طالبان کے کابل قبضے کے داخلی اور بین الاقوامی پہلو


15 اگست 2021 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کے بعد سے طالبان اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور عملی طور پر ان کی امارت اسلامیہ تمام اہم فیصلے کر رہی ہے۔ افغان فوج اور ریاست کی انتظامی برانچ کے خاتمے نے طالبان کے مکمل کنٹرول کی بنیاد ہموار کر دی ہے۔ تاہم انہیں کچھ سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

پہلی بات یہ کہ افغان متوسط طبقات اور شہری آبادی کی اشرافیہ کا بڑے پیمانے پر خروج، امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے اپنے فوجیوں اور سفارت کاروں کو اپنے ملکوں میں واپس لانے کے لیے بیک وقت بڑے پیمانے پر انخلا کے عمل نے کابل بین الاقوامی ہوائی اڈے کو جام کر رکھا ہے۔ دس دن کے بعد بھی ناقابل تصور پیمانے پر بدانتظامی اور اس بے مثال خروج کی بین الاقوامی خبروں کی ترسیل افغان دانشوروں، پیشہ ور افراد اور تاجروں کی طالبان حکومت سے نفرت کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ زیادہ تر معاملات میں سرکاری ملازم طالبان کے اپنے پیشہ روانہ فرائض پر واپس آنے اور اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کے مطالبے کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ بینک دو ہفتے بعد بھی بند رہے جس کی وجہ سے شہری آبادی کے لیے مایوس کن صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ محدود تعداد میں جہاں سرکاری ملازم واپس آتے ہیں، طالبان اہل کار خواتین ملازمین کو ان کے گھروں کو واپس بھیج دیتے ہیں۔

پاکستانی کی ہیئت مقتدرہ طالبان کو آمادہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی اسلامی امارت کو افغانستان کے 1964 کے آئین کے قریب لائیں تاکہ اسے عالمی برادری کے لیے قابل قبول بنایا جا سکے۔

تیسری بات یہ کہ طالبان حکومتی محکموں کو سنبھالنے کے بجائے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے کمیشن کو با اختیار بنانے کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ 1990 کی ان کی مطلق العنان حکمرانی کی واضح یاد دہانی ہے جب مسلح ملیشیا اور ریاستی نظام کے درمیان فرق خطرناک طور پر دھندلا گیا تھا۔

چہارم یہ کہ پاکستان میں اپنی پناہ گاہوں سے باہر کام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران طالبان کا داخلی بندوبست زیادہ تر خفیہ رہا۔ لیکن گزشتہ دس دنوں کے دوران کابل میں ان کی سیاسی اور عسکری سرگرمیوں نے ان کے تنظیمی خدوخال کو عوام کے سامنے آشکار کر دیا ہے۔ تنظیمی یک جہتی تو ایک طرف، طالبان کی مختلف گروہی وابستگیاں نے نواب ہو رہی ہین۔ مثال کے طور پر کوئٹہ شوریٰ (کونسل) پر قندھار، ہلمند، اروزگان، فرح اور افغانستان کے دیگر جنوب مغربی صوبوں کے علماء اور فوجی کمانڈروں کا غلبہ ہے۔ طالبان کے بانی ملا عمر اور ان کے موجودہ رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرح وہ بھی طالبان کی جڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

پھر حقانی نیٹ ورک ہے جو شہری مراکز میں اپنے محیرالعقول دہشت گرد حملوں کے لیے بدنام ہے۔ یہ گروہ پاکستانی سیکورٹی اپریٹس کا قریبی اتحادی ہے۔ ستمبر 2011 میں امریکی اعلیٰ فوجی افسر ایڈمرل مائیک مولن نے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی آئی ایس آئی کا ”دست و بازو“ قرار دیا تھا۔ حقانی نیٹ ورک نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کا ایک خلیفہ خلیل الرحمان حقانی (ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس کے سر پر اب بھی پانچ لاکھ امریکی انعام کا اعلان موجود ہے ) اعلیٰ سطح پر سیاسی اور عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہے جس میں امریکی فوج کے ساتھ ہم آہنگی بھی شامل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس صوت حال سے کوئٹہ شوریٰ کے رہنماؤں کے دلوں اور ذہنوں میں اضطراب پیدا ہوتا ہے جو خود کو طالبان کا ہراول دستہ سمجھتے ہیں۔

پچھلی دو دہائیوں کے دوران روایتی افغان قوم پرستی کو جدید قسم کی قوم پرستی، تیزی سے شہری آبادی میں اضافے، نئے قومی دانشوروں کے عروج، الیکٹرانک میڈیا کی ترقی (خاص طور پر سوشل میڈیا) اور سڑک اور مواصلاتی انفراسٹرکچر کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں قریبی رابطوں کو تقویت ملی ہے۔ افغان آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت مذکورہ قوم پرستی کا سب سے بڑا سماجی دستہ ہے۔

ترنگا افغان قومی پرچم نئی ڈھلمل قوم پرستی کی سب سے طاقتور علامت ہے۔ افغان نوجوان، قومی پرچم لہراتے ہوئے، اپنی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے دوران نئے افغانستان کا چہرہ بن گئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی دینی مدارس میں برین واش کیے گئے طالبان مذہبی انتہا پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وہ اس رجحان کے مخالف نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو انہیں پاکستانی سیکورٹی ریاست اور اس کے پیروکاروں میں مقبول بناتی ہے جو ڈیورنڈ لائن کے پاکستانی جانب رہنے والے پانچ کروڑ پشتونوں میں قوم پرستی کے عروج سے خوفزدہ ہیں۔

اپنے حالیہ فوجی حملے کے دوران طالبان نے قومی پرچم کو مختلف سرکاری عمارتوں سے ہٹا کر اسے طالبان کے سفید جھنڈے سے تبدیل کر دیا۔ اس سے افغان عوام خاص طور پر ملک کے نوجوانوں میں شدید ناراضی پیدا ہوئی۔ 19 اگست کو افغانستان کے یوم آزادی پر کنڑ، جلال آباد، خوست، قندھار اور کابل میں مردوں اور عورتوں سمیت بڑے پیمانے پر ہجوم قومی پرچم لہراتے ہوئے برامد ہوئے اور طالبان اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔

بندوق بردار طالبان نے پرامن مظاہرین کے خلاف وحشیانہ تشدد کا سہارا لیا جس کی وجہ سے بعض مقامات پر جانی نقصان ہوا۔ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضے کے چار دن بعد طالبان کے خلاف یہ پہلا عوامی احتجاج تھا۔ پشتون پٹی میں بدامنی کے اس آتش فشاں میں تعلیم یافتہ نوجوان خواتین بھی شامل تھیں جو احتجاج کو زیادہ اہم بنا دیتی ہیں۔

تاجک نسل کے افغان رہنماؤں کا ایک وفد دو ہفتے سے اسلام آباد میں رکا ہوا ہے جہاں طالبان کے پاکستانی سرپرست امارت اسلامیہ کو بین الاقوامی برادری کے لیے خوشگوار بنانے کے لیے طالبان کی چھتری تلے ایک ”وسیع البنیاد حکومت“ بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان سے غیر طالبان افغانوں کے لیے رعایات کے امکانات کی تلاش میں کابل میں مذاکرات کر رہے ہیں۔

تاہم بظاہر یہ امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ اسلام آباد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہیئت مقتدرہ طالبان کو آمادہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی اسلامی امارت کو افغانستان کے 1964 کے آئین سے ہم آہنگ کر لیں تاکہ اسے بین الاقوامی برادری کے لیے قابل قبول بنایا جا سکے۔ 1964 کا آئین سابق بادشاہ ظاہر شاہ نے اپنی مطلق العنان بادشاہت کو آئینی بادشاہت میں تبدیل کرنے کے لیے نافذ کیا تھا۔ مجوزہ نئے انتظام میں طالبان کے اعلیٰ رہنما بادشاہ کی جگہ لیں گے۔ ایک فعال ریاستی نظام کی طرف جانے والے راستے پر شدید پیچیدگیوں کی وجہ سے اس محاذ پر ہموار پیش رفت کی پیش بینی مشکل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چھ ممالک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کیے بغیر ان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ یہ ممالک پاکستان، امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور ایران ہیں۔ ان ریاستوں کے متنوع بلکہ متضاد مفادات ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے لیے طالبان نئی سرد جنگ میں ان کے اتحادی ہیں تاکہ سنکیانگ اور وسطی ایشیا کی مسلم آبادی کو چینی روڈ اور بیلٹ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو روکنے اور مشرق میں روس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے ان کی مدد کریں۔

دوسری طرف روس اور ایران سمجھتے ہیں کہ وہ وسطی ایشیا میں امریکہ اور برطانیہ کو اسی طرح مات دے سکتے ہیں جس طرح انہوں نے مشرق وسطیٰ میں اپنے اسٹریٹجک اہداف حاصل کیے ہیں۔ یہ صورت حال اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ چینی پاکستان پر انحصار کر رہے ہیں کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں شمولیت کے لیے طالبان کو قائل کریں اور اپنے ملک کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اس کی بڑی معدنی دولت سے مستفید ہونے میں چینی سرمایہ کاری کی مدد کریں۔

افغانستان پر اس شدید اور پیچیدہ بین الاقوامی مقابلے کے نتائج کی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان افغانوں کی حالت زار پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی جو گزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک بار پھر ریاستی تحفظ کے بغیر سفاک مسلح گروہوں کے رحم و کرم پر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments