کیا تحریک طالبان پاکستان ختم ہو جائے گی؟


افغانستان میں طالبان کی کامیابی اور امریکہ کے بدحواسی میں انخلا سے پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے میں اب موقع ہے کہ پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ’عظیم اسلامی مملکت‘ کی بنیاد رکھے اور اس خطے اور پھر دنیا بھر سے تمام اسلام دشمن عناصر کو سبق سکھانے کی راہ ہموار کرے۔

دوسری رائے کے مطابق کسی خاص وسائل اور جدید اسلحہ کے بغیر افغان طالبان کی کامیابی سے ثابت ہوچکا ہے کہ قوت ایمانی وسائل سے بالاتر ہوتی ہے۔ اس رائے کے مطابق اب پاکستان کو بھی طالبان کے عزم اور جہد مسلسل سے سبق سیکھنا چاہئے تاکہ پاکستان کو دنیا میں احترام و وقار دلوایا جاسکے۔ اس رائے میں ’عظیم اسلامی مملکت‘ کے قیام کے تصور کی بات تو نہیں کی جاتی لیکن یہ امید ضرور کی جارہی ہے کہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت بھی طالبان کی طرح دنیا کی رائے، روایات، انسانی حقوق کے پیغامات، معاشی مجبوریوں، عالمی سودی نظام سے مراعات لینے کی خواہش ترک کرکے اپنے وسائل اور اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے ’خود مختارانہ‘ حکمت عملی پر عمل کرے۔

 اس رائے کے حاملین مانتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے ۔ اس کے پاس دنیا کی اعلیٰ ترین فوج ہے جس نے ماضی میں ہر مرحلے پر ملک کی حفاظت کی ہے۔ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے والا واحد مسلمان ملک ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پر دیگر خطوں کے مسلمانوں کے حوالے سے خاص ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اسی رائے میں اب توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے سوال پر ’مفاہمانہ اور نرمی ‘ کا رویہ اختیار کرنا چھوڑ دے اور بھارت پر واضح کردیا جائے کہ کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بہتر تو ہوگا کہ بھارتی قیادت افغانستان میں اسلامی مجاہدین کی کامیابی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے خود ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کشمیر سے دست بردار ہونے کا اعلان کردے تاکہ کسی بڑے تنازعہ کے بغیر یہ قدیمی مسئلہ حل ہوسکے اور برصغیر میں امن و امان بحال ہو اور عوام کے لئے خوش حالی کا دور دورہ ہو۔

 طالبان کی کامیابی کو جذبہ ایمانی کی کامیابی سمجھنے اور قرار دینے والے البتہ یہ مانتے ہیں کہ اگر بھارت عقل کے ناخن نہیں لیتا تو پاکستان کو بھارت پرحملہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کروالینا چاہئے۔ اس رائے کے مطابق بہترین فوج، ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور ایمانی قوت کے سہارے یہ مقصد حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بس وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو راست اقدام کرنا چاہئے۔ امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے سہارے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی امید اب چھوڑ دینی چاہئے۔ افغانستان میں طالبان کی بیس سالہ جد و جہد اور کامیابی سے یہی سبق ملتا ہے۔ اب پاکستان میں اس پر عمل کی ضرورت ہے۔

اس بیچ افغانستان میں رونما ہونے والے حالات پر پاکستان میں ایک تیسری رائے بھی موجود ہے جو ہمسایہ ملک میں ایک مذہبی انتہا پسند گروہ کی کامیابی اور اس کے خوفناک ماضی کی وجہ سے شدید بے چینی محسوس کرتا ہے۔ اس رائے کے مطابق ہمسایہ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی سے پاکستان بھی متاثر ہوگا اور اس کے نتیجے میں شدت پسند گروہ طاقت ورہوں گے۔ جو ایک طرف ملک میں آزادی رائے، باہمی احترام اور مذہبی ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کریں گے تو دوسری طرف ان گروہوں کے قوت پکڑنے سے ملک میں دہشت گردی اور انتشار کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ پاکستان ماضی کے تجربات سے سیکھ چکا ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کی موجودہ صورت حال میں دشمن ملک پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اب بھی یہی اندیشہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کا ’شرعی نظام‘ نافذ ہونے کی صورت میں پاکستان میں اس کے اثرات محسوس کئے جائیں گے۔ معاشرے میں نظریاتی تقسیم گہری ہوگی جس کی وجہ سے سماجی امن و امان اور ملکی ترقی کا خوب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

یہ رائے رکھنے والے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت افغانستان میں رونما ہونے والے حالات سے چوکنا رہے۔ افغانستان میں حکومت سازی کے عمل میں حصہ دار بننے یا وہاں اپنے پراکسی گروہوں کی سرپرستی کےنئے طریقے ڈھونڈنے کا دیرینہ طریقہ ترک کیاجائے اور پاکستان میں میڈیا آزادی، صحت مند تعلیمی ماحول اور جمہوری استحکام کے ذریعے ان رجحانات سے نبرد آزما ہونے کی منصوبہ بندی کی جائے جو اس وقت افغانستان میں رونما ہورہے ہیں۔ ان عناصر کا یہ خیال بھی ہے کہ اس وقت اگر افغانستان کے بارے میں صدق دل سے عالمی رائے یا کم از کم چین جیسے دوست ملک کی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جاسکے تو ملک کو افغانستان میں طالبان کی کامیابی سے پیدا ہونے والے ممکنہ مذہبی انتہاپسندانہ رجحانات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں پاکستان میں افغانستان کے بارے میں سامنے آنے والی اس تیسرے رائے کو یہ کہہ کر بآسانی مسترد کیاجاتا ہے کہ یہ عناصر مغربی تہذیب کے پروردہ ہیں اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم بنفس نفیس ایسے عناصر کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان وسائل اور اقدار کے حوالے سے مغربی ممالک سے بدرجہا بہتر ہے۔ بس بدعنوان لیڈروں نے ملکی معیشت تباہ کردی ہے جس کی وجہ سے ملک میں غربت ہے اور وسائل کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ البتہ عمران خان کی سرکردگی میں اب پاکستان کو ایک دیانت دار اور اپنی اقدار پر فخر کرنے والا لیڈر مل چکا ہے۔ اس لئے پاکستان جلد ہی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ بس کچھ ابتدائی مشکلات ضرور حائل ہیں جن سے نمٹنے کی کامیاب کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان متعدد بار قوم کو باور کروا چکے ہیں کہ معاشی شعبے کی تمام برائیاں دور کی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں اب ملک معاشی ترقی کے سفر کے لئے تیار ہے۔ بس اب پھل آنے کا انتظار ہے۔

مذہبی انتہاپسندی کے خوف میں مبتلا اس تیسری رائے کو ملک میں عام طور سے ’لبرل عناصر کی ہرزہ سرائی‘ قرار دے کر بھی مسترد کیا جاتا ہے۔ ملک میں یوں بھی سیاسی اور سماجی لحاظ سے ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں جمہوریت، مذہبی آزادی و احترام، سماجی جرائم مسترد کرنے کا رویہ اور خودمختارانہ و آزاد رائے کی تشکیل کو اسلامی اقدار سے متصادم سمجھا جانے لگا ہے۔ ایسے ماحول میں جمہوریت اور آزادی رائے کے ذریعے افغانستان میں ابھرنے والی مذہبی انتہا پسند تحریک و تنظیم کے منفی اثرات سے بچنے کی بات کرنا کفر کی تشہیر کے مترادف قرار پاتا ہے۔ یہ رائے موجود ہے لیکن اس اسے سننے اور ماننے کا ماحول موجود نہیں ہے۔ حتی کہ ملک میں سیاسی آگاہی پیدا کرنے کی ذمہ دار جماعتیں بھی اس بارے میں کسی پریشانی کا شکار نہیں ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والے حالات سے پوری دنیا چوکنا ہے اور اپنے اپنے طور پر خطے یا دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن پاکستان میں سیاسی طور پر کوئی سنجیدہ ڈائیلاگ سننے میں نہیں آیا۔ حتی کہ بعض اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے افغانستان کی صورت حال پر غور اور فیصلوں کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی صدا بصحرا ثابت ہورہا ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ اس کی ’نگرانی‘ میں کام کرنے والی فوج اور اس کی قیادت کے پاس اس مسئلہ کا تیر بہدف اور شافی حل موجود ہوگا ۔ اس لئے وزیر اعظم سمیت تمام حکومتی عہدیداروں کو پر زور بیانات دینے اور طالبان کی کامیابی کو امریکہ کے علاوہ بھارت کی شرمناک شکست قرار دینے پر تمام تر صلاحیت صرف کرنے کی ضرورت ہے۔

پاک فوج البتہ ان حالات میں یہ غور کررہی ہے کہ طالبان کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ ان کے ساتھ تعلقات استوار رکھے جائیں لیکن پاکستان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے بعض مطالبات بھی منوانے کی کوشش کی جائے۔ ان میں سر فہرست تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ ہے۔ پاک فوج کو ابھی تک یقین نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کس حد تک پاک فوج کے خلاف سرگرم رہنے والی اس تحریک کو کنٹرول کرسکے گی ۔ پاکستان کو ماضی قریب میں امریکہ اور افغان حکومت سے شکوہ رہا ہے کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے بھارت نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے علاوہ بلوچستان کے باغی قوم پرستوں کی مالی و عسکری مدد کرکے پاکستان میں تخریب کاری کی کوششیں کی تھیں۔

اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ طالبان کی کامیابی سے بھارت بدحواسی کا شکار ہے اور افغانستان میں اس کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری تو یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ اس صورت حال میں افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے عناصر شدید پریشانی کا شکار ہیں کیوں کہ انہیں بھارت کی مالی مدد ملنا بند ہوگئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے البتہ کہا ہے کہ پاکستان نے سابقہ افغان حکومت کی طرح افغانستان میں فتح حاصل کرنے والے طالبان کے سامنے بھی یہ مسئلہ رکھا ہے۔ تاہم یہ خبریں سامنے آچکی ہیں کہ کابل پر قبضہ کے بعد جیل خانوں سے جو قیدی رہا ہوئے ہیں، ان میں ٹی ٹی پی کے متعدد لیڈر بھی شامل تھے۔ ان کی رہائی پاکستان کی سلامتی کے لئے براہ راست خطرہ کا سبب بنے گی۔

اس دوران وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج نے ماضی میں بھی دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا تھا اور اب بھی وہ تحریک طالبان پاکستان کی کسی بھی سرکشی و تخریب کاری سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک فوج اس خطرے کو بھانپ رہی ہے ۔ اس کا اظہار فوجی قیادت نے کچھ عرصہ پہلے پارلیمانی لیڈروں کو دی جانے والی بریفنگ میں بھی کیا تھا۔ یعنی پاکستان کے ایسے محب وطن اور اسلام دوست عناصر جو طالبان کی طرح پاک فوج سے قوت ایمانی کے زور بھارت سے کشمیر چھیننے کا مطالبہ کررہے ہیں، ان کا یہ خواب پورا ہونے میں ابھی شاید کچھ وقت لگے گا۔ پاکستانی افواج کو فی الوقت اپنے ہی ملک کے ایسے عناصر سے نبرد آزما ہونا ہے جو افغان طالبان کی طرح پاکستان میں بھی اپنی من پسند شریعت نافذ کروانے کی جد و جہد شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments