بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے


وزیراعظم عمران خان صاحب نے چند ہفتے قبل عوام الناس کو حکومتی کارکردگی پر براہ راست اعتماد میں لینے کی غرض سے ایک لائیو کال سیشن کا اہتمام کیا۔ ایک شہری نے وزیراعظم صاحب سے سوال کیا کہ حکومت وقت نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ نیز کیا وزیراعظم صاحب ان اقدامات کو اطمینان بخش سمجھتے ہیں؟ یہ قانون سازی اور حکومتی پالیسی پر مذکورہ شہری کی جانب سے ایک انتہائی مناسب سوال تھا۔

وزیراعظم صاحب نے حکومتی کارکردگی کی بابت گفتگو سے احتراز برتتے ہوئے جواب کا رخ ایک غیر متعلقہ زاویے پر موڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنسی تشدد اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے میں پھیلتی بے حیائی کا شاخسانہ ہیں۔ گو وزیراعظم صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ رپورٹ ہونے والے واقعات جنسی زیادتی کے کل واقعات کا شاید ایک فیصد بھی نہیں، مگر ان کی روک تھام کی خاطر زیر غور حکومتی اقدامات پر روشنی ڈالنے کی بجائے آپ نے خواتین کو ”مناسب لباس“ پہننے کی نصیحت کی۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان اس حوالے سے تشویش ناک ہے کہ ملک کا وزیراعظم بھی جنسی جرائم کے پیچھے کارفرما پیچیدہ عوامل کو سمجھنے سے یا تو قاصر ہے یا قوم کے مجموعی فکری میلان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بھیانک جرم کو اخلاقی ابتری کا جامہ پہنانا چاہتا ہے۔

مجرم کے گھناؤنے فعل کو متاثرہ خواتین اور بچوں کی طرف منسوب کرنا غیر ارادی طور پر جرم کا جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو ہر وہ شخص جو سڑک پر گاڑی لے کر نکلے، اس کی گاڑی کا شیشہ توڑنا جائز ٹھہرتا ہے۔ اس دلیل میں وہی مسئلہ ہے جو بیوی پر ہاتھ اٹھانے والے خاوند کے اس معصومانہ سوال میں ہے کہ دیکھو نیک بخت! میری بھی غلطی ضرور ہے مگر مجھے غصہ کس نے دلایا؟ چونکہ زیادتی صرف مجرم نے کی ہے اور متاثرہ مرد یا عورت شریک جرم نہیں ہے، لہذا قصور دونوں کا کیسے ہو سکتا ہے؟

اگر عورت کا لباس مرد کے لئے ہیجان انگیز ہے تو بھئی ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے مرد کے لئے صرف عورت کا وجود بھی ہیجان انگیز ہو۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ مجرمانہ سوچ مرد کے قابو سے باہر ہے تو بھی مجرمانہ فعل تو ہر گز اس کے اختیار سے باہر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسان کا فعل اس کے ضبط سے باہر ہونا تسلیم کر لیا جائے تو پھر تو کسی جرم پر کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔

اگر کوئی شخص صدمے کی حالت میں آپ کو اطلاع دے کہ میرا فلاں عزیز ٹرین کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے، تو کیا آپ اسے یہ کہیں گے کہ دیکھو دوست! قصور آپ کے عزیز کا بھی تھا کہ وہ ٹرین میں بیٹھا کیوں؟ اسے پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ٹرینیں تو آئے روز حادثوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ وہ اتنا لمبا سفر ہی نہ کرتا بلکہ فون پر اپنا کام کر لیتا۔ یہ بات سچ ہے کہ ٹرین کے سفر کے بغیر ٹرین کے حادثے میں موت نہیں ہو سکتی مگر نیت سفر حادثے کا باعث ہر گز نہیں ہے۔ اسی طرح جب آپ سے جنسی زیادتی کی وجہ پوچھی جائے تو وجہ بتائیں، تشدد کو کھانے کی ریسپی سمجھ کر اس کے اجزائے ترکیبی نہ گنوائیں۔

اگر کوئی آپ کو بتائے کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو گیا ہے تو آپ اس کی ڈھارس یوں بندھائی گے کہ چلو اب تمہارا تو کچھ نہیں ہو سکتا کہ تم جلد یا بدیر دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا جاو گے۔ ہاں البتہ اپنے بچوں کو یہ تلقین کرتے جانا کہ وہ مرغن غذاؤں سے پرہیز کریں اور ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، شاید کہ ان کو یہ عارضہ لاحق نہ ہو۔ ذرا یہ کر کے تو دیکھیں کسی وقت، اور خدا نہ کرے کہ آپ کے رشتہ دار ہمدردی کے دو بول بولنے کی بجائے آپ کی زندگی میں آپ پر فاتحہ پڑھ دیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ نور مقدم کو ناحق قتل کیا گیا، تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے خاصے مناسب لوگ اپنی اپنی زنبیل کھول کر کوئی نہ کوئی عذر نکال لیتے ہیں۔ تعزیرات پاکستان میں قتل جرم ہے، کہیں پر یہ نہیں لکھا ہوا کہ مقتول کا حلیہ، خیالات، عقائد، جنس اور نسل کیا ہونی چاہیے۔ اکثر لوگ صرف عورت دشمنی میں قاتل سے ہمدردی تک جتا دیتے ہیں۔ صحافی عمران خان نے مقتول کے کردار پر سوالیہ نشان لگا کر قاتل کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہ ایک انتہائی قابل اعتراض فعل ہے۔

بھئی اگر آپ کو اپنی معروضی اخلاقیات کا پرچار کرنا ہے تو لاکھوں گنہگار زندہ ہیں، ان پر سوال اٹھا لیں۔ یہ اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے کہ موضوع ہی بدل دیا جائے۔ اگر لوگوں کو ذلت اور رسوائی کا خوف نہ ہوتا تو معاشرے میں کئی ایسے دانا موجود ہیں جو یہاں تک کہہ دیتے کہ چلو یزید پر لعنت بھیج دیتے ہیں مگر نعوذ باللہ سمجھ نہیں آتی کہ امام حسینؓ کربلا کیوں گئے تھے جبکہ ان کو پتہ بھی تھا کہ یزید کی فوج طاقتور ہے۔ اس قبیل کے جہلاء کا مقصد فروعی معاملات پر ایک لاحاصل بحث میں الجھا کر اپنی جعلی علمیت کا تاثر چھوڑنا ہے۔

جنسی زیادتی سے متاثرہ خواتین پر کیچڑ اچھالنے کے سلسلے میں جناب وزیراعظم صاحب ہر گز اکیلے نہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک معروف عالم دین نے بھی خواتین کے نامناسب لباس کو زلزلوں کی وجہ قرار دیا تھا۔ پوچھنے والی بات یہ تھی کہ باقی قدرتی آفات کی وجوہات بابت موصوف کی کیا رائے ہے؟ عین ممکن ہے کہ خواتین کے نوکری یا کاروبار کرنے سے سیلاب بھی آتا ہو، جائیداد میں اپنا حصہ مانگنے سے آندھیاں آتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اگر مظاہر فطرت اس قدر عورت کی جنبش بے باک پر منحصر ہیں تو محکمہ موسمیات کے ریڈاروں پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے خواتین کو مقصود موسم کے اعتبار سے کپڑے پہنا کر بھی موسم کی پیشن گوئی کا کام لیا جا سکتا ہے۔

عرض صرف اتنی ہے کہ ”میانہ روی“ کے شوق میں جرم کے محرکات کو برابر تقسیم نہ کریں۔ نفرت اور سزا کا حق دار وہ ہے جس نے جرم کیا ہے، متاثرہ شخص کبھی بھی شریک جرم نہیں ہوتا۔ کبھی تو کسی جرم پر تنقید اگر، مگر اور چونکہ کا استعمال کیے بغیر بھی کر دیا کریں۔ جب تک معاشرہ لگی لپٹی کے بغیر مجرم کی نشاندہی نہیں کرتا تب تک یہ تاویلیں مجرم کی بیباک آنکھوں اور بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو صرف تقویت پہنچا رہی ہیں۔

عابدہ خالق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عابدہ خالق

عابدہ خالق پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور قانون دان ہیں۔ آپ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور قانونی تحفظ کے لئے ایک توانا آواز ہیں۔ مختلف لاء کالجز میں تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ ایک ترقی پسند اور منصفانہ معاشرہ کا خواب رکھتی ہیں۔

abida-khaliq has 7 posts and counting.See all posts by abida-khaliq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments