قصوروار کون؟


مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے کی مانند ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کا کوئی مقام نہ تھا۔

بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کیا جاتا تھا۔ عورتوں کو انتہائی مظالم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں رہن رکھی جاتی تھیں۔ اسلام نے عورت کو برابری کا حق دیا۔ اس کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا۔ ماں کے قدموں تلے جنت اور بیٹیوں کی پرورش پر جنت کا وعدہ فرمایا۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے تمام بنی نوع انسان کے لیے حقوق و فرائض واضح کیے ہیں عورتوں کو اگر پردے کا حکم دیا تو ساتھ ہی ساتھ مردوں کو بھی نگاہیں نیچی اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا۔

چند دن سے سوشل میڈیا پر لاہور میں مینار پاکستان کی حدود میں پیش آنے والے واقعے کا چرچا ہے۔ اسلام کی رو سے اور آئین پاکستان کی روح سے اس ٹک ٹاکر سے چند غلطیاں سر زد ہوئیں۔ جس میں دن کا انتخاب، جگہ کا انتخاب اور وقت سے پہلے اپنے آنے والی جگہ کا پتہ بتانا بھی شامل تھا

اور یہ ساری باتیں ایک حقیقت ہیں اور اس کے متعلق ہر ایک شخص کی ذاتی رائے بھی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکی کو کئی سو لڑکوں نے گھیر رکھا ہے اور اس کو دھکے دے رہے ہیں۔ اس کے کپڑے پھاڑ دیے گئے اس سے نقدی، موبائل فون اور سونے کے ٹاپس چھین لیے گئے۔ لگ بھگ چار سو لگ تھے یعنی آٹھ سو آنکھیں جو شاید شرم و حیا سے عاری تھیں۔

چلیں تھوڑی دیر تصوراتی ماحول میں چلے جائیں۔ مینار پاکستان پر جو واقعہ پیش آیا اس میں وہ ٹک ٹاکر لڑکی قصوروار تھی کہ اس نے غلط جگہ کا انتخاب کیا؟ دن بھی غلط تھا

مگر دو دن قبل کراچی میں ایک سابقہ شوہر نے اپنی بیوی پر تیزاب پھینک دیا اس کا قصور وار کس کو ٹھہرائیں؟

گجرات میں ایک سات سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں؟

اسلام آباد کیپیٹل سٹی میں نور مقدم نامی لڑکی کا گلہ کاٹ دیا گیا۔ اس کے والدین انصاف کے لیے آج بھی کورٹ کچہری کا چکر لگا رہے ہیں۔ اس کا قصوروار کس کو ٹھہرائیں؟

راولپنڈی کے علاقے میں نسیم بی بی نامی عورت کی جو عصمت دری کی گئی۔ اس کو چھرا مارا گیا۔ اس کا قصوروار کس کو ٹھہرائیں؟

کراچی کے علاقے میں قتل ہونے والی صائمہ بی بی کا قاتل اس کی عزت کا رکھوالا اس کا اپنا مجازی خدا تھا مگر اس معاملے میں بھی کیا قصوروار عورت ہی تھی؟

ان سارے واقعات کا ذکر کرنے کا ہرگز مقصد مرد کو غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد اس سوچ کے خلاف آگاہی پیدا کرنا ہے کہ جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ آئے روز ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ نوجوان نسل کی بیرا روی اور نظر کی بے احتیاطی ہے۔ نظر کی بے احتیاطی کا عصمتوں کی پامالی سے چولی دامن کا رشتہ ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتی و افرادی اقدامات ضروری ہیں۔

عورت پر مظالم ڈھانے والو کو سرعام سزا دینی چاہیے۔ قومی جگہوں پر مخصوص گروہوں کے داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔ قومی جگہوں کے تقدس کی پامالی پر سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments