دو پاکستان


ڈاکٹر غلام جیلانی برقؔ، ایک بڑے عالم اور ادیب تھے، اسلامی علوم و ادبیات پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ دو درجن کے قریب، علمی، ادبی اور مذہبی تصانیف ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ آج سے کم و بیش ساٹھ ستر برس قبل ان کی دو عدد کتابوں دو قرآن اور دو اسلام نے بر صغیر کی علمی فضاؤں میں ایک ہلچل سی بپا کیے رکھی۔ ان کتابوں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور تادیر اہل علم و ادب کے حلقوں میں مذکورہ کتابوں کے حوالے سے بحث و تمحیص کا بازار گرم رہا۔

اگر آسان ترین اور مختصر ترین الفاظ میں ان کتابوں کا نچوڑ پیش کیا جانا ممکن ہو تو یہی ہو سکتا ہے کہ ایک قرآن اور ایک اسلام تو وہ تھا جو جناب رسول کریمﷺ لے کر آئے اور دوسرا قرآن اور دوسرا اسلام وہ تھا جو لوگوں نے اپنی ذاتی اغراض اور مقاصد کو سامنے رکھ کر ایجاد کیا۔ یہی بات ڈاکٹر اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں اس انداز میں بھی بیان کی ہے ؛

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

ان گزارشات کو پیش نظر رکھ کر اگر موجودہ تحریر کے سرنامے پر غور کیا جائے تو ”دو پاکستان“ کا عنوان کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ ایک پاکستان تو وہ ہے جسے اقبال کے خواب کی صورت گری کرتے ہوئے قائد اعظم اور ان کے رفقائے کار نے وجود بخشا۔ اور قائد اعظم کے اس پاکستان نے بڑے جذبے، بڑی لگن اور حد درجہ سرشاری سے اپنے وجود میں آنے کا حق ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ دفاتر میں، سندھ کی جھاڑیوں کے کانٹے، بطور ”کامن پن“ استعمال ہوتے تھے۔ یہ ایک مثال ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء میں کیسے کیسے مردان کار اس خطہ پاک کو میسر رہے۔ لیکن پھر جلد ہی حالات نے رخ تبدیل کیا یا حالات کا رخ تبدیل کر دیا گیا۔ دفاعی ضروریات کے پیش نظر کراچی کے دفاتر اسلام آباد منتقل ہوئے اور پھر چند برسوں کے اندر ہی ملک کا ”نصف بہتر“ ہاتھ سے جاتا رہا؛

ہوئی مدت کہ اک بازو کٹا تھا
کف افسوس اب تک مل رہا ہوں

دوسرے پاکستان کی ابتداء شاید یہیں سے ہو گئی تھی۔ اسلام آباد کے ذکر پر منو بھائی کی یاد آ گئی۔ مگر کیسے؟ کوئی لاہور کا ذکر تھوڑی ہے کہ منو بھائی یاد آئیں۔ قصہ یوں ہے کہ جب زندگی میں پہلی بار منو بھائی اپنے بچوں کے ہمراہ اسلام آباد آئے تو جلد ہی انہیں اپنا چند روزہ قیام اور بھی مختصر کرنا پڑ گیا۔ بچے بیزار آ چکے تھے اور اپنے ابا جان سے ضد کر رہے تھے کہ ابا جی چلئے واپس پاکستان۔ یہاں جی نہیں لگ رہا۔ اب تو خیر اتنا عرصہ گزر چکنے کے بعد اسلام آباد بھی قریب قریب پاکستان کا روپ دھار چکا ہے۔ لیکن تب کے اسلام آباد پر منو بھائی کے بچوں کا بے ساختہ تبصرہ کیا ہی معنی خیز تھا۔

منو بھائی ’دراصل پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے ایک غیر معمولی حساس اور نہایت درد مند دل کے حامل تھے۔ ان کی تحریروں میں بھی جا بجا یہ دردمندی اور کڑھن جھلکتی تھی۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

”میری اپنی صحافتی زندگی کے بچپن برسوں کا مشاہدہ ہے کہ تاج برطانیہ نے اس ملک کے لوگوں پر حکمرانی کی گرفت مضبوط رکھنے اور ذہنوں پر تسلط جمائے رکھنے کے لیے جن نوکر شاہی کو پروان چڑھایا اور پھر وطن عزیز کی نام نہاد آزادی کے بعد یہاں چھوڑ گیا ہے اس کی کالے ’سانولے اور براؤن صاحبوں کی اکثریت ابھی تک اپنے آپ کو یونین جیک کے زیر سایہ یہاں کے لوگوں کی اصل حکمران سمجھتی ہے اور کسی بھی طرز حکومت میں‘ وہ سول ہو یا فوجی ’جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہو رعایا پر حکمرانی کرتی ہے اور اس سلسلے میں اپنے سارے کے سارے اختیارات کو مکمل طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے“ ۔

یہی باتیں اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے دیگر اہل قلم اور دانشور بھی کہتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے یہاں عطاء الحق قاسمی صاحب کا یہ جملہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ”جیسے ہندوستان میں مسلمان ’اپنے بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے ہندو اکثریت سے نبرد آزما ہیں‘ یہاں ہم پاکستانیوں کی اکثریت اپنی لڑائی ایک مراعات یافتہ اقلیت سے لڑنے میں مصروف ہے“ ۔ اور اس براؤن نوکر شاہی اور مراعات یافتہ اقلیت کا اپنے قطعی ذاتی مفادات کے حصول کے لئے اپنا تخلیق کردہ پاکستان ہے جو یہاں کے پہلے اور اصلی پاکستان سے کہیں اور کسی جگہ بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔

دست ہوس نے کھینچا ہے وہ خط امتیاز
اس سمت شہریار ’ادھر بے کسان شہر

ان بالا دست طبقوں کا تمام تر زور، کمزور پاکستانیوں کو، خط امتیاز سے پرے دھکیلے رہنے اور اپنے سے الگ رکھنے اور ان پر حکومت کرنے میں ہی صرف ہوتا ہے۔

منو بھائی کے تحریری اقتباس میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے ”نام نہاد آزادی“ ۔ سو ہماری یہ ”نام نہاد آزادی“ مرزا غالبؔ کی آزادی سے کچھ مختلف نہیں۔ مرزا غالبؔ ایک بار قید سے رہا ہوئے تو اپنے ایک دوست کے ہاں عارضی قیام کیا جن کا نام میاں کالے خان تھا۔ ایک اور دوست نے ملاقات ہونے پر رہائی کی مبارکباد دی تو بولے ”میاں کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے، پہلے گورے کی قید میں تھے اب کالے کی قید میں ہیں“ ۔

”دو پاکستان“ کے زیر عنوان یہ تحریر ایک خاکے (Out Line) سے بھی کم تر ہے۔ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بلکہ لکھی جانی چاہیے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب بالا آخر لکھی جائے گی۔ تحریری طور پر بھی اور عملاً بھی۔ اور پاکستانیوں اور براؤن حاکموں کی یہ آویزش جلد یا بدیر اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے گی۔

بظاہر جو حالات ہیں وہ اس کام کے لیے کسی بھی اعتبار سے سازگار نہیں لگتے۔ لیکن حالات بدلتے کون سی دیر لگتی ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا؛

غلامی سے بتر ہے بے یقینی
سو اس بے یقینی ’بے دلی اور بے اعتباری کے دور میں امید پرستی کا چراغ جلتے رہنا از بس ضروری ہے ؛
حلقہ کیے بیٹھے رہو اس شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی سہی ’ہر چیز کہ کم ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments