا، تو وہ زیادہ وقت پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے ترجمان کے طور پر گزارتے تھے، اور جب دوسری مرتبہ تعلیم کا قلمدان سید سردار علی شاہ کو سونپا گیا تو یہ الفاظ سننے کو ملیں کہ ثقافت کے صوبائی وزیر کو تعلیم کا اضافی قلمدان دے دیا گیا ہے۔

اب جہاں تعلیم کا شعبہ ایک اضافی قلمدان کی حیثیت رکھتا ہو، وہاں کے حالات بھی کچھ حیران کن نہیں ہوں گے۔ اگست کے شروع ہوتے ہی سوائے سندھ کے تمام صوبوں میں نیا تعلیمی سال شروع کر دیا گیا ہے، پر افسوس صوبہ سندھ میں اب بھی اسکولوں کو تالے لگے ہیں، اور کورونا کو آئے ہوئے ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی ہم ایس او پیز پہ عمل درآمد یقینی نہیں بنا پائے۔ بیشک یہاں کی عوام کا عدم تعاون بھی مرکزی کردار ادا کر رہا ہے، پر حکومتی رٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جس سے بڑھ کر کوئی عوامی کوتاہی نہیں ہوتی۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے جوں ہی حکم دیا کہ تمام سرکاری افسراں اور ملازم ویکسین کروا لیں بصورت دیگر ان کی تنخواہیں بند کی جائیں گے، تو اس اعلان کے بعد جلد ہی سرکاری افسراں اور ملازمین نے دھڑا دھڑ ویکسینیشن کروائی، کیونکہ جب حکومت اپنی رٹ لاگو کرنے پر آئے تو ساری شہری اس کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی فیصلے اگر تعلیم کے شعبے میں لیے جاتے تو یوں اسکول دیر تک بند رکھنے نا پڑتے۔ بلاشبہ کورونا کی چوتھی لہر، اور ساتھ ہی انڈیا سے آیا ہوا ڈیلٹا ویریئنٹ، انتہائی ہی خطرناک اور موتمار ہے، پر کورونا وائرس اب جانے والا تو ہے نہیں تو پھر کب تو یوں تعلیمی نظام مفلوج رہے گا، اور کب تک بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگایا جائے گا۔

بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی پریشان ہیں، اور ان کو یہ فکر ستائی جا رہی ہے کہ، بچے پڑھیں گے نہیں تو کیسے آگے بڑھ پائیں گے، اور کیسے ایک کامیاب زندگی گزار پائیں گے۔ لگ بھگ دو سال ہونے کو آئیں ہیں، اور ہم اب تک کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کر سکے جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی محفوظ ہو۔ مسلسل تعلیمی اداروں کی بندش تو کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے، یہ تو مسئلے سے بھاگنے کا ایک طریقہ ہے، اور ہم اس انتظار میں ہیں کہ کورونا وائرس خود بخود ہلکا پڑ جائے، اور ہم اسکول کھول سکیں۔ یہاں مارکیٹیں، شادی ہال، تفریحی مراکز سب کھول کر صرف بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کو روکنا بڑی نا انصافی ہے۔ اگر دوسرے کاروباری مراکز بند کرنے سے بے روزگاری بڑھنے کا خطرہ ہے تو تعلیمی اداروں کو تالے لگانے سے پاکستان کے اس روشن مستقبل کو خطرہ ہے، جو کہ آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں ہے۔

اگر ہم تمام ادارے ایس او پیز کے ساتھ کھول سکتے ہیں تو ان اداروں میں تعلیمی ادارے سر فہرست ہونے چاہئیں، جو کہ بدقسمتی سے فہرست سے ہی غائب ہیں۔

صوبہ سندھ میں پہلے سے ہی تعلیمی نظام سست ہے، اوپر سے لڑکیوں کی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے، اور ایسے ماحول میں اسکول بند رکھنا، ان بچوں کو اندھیروں میں دھکیلنے کی مانند ہے، جس سے چھٹکارا صرف و صرف تعلیم کی روشنی ہی دے سکتی ہے۔ بچوں کی تعلیم پہ کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے، پچھلے سال بھی کورس مکمل نہیں ہو پایا، اور آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو بغیر امتحانوں کے اس سال بھی پروموٹ کیا گیا ہے، جس سے بچوں کی ذہنی افزائش پر برا اثر پڑے گا۔ اگر ہم اپنے صوبے اور اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو جلد از جلد تعلیمی ادارے مکمل احتیاط کے ساتھ کھولنے ہوں گے، جیسے بچے پھر سے موبائل فونز، وڈیو گیمز سے توجہ ہٹا کر، کتاب کاپیوں کی طرف راغب ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments