ہم زندہ قوم ہیں کہ شرمندہ قوم ہیں۔


ہم تھائی لینڈ کی بی ٹی ایس ٹرین پر سوار ہوئے تو عوام کا سمندر نظر آ رہا تھا اس قدر رش ہونے کے باوجود کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ بلاوجہ ٹکرانے یا ایک دوسرے میں گھسنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ حالانکہ اس میں اکثریت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تھی۔ زیادہ تر لوگوں نے سفید رنگ کی شرٹس اور نیکرز پہنی ہوئیں تھی۔ عجب بات یہ تھی کہ لڑکے پورے اور ڈھکے لباس میں تھے اور لڑکیاں آدھے یا مختصر لباس میں۔ پہلے اسٹیشن سے لے کر کر آخری اسٹیشن تک سب اپنی لگن میں گم کانوں کا ہیڈ فون لگائے اور موبائل پر کچھ نہ کچھ کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر اترتے جار ہے تھے۔

مجال ہے کوئی کسی کو ایک نظر بھی دیکھ لے۔ حالانکہ بنکاک کی وجہ شہرت سے کون نہیں واقف۔ لیکن کوئی کسی کو بد کردار، فحش اور بد چلن نہیں کہ رہا۔ یہ گناہوں کا شہر تو ہو سکتا ہے پر فتووں کا شہر نہیں۔ یہاں کوئی کسی پر سنگ باری نہیں کرتا۔ اور وہ اس پر دعوے دار بھی نہیں کہ ہم دنیا کو اخلاقیات سکھائیں گے۔ کسی کی آنکھ کا تنکا نکالنے سے پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر نکالنا ضروری ہے۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہیں کیا۔ لیکن ہمارے ہاں تو ہر شخص ہاتھوں میں سنگ لیے پھرتا ہے اور اپنے سے زیادہ دوسرے کے گناہوں پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔

لاہور مینار پاکستان میں ہونے والا واقعہ ہر دن ایک نئے زاویے سے دیکھا جار ہا ہے۔ کوئی اس ٹک ٹاکر لڑکی کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ کوئی ان مردوں کے جم غفیر کو جنہوں نے لڑکی کو سب کے سامنے بے لباس کر دیا۔ کہیں پر اس کو سوچی سمجھی سکیم کہا جا رہا ہے۔ اب یہ بات کہاں تک درست ہے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ایک بات جو کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انتہائی درجے کی گراوٹ کا شکار ہیں ہم سہولتیں یورپ اور امریکہ جیسی چاہتے ہیں اور ذہنیت تیسری دنیا جیسی، بلکہ اس سے بھی کہیں کمتر۔

ہم کیا چاہتے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ کم لباس پر واویلا کرتے ہیں اور مکمل ڈھکے لباس کا ایکسرے کرتے ہیں۔ عورت کو تو ایسے گھورتے ہیں جیسے کتے گوشت کو۔ اور جواز پیش کرتے ہیں عورت مجمع میں لینے کیا گئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب ہے آپ کو ایسی عورت کو نوچ لینا چاہیے؟ یعنی عورت بدچلن ہے مرد بدچلن نہیں ہو سکتا ۔ حیرت ہے جگہ جگہ ریاست اور خدا کی جگہ لینے کے لیے فرعونوں کی لائنیں لگی ہیں۔

جرم کی سزا ریاست یا ریاستی اداروں کا کام ہوتا ہے اور گناہ پر سزا خدا کے نظام یعنی شریعت کی ذمہ داری ہے۔ اس کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ وقت سے پہلے قیامت خدا کے نظام کو ہاتھ میں لے کر کر فرعون کی صف میں کھڑے ہونے کے مترادف ہے کیونکہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے زندگی میں کبھی گناہ نہیں کیا۔ لیکن ہمیں ہر وقت عورت میں فحاشی نظر آتی ہے اس وقت فحاشی نہیں ہوتی جب مرد سرعام ناڑے کھول کر پبلک سپاٹ پر پیشاب کر رہے ہوتے ہیں۔ عورت کے سامنے شلواروں میں ہاتھ ڈالے خارش کر رہے ہوتے ہیں۔ منافقت کی حد تو یہ ہے تم کرو تو رام لیلا ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا ہے۔ جرم کو جسٹی فائیڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ جرم کر نا اگر چہ قانون ہاتھ میں لینا ہے تو جرم کی سزا ماورا عدالت بھی قانون ہاتھ میں لینا ہی ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے اور مغربی معاشرے میں فرق بھی مرضی (کنسینٹ) کا ہی ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے ہمارے اور مغرب کی کلچر میں بہت سی قدریں مختلف ہیں اور ہمیں ان پر ناز بھی ہے اور لیکن ساری قدریں عورتوں پر بے جا پابندیوں پر ہی جا کر کیوں رک جاتی ہیں مرد پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اب تک جیتنے ناخوشگوار واقعات ہوچکے ہیں اس پر بھی اگر سرکار کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکی یا پھر پالیسی پر عملدرآمد نہیں کروا سکی تو نہایت افسوس کی بات ہے۔

فرض کر لیں اگر کوئی عورت جسم فروش یا بد چلن ہے بھی تو کیا اس کے ریپ کا حق معاشرے کے ہر فرد کو ہونا چاہیے کیا وہ مفت کا مال ہے جو مرضی چاہے اس پر ہاتھ صاف کر لیں۔ یہ سوچ کر کبھی کبھی تو خون کھول اٹھتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں کیا زندہ قوم ہیں کہ شرمندہ قوم ہیں اور طرہ یہ ہے کہ یہ کوئی سازش دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ جتنی سازشیں ہمارے خلاف ہوتی ہیں شاید ہی کسی اور قوم کے خلاف ہوتی ہوں۔ کبھی مغرب سازشیں کرتا ہے۔

تو کبھی یہود و ہنود کی سازشیں۔ یعنی ان سازشوں کی وجہ سے یہاں بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے ، عورتوں کے ریپ ہوتے ہیں، مدرسوں میں معصوم طالب علم بچوں یا بچیوں سے بد فعلیاں ہوتی ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں فراڈ، نقلی دوائیاں، جعلی دودھ، سڑکوں میں ناقص میٹریل کی وجہ سے خراب حالات، تعلیم کے نام پر تعصب، تاریخ میں ملاوٹ۔ اور پتا نہیں کیا کیا۔ دنیا ہمارے خلاف جو بھی کر رہی ہو کم از کم ہمیں تو خود پر ترس کھا لینا چاہیے۔

علم و تحقیق میں۔ ایمانداری میں، امن میں، تعاون میں، عزت تقریم میں، ریاست کی مدد کر کے، اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے کر کے، ضروری نہیں ماں، بہن، بیٹی سمجھ کر بلکہ عورت کو انسان سمجھ بھی تو عزت کی جا سکتی ہے۔ دوسرے کو جگہ دیں یہ جانے بغیر کے وہ ظاہری طور پر ڈھکی ہے یا کم لباس میں، میک اپ میں یا بغیر میک اپ میں۔ اچھے کردار کی لگ رہی یا برے کردار کی۔ پیارا پاکستان اسی وقت پاک وطن بن سکتا ہے جب آپ اپنے کردار کو بہتر بنائیں نہ کے دوسروں کو اچھا ہونے کا درس دیتے پھریں۔ اپنے آپ سے، اپنے وطن سے پیار کریں۔ خود بھی زندہ رہیں اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے دیں تاکہ عملی طور پر زندہ قوم بن سکیں ورنہ پھر تو شرمندہ قوم ہی رہیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments