رپورٹر کی ڈائری، میں نے طورخم بارڈر پر کیا دیکھا؟


طورخم بارڈر پر اب افغانستان کی طرف طالبان نظر آتے ہیں۔
طورخم — افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد افغانستان سے نکلنے کی خواہاں ہے تو وہیں افغان شہریوں کی بڑی تعداد پاک، افغان بارڈر طورخم پر افغانستان جانے کے لیے بھی بے چین ہے۔

کڑکتی دھوپ اور گرمی کے اثر کو زائل کرنے کے لیے سر پر سفید رومال باندھے طورخم ٹرمینل پر افغانستان جانے کے منتظر عزیز اللہ سے جب میں نے استفسار کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان سے باہر بھاگ رہی ہے تو آپ وہاں جانے کے لیے بے قرار کیوں ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ “افغانستان ہمارا ملک ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔”

انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ لوگر سے ہے اور ان کے والدین ضعیف العمر اور بیمار ہیں جن کی تیمارداری اور خدمت کرنے کے لیے وہ واپس جا رہے ہیں۔

طورخم بارڈر پر افغانستان جانے والوں میں مرد، خواتین اور حتیٰ کے بچے بھی شامل ہیں جب کہ وہیل چیئرز پر بھی معذور افراد کی بھی اچھی خاصی تعداد واپس جانے کے لیے طورخم بارڈر پر نظر آئی۔

رواں ماہ کے اوائل میں جب طورخم بارڈر جانے کا اتفاق ہوا تو مخالف سمت سے افغان فوجیوں نے فلم بندی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم منگل کو منظر کچھ مختلف تھا کیوں کہ مخالف سمت پر گیٹ کے دونوں اطراف پر طالبان نے اپنا پرچم لگایا ہوا تھا۔ فوجی وردی کے بجائے سادہ کپڑوں میں بے شمار افراد بندوقیں لیے سیکیورٹی پر مامور تھے۔ جب میں ان کے قریب پہنچا تو انہوں نے خیریت دریافت کرنے کے بعد افغان فوجیوں کی طرح فلم بندی سے منع کیا۔

طورخم بارڈر پر طالبان کے پرچم لہراتے دکھائی دے رہے ہیں۔
طورخم بارڈر پر طالبان کے پرچم لہراتے دکھائی دے رہے ہیں۔

طورخم بارڈر کی سیکیورٹی پر مامور طالبان اہل کار کے مطابق وہ کسی کو بلا وجہ تنگ نہیں کرتے اور کوشش ہوتی ہے کہ ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھا جائے۔

انعام اللہ شنواری کا تعلق ضلع خیبر سے ہے۔ وہ گزشتہ 30 برس سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ٹرک چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحد پار حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ان کی مزدوری پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی ہے۔

ایک اور دلچسپ منظر نے طورخم بارڈر پر کھڑے تمام افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ افغانستان سے آنے والے ہر ٹرک کے پہیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں اسمگلنگ کا سامان اٹھائے گھس جاتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے یہ سامان پاکستان پہنچ جائے۔ یاد رہے کہ دونوں اطراف پر اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔

ایک چھوٹی لڑکی جس نے اپنی کمر پر بیگ اُٹھا رکھا تھا سے میں نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ اس میں تمباکو ہے۔ ایک پاکستانی اہل کار کے مطابق یہ چھوٹے بچے ان کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔

افغانستان آنے جانے والوں میں سفارت کار اور ان کے اہلِ خانہ، ایسے افغان شہری جنہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے بذریعہ طورخم خصوصی اجازت دی گئی ہو اور ایسے پاکستانی شہری شامل ہیں جو حالات کی وجہ سے وہاں پھنس گئے تھے۔

طورخم بارڈر پر کسی وقت میں ایک پُر رونق بازار ہوا کرتا تھا۔ تاہم سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اب اسے ختم کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں صرف منی چینجر کی چند دوکانیں رہ گئی ہیں۔ جہاں سے افغانستان جانے والے افغانی کرنسی لے کر جاتے ہیں جب کہ وہاں سے آنے والے پاکستانی کرنسی خریدتے ہیں۔

افغانستان سے پاکستان ٹرک پر انگور لانے والے ایک ڈرائیور نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ وہ شیر خان بندر سے 22 گھنٹوں میں طورخم بارڈر پہنچے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں حالات کشیدہ ہیں۔ نظام درہم برہم ہے۔ ہر طرف سناٹا ہے۔ بازاروں میں کہیں بھی گہما گہمی نہیں ہے۔

طورخم بارڈر پر پاکستان کی جانب سے اشیائے خورو نوش کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ طورخم بارڈر پر ایک کسٹم اہلکار نے بتایا کہ افغانستان میں کشیدہ حالات کے باعث تجارت کم ہوئی ہے۔

اُن کے بقول پہلے روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے پندرہ سو تک گاڑیاں طورخم کے راستے گزرتی تھیں جب کہ موجودہ حالات میں یہ تعداد ںصف سے بھی کم ہو گئی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کابل میں بینک بند ہیں۔ ایسے میں پاکستانی تاجر مزید سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب افغانستان سے زیادہ تر سبزی اور فروٹ کی تجارت ہو رہی ہے جسے زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا۔

یاد رہے کہ افغانستان سے زیادہ تر ٹماٹر، گرما، سیب، کھیرا اور انگور پاکستان بھیجا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت اس کا سیزن ہے اور اسے زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments