بلال سروری: ’وہ شہر جس سے مجھے محبت تھی اب وہاں کچھ محفوظ نہیں تھا‘


طالبان
سنہ 2001 میں کابل سے نقل مکانی کرتے افغان شہری
افغان صحافی بلال سروری نے سنہ 2001 میں طالبان کو شکت کھاتے اور پھر اپنے ملک افغانستان کو بدلتے دیکھا۔ لیکن اُن کے خیال میں امریکہ نے ان کے ملک میں پائیدار امن کے قیام کے موقع کو گنوا دیا ہے۔گذشتہ دو ہفتوں میں ان کے ملک کے حالات میں ایک ہولناک بدلاؤ آیا ہے جس نے اُن کی اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔

میں سنہ 2001 میں پاکستان کے شہر پشاور کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں قالین فروخت کرنے کا کام کرتا تھا۔ وہ کام پر ایک معمول کا دن تھا۔

میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب قالین فروخت کرتے ہوئے ایک لمحے کو میری نظر ٹی وی کی سکرین پر پڑی۔ ٹی وی پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر مسافر طیارے کے ٹکرانے کی لائیو فوٹیج چل رہی تھی۔ پھر دوسرا جہاز اس عمارت سے ٹکرایا اور ایک طیارہ پینٹاگون سے۔

پھر ہم میں سے کسی کی بھی زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔

دنیا کی توجہ فوری طور پر افغانستان پر مبذول ہو گئی جہاں طالبان پر یہ الزام تھا کہ وہ ورلڈ ٹریڈ پر حملے کے مرکزی ملزم اسامہ بن لادن اور ان کی تحریک القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے ہوئے ہیں۔

اگلے ہی دن پشاور کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی لابی میں سینکڑوں غیر ملکی صحافی اور ان کی ٹیمیں پہنچ چکی تھیں۔

صحافی کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو ان کے لیے مترجم کی خدمات سرانجام دے سکے۔ میں نے اُن کی یہ پیشکش قبول کی اور تب سے اب تک میں کبھی رُکا نہیں۔

میں اپنے بچپن کے بعد سے کبھی افغانستان میں نہیں رہا تھا۔ ہمارا خاندان خانہ جنگی کے دوران نوے کی دہائی میں وہاں سے نکل آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت یونین کے دستے وہاں سے نکل رہے تھے۔ تو جب میں کابل میں ایک بار پھر دوبارہ سے داخل ہوا تو وہاں موجود تباہی کی صورتحال نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔

عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ وہاں اب زندگی کی رونق نہیں تھی، بہت غربت اور کسمپرسی کا عالم تھا اور اہم بات وہاں بہت زیادہ خوف تھا۔

ابتدا میں ابو ظہبی ٹی وی کے ساتھ کام کر رہا تھا اور میں پانچ اور صحافیوں کے ہمراہ انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں ہر صبح سویرے اٹھتا تھا تو خوف کے سائے منڈلا رہے ہوتے تھے کیونکہ کابل اس وقت امریکہ کے فضائی حملوں کا بنیادی ہدف تھا۔

القاعدہ کے ارکان اور طالبان ہوٹل میں آتے جاتے رہتے تھے۔ اور ہم انھیں ارد گرد کی گلیوں میں بھی آتے جاتے دیکھتے تھے۔

رات بھر دھماکے ہوتے رہے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا اگلا نشانہ ہمارا ہوٹل ہو گا۔

پھر دسمبر کے اوائل میں ایک صبح طالبان چلے گئے۔

چند ہی گھنٹوں میں لوگ پھر سے حجام کی دکانوں کے باہر اپنی داڑھیوں کی کانٹ چھانٹ کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ افغان موسیقی کی تال اور سر گلیوں میں گونج رہے تھے اور وہ اس خلا کو پر کر رہا تھا جو دھماکوں کے اختتام پر پیدا ہوا تھا۔ اس صبح ایک نئے اافغانستان نے جنم لیا تھا۔

طالبان

سنہ 2001 میں طالبان کے جاتے ہی بڑی تعداد میں شہری حجاموں کے پاس داڑھیاں منڈوانے پہنچے تھے

اس لمحے کے بعد سے میں ایک عام افغان باشندے کی زندگی کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اور وہ دوبارہ معمول پر آ رہی تھی۔ اب میں صرف مترجم نہیں رہا تھا بلکہ خود ایک صحافی بن چکا تھا۔

مشرق میں تورا بورا کی کوریج سے لے کر پکتیکا میں شاہی کوٹ کی جنگ تک میں نے طالبان کی شکست کو ہوتے دیکھا۔

ان کے جنگجو ان پہاڑی علاقوں میں گم ہو گئے اور ان کی لیڈر شپ پاکستان بھاگ گئی۔ جب میں اس وقت کے بارے سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا موقع تھا جسے کھو دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان کے ساتھ بیٹھ کر امریکہ کو امن معاہدہ کرنا چاہیے تھا۔

میں نے افغانوں کی اہم قیادت کے اندر واضح طور پر ہتھیار ڈالنے کی رضامندی کو دیکھا۔ لیکن امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا۔ میری رپورٹنگ سے مجھے اور بہت سے دیگر افغان صحافیوں کو لگا کہ ان کا واحد مقصد نائن الیون کا بدلہ لینا تھا۔ آنے والے سال غلطیوں کا پلندہ تھے۔

غریب اور معصوم افعان دیہاتیوں پر بمباری کی گئی اور انھیں قید کیا گیا۔ افغان حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کو جنگ جاری رکھنے کی اجازت نے لوگوں اور حکومت کے درمیان اور خلیج پیدا کر دی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک واقعہ جب امریکہ نے غلطی سے ایک ٹیکسی ڈرائیور سید اباسین کو گردیز اور کابل کے درمیان موجود ہائی وے پر روک لیا تھا۔ ان کے والد روشن آریانہ ائیر لائنز کے ایک سینیئر ممبر تھے۔ جب ہم نے اس غلطی کا انکشاف کیا تو اس ٹیکسی ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا لیکن دیگر لوگ بہت زیادہ رابطے نہیں رکھتے تھے اور بہت خوش قسمت نہیں تھے۔

ٹینک

امریکہ نے سخت انداز میں جنگ کو جاری رکھا جس کی وجہ عام افغانوں کی جانوں کا بھاری نقصان ہوا۔ یہ امریکیوں کے جانی نقصان کو کم کرنے کی واضح کوشش تھی۔ انھوں نے زمینی فوج کے استعمال کے بجائے بموں اور ڈرون حملوں کو ترجیح دی۔ امریکیوں پر اعتماد ختم ہوتا چلا گیا اور امن کے لیے بات چیت کی امیدیں معدوم ہوتی گئیں۔

اس وقت ایسے اشارے آئے تھے کہ افغانستان کیا بن سکتا ہے۔ اب میں ہزاروں کلومیٹر لمبی سڑک پر بِنا موت کے خوف کے گاڑی چلا سکتا تھا۔ میں نے ملک بھر میں سفر کیا کابل سے خوست اور پکتیکا صوبے کے دیہات تک دن کی روشنی میں بھی اور آدھی رات کے وقت بھی۔ افغانستان کے غیر معمولی دیہی علاقوں کو بھی عبور کیا جا سکتا تھا۔

سنہ 2003 افغانستان کے لیے ایک موڑ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنگجوؤں نے اپنی جانی پہچانی قوت کے ساتھ پھر سے جوابی حملے شروع کیے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن کابل کے دل میں ایک ٹرک کے ذریعے بڑا حملہ کیا گیا۔ پورا شہر اس دھماکے سے لرز اٹھا تھا، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

میں ان پہلے صحافیوں میں سے تھا جو اس موقع پر موجود تھے۔ اور میں نے وہاں جو کچھ دیکھا میں آج بھی اس سے دہشت زدہ ہوں۔

وہ میرا پہلا تجربہ تھا اس چیز کو دیکھنے کا جو اب ایک نیا معمول بننے جا رہی تھی۔ ہماری زندگی پر مسلط کی جانے والی ایک حقیقت۔ گوشت کے چیتھڑے اور مر جانے والوں کی لاشیں اور زمین پر پھیلا خون۔

اور یہ اور بدترین ہو گیا۔ بعد میں ہمیں سمجھ آئی کہ وہ ٹرکوں کے بم حملے اور افغان افواج کے خلاف خودکش حملے، غیر ملکی فوجوں اور نامعلوم شہریوں پر حملے اس سفاکانہ جنگ کا ایک نیا روپ تھا۔

ردعمل میں امریکیوں نے فضائی حملوں میں اضافہ کر دیا۔ اس بار انھوں نے طالبان پر حملوں کی فہرست کو مزید بڑھا دیا۔ دیہی علاقوں میں شادی کی تقریبات اور جنازوں پر بھی حملے کیے جانے لگے۔

یہ بھی پڑھیے

منی سکرٹ سے برقعے تک: افغان خواتین کی زندگیاں کیسے بدلیں

وادی پنجشیر: طالبان سمیت بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ

’میں یقینی طور پر قتل کر دی جاؤں گی۔۔۔ دنیا والو تمھیں معلوم ہے یہاں کیا ہو رہا ہے؟

ایک عام افعان اب آسمان کو ایسے دیکھتا تھا کہ جیسے وہ خوف کا ذریعہ ہو۔ اب وہ دن چلے گئے جب وہ طلوع آفتاب اور غروب کو دیکھتے تھے یا پھر ستارے ان کے لیے کوئی تحریک بنتے تھے۔

کابل، شادی پر حملہ

مجھے دریائے ارگنداب کے ساتھ سرسبز وادی میں جو کہ قندھار کے بہت ہی قریب واقع ہے ایک بار جانا ہوا۔ میں وہاں ملک کے مشہور انار دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہاں پھل کا رنگ نہیں بلکہ لوگوں کا وہ خون نظر آیا جو وہاں بہہ رہا تھا۔

یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی اس سب کی جو افغانستان کے دیہی علاقوں میں ہو رہا تھا۔

طالبان نے وہاں وادی میں اپنے جنگجوؤں کو بھیج دیا تھا لیکن حکومتی افواج وہ کر رہی تھیں جو وہ انھیں پیچھے دھکیلنے میں کر سکتی تھیں۔ علاقے کا کنٹرول دونوں کے درمیان آ جا رہا تھا۔ اور اس سب کے درمیان عام افغان پھنسے ہوئے تھے۔

اس دن میں نے شمار کیا کہ وہاں 33 فضائی حملے کیے گئے۔

مجھے یاد نہیں کہ وہاں طالبان نے کتنے خودکش حملے کیے۔ گھر، باغات ، پل وہاں سب تباہ ہو گیا۔

امریکہ کی جانب سے کیے جانے والے بہت سے فضائی حملے غلط انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے گئے۔ یہ معلومات وہاں کے وہ لوگ دیتے تھے جو کبھی ذاتی دشمنیوں یا زمین کے جھگڑوں کی بنا پر جو گاؤں کی سطح پر ہوتے تھے۔

شمالی اتحاد کے جنگجو 2001

شمالی اتحاد کے جنگجو 2001

زمین پر موجود فوجیوں اور عام افغانیوں کے درمیان اعتماد کم ہوتا چلا گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ جھوٹ کے ذریعے سچ بیان نہیں کر سکتا تھا۔

طالبان نے ان حملوں کو افغانیوں کو انھیں کی حکومت کے خلاف اکسانے کے لیے استعمال کیا جس سے انھیں لوگوں کو بھرتی کرنے میں آسانی ہوئی۔

یہ سنہ 2001 سے 2010 کے درمیان کا عرصہ ہے جب افغانسان میں نائن الیون کے بعد پرورش پانے والی نوجوان نسل کو یہ مواقع ملا کہ وہ انڈیا، ملائشیا، امریکہ اور یورپ جا کر تعلیم حاصل کریں۔ وہ لوگ واپس لوٹے تاکہ ملک کو دوبارہ بنانے میں اپنی کوششیں کریں۔

یہ نئی نسل سمجھتی تھی کہ وہ بڑے قومی انقلاب کا حصہ ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے خود کو نئے امتحانوں کا سامنا کرتے پایا ہے۔

وہ امریکیوں کی جانب سے جنگی سرداروں کو مضبوط کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے بدعنوانی کو عروج پر دیکھا ہے۔ جب ایک ملک کی حقیقی زندگی نظریات سے بہت دور چلی جاتی ہے تو انسان کی روزمرہ کی زندگی عملیت پسندی کے گرد گھومتی ہے اور وہ سزا سے مبرا کلچر پروان چڑھتا ہے۔

ہمارے ملک کے خدوخال بہت پرفریب ہیں۔

دوحہ

اس کی خوبصورت وادیوں میں، نوکیلی چوٹیوں میں، دریاؤں میں اور چھوٹی بستیوں میں۔ لیکن جو چیز ایک پرامن تصویر کے طور پر پیش کی گئی ہے اس نے عام افغانوں کو کسی قسم کا سکون فراہم نہیں کیا۔ آپ اپنے ہی گھر کے اندر محفوظ تصور نہیں کرتے۔

تقریباً چار سال پہلے یہ واردک کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھا۔ جوں ہی رات ہوئی لوگ اکھٹے ہوئے اور وہ باہر ستاروں کی روشنی کے نیچے کھانا کھا رہے تھے۔ آسمان بہت صاف تھا۔

لیکن اچانک ڈرونز کی آوازوں اور جہاز کی آوازوں سے رات گونج اٹھی۔

وہاں قریب میں ایک آپریشن ہو رہا تھا۔ شادی کی تقریب پر افسردگی چھا گئی تھی۔

اس دن شام کو میں ایک طالبان جنگجو کے والد کے ساتھ کابلی پلاؤ، روٹی اور گوشت کھا رہا تھا۔ وہ مجھے بتا رہا تھا کہ کیسے ہلمند میں اس کے بیٹے کو مارا گیا۔ اس کا بیٹا فقط 25 برس کا تھا اور اس کی بیوی اور دو بچے پیچھے رہ گئے تھے۔

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا جب اس باپ نے مجھے تفصل سے بتایا کہ اگرچہ وہ ایک غریب کسان ہے اس کا بیٹا ایک بہادر جوان تھا جو لڑنے اور ایک مختلف زندگی پر یقین رکھتا تھا۔ میں جو دیکھ سکتا تھا وہ یہ تھا کہ اس بوڑھے شخص کے چہرے پر تکلیف اور اداسی تھی۔

طالبان کے دور میں موسیقی کی اجازت نہیں تھی شادی کی تقریبات میں بھی نہیں۔

اس کے بجائے ان کی شادیوں میں جب لوگ اکھٹے ہوتے تھے تو پورے گاؤں کے پاس ایسی ہی اداس کہانیاں ہوتی تھیں۔

لوگ اکثر طالبان کو سامنے رکھ کر انسانی جان کی قیمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہاں بیوائیں ہیں، والدین ہیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کو کھو دیا ہے اور جنگ سے معذور ہونے والے نوجوان ہیں۔

جب میں نے طالب جنگجو کے والد سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انھوں نے کہا:’میں چاہتا ہوں کہ لڑائی ختم ہو جائے، بہت ہو گیا۔ میں جانتا ہوں کہ بیٹے کو کھونے کا غم کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ افغانستان میں امن کا عمل ضرور ہونا چاہیے، جنگ بندی ٰہونی چاہیے۔‘

کابل میں میرا دفتر فوجی ہستپال سے چند ہی کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

دوست، خاندان کے لوگ ہمارے آبائی علاقے صوبہ کنڑ سے اکثر آ کر مجھے کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ وہاں چلیں ان افغان شہریوں کی لاشوں کی شناخت کے لیے جو قومی سکیورٹی فورسز کا حصہ ہیں۔ کبھی کھبار میں محسوس کرتا تھا کہ میرے صوبے کا جذبہ ان تابوتوں سے کچلا جا رہا ہے۔

جب امریکیوں نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ دوحا میں بات چیت کی ہم پہلے بہت پر امید تھے۔ پورا ملک یہ خواہش رکھتا تھا کہ جامع اور مستقل فائر بندی ہو گی اور بات چیت کو ہی واحد راستے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ میری طرح بہت سے لاکھوں افغانوں نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے ملک میں امن نہیں دیکھا ہے۔

ہمارے خوابوں کو چکنا چور ہونے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگا۔ یہ واضح ہو گیا تھا کہ بات چیت فقط میدان جنگ کی فتوحات کا فائدہ اٹھانے کے لیے کی گئی تھی یہ امن کے نظریے سے متفق ہونے کی کوشش نہیں تھی۔ ایک عام افغان کے نکتہ نظر سے یہ بے مقصد تھی۔

امریکہ نے 6000 طالبان جنگجوؤں اور کمانڈروں کو جیل سے رہا کیا۔ پرچار یہ کیا گیا کہ یہ ایک بامعنی اور قابل بھروسہ امن کے عمل کے تحت کیا جا رہا ہے اور یہ مستقل جنگ بندی کے لیے ہے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔

سنہ 2020 میں امریکہ اور طالبان کا معاہدہ ہوا۔

اس معاہدے کے بعد اعلیٰ شخصیات کے دلخراش قتال سے ساری فضا ہی دھندلا گئی۔ ملکی میڈیا، قانون اور عدلیہ سے متعلق اہم شخصیات کو کابل میں ان کے دروازوں پر اور ملک کے دیگر علاقوں میں قتل کیا گیا۔

جب امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت جاری تھی مجھے یاد ہے کہ مقامی پولیس کے ایک چیف نے کونسل کی میٹنگ کے دوران اچانک کھڑے ہو کر امریکہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ دشمن کے ساتھ بات کر کے افغان فورسز کو تنہا چھوڑ رہے ہیں۔

انھوں نے ناراضی سے کہا کہ ’انھوں نے ہماری پشت پر چھرا گھونپا ہے۔‘

بہت سے دیگر افغانوں کی مانند ان کا امریکیوں سے تعلق درد میں ڈوبا ہوا ہے۔

میرے ہم عمر، ایک سابقہ کلاس فیلو اب طالبان کے ایک رکن ہیں۔ باوجود مختلف نظریات کے گذشتہ 20 برسوں میں ہماری مسلسل بات چیت ہو رہی ہے۔ مگر میں نے حال ہی میں انھیں ایک شادی کی تقریب میں دیکھا ۔ ان کا رویہ سخت اور تلخ تھا۔

میں دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا کہ اس جنگ نے افغانوں کو کیسے واقعی میں تقسیم کر دیا ہے۔ جب ہم ملے، ہم مشکل سے ہی بات کر پائے۔ یہ وہ لڑکا نہیں تھا جو مجھے اپنے ماضی کے حوالے سے یاد تھا، کرکٹ کھیلتا اور ہمارے چہروں کو رسیلے مالٹوں سے بھر دیتا تھا۔

میں کیسے جان سکتا تھا کہ ان تمام برسوں کے بعد بھی وہ دوسری جانب کھڑا ہو گا۔

اس کی کہانی بھی ایک بہت گہرے ذاتی نقصان کی ہے۔ اس کے باپ، بھائی اور چچا ایک ایسے آپریشن کے دوران مارے گئے جو غلط انٹیلجنس پر ہوا اور غلط انٹیلجنس کی وجہ ایک مقامی تنازعہ تھا۔

ہم ایک منقسم قوم ہیں، میں اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری قومی مفاہمت ہو۔

لیکن اب اس کا امکان کم ہے۔ میں نے صوبائی دارالخلافوں کو حالیہ ہفتوں میں طالبان کے قبضے میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈالے گئے کسی نے بھی جنگ نہیں کی۔ لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ کابل میں بھی ایسا کر پائیں گے اور شہر پر ان کا قبضہ ہو جائے گا۔

جب یہ ہوا تو اس سے ایک رات پہلے ایک سرکاری افسر سے میں نے بات کی جس کا خیال تھا کہ امریکہ اب بھی اس سب کو فضائی حملوں سے روک لے گا۔ اور پھر ایسی حکومت کو پرامن انتقال اقتدار کی بات چیت ہوئی جس افغانستان میں بسنے والی تمام نسلوں کی نمائندگی ہو گی۔ پھر اچانک ملک کے صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے اور طالبان شہر میں پہنچ گئے۔

فضا میں ہر جانب خوف تھا۔ انھیں واپس یہاں دیکھ کر لوگ ڈرے ہوئے تھے۔

پھر مجھے بتایا گیا کہ میری جان خطرے میں ہے۔ میں نے کپڑے بدلے اور اپنی بیوی، اپنی چھوٹی بچی اور والدین کے ساتھ ایک خفیہ مقام پر چلا گیا۔

یہ وہ شہر ہے جسے میں مکمل طور پر جانتا ہوں اس کے چپے چپے سے واقف ہوں۔ میرا تعلق اس شہر سے ہے اور میرے لیے یہ ناقابل یقین تھا کہ اس شہر میں میرے لیے اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

مزید پڑھیے

طالبان قیادت کے اہم رہنما کون ہیں؟

افغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی

داڑھی سے ’استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ‘ اور طالبان کی کاسمیٹکس کی دکان سے بیویوں کے لیے خریداری

میں نے اپنی بیٹی سولہ کے بارے میں سوچا اس کے نام کا مطلب ہے ’امن’ اس کے لیے سوچنا اس کے مستقبل کے لیے سوچنا بہت تکلیف دہ تھا۔ ہماری کچھ امیدیں تھیں جو اب ٹوٹ چکی ہیں۔ جیسے ہی میں ایئر پورٹ کے لیے نکلا مجھے پھر سے یاد آیا کہ میں افغانستان کو اب پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جب میں یہاں پہنچا تو سالوں کی یادیں میرے سامنے آ رہی تھیں۔ جنگ میں بطور صحافی فرنٹ لائن پر کیا جانے والا کام یا یہاں حکام کے ساتھ کیے جانے والے دورے۔

میں نے دیکھا کہ یہ تمام لوگ لائنوں میں کھڑے ہیں یہاں سے بھاگ جانے کے لیے۔ افغانوں کی ایک نسل اپنے خواب اور امیدیں دفن کر رہی ہے۔

لیکن اس بار میں ان کی کہانی کو کور کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے وہاں موجود تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp