میسورو گینگ ریپ: طالبہ کی حالت ’خطرے سے باہر‘


Demonstrators in India hold placards to protest against sexual assaults on women, File photo
انڈیا میں حالیہ برسوں میں عورتیں کے ریپ اور ان کے خلاف جنسی تشدد کے معاملے پر کافی بحث کی جا رہی ہے۔
انڈیا کے ایک ہسپتال میں ایک تئیس برس کی طالبہ گینگ ریپ کا شکار بننے کی وجہ سے زیرِ علاج ہے جبکہ پولیس اُس کے ساتھ زیادتی کرنے والے حملہ آوروں کو تلاش کر رہی ہے۔

اس سے قبل یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ یہ طالبہ انتہائی تشویش ناک حالت میں ہے، تاہم ریاست کرناٹک کے شہر میسورو کی پولیس نے وضاحت کی ہے کہ اب اِس طالبہ کی حالت ‘خطرے سے باہر’ ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ پانچ افراد کو تلاش کر رہی ہے جن کے خلاف اس طالبہ اور اس کے دوست نے، جو خود بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنا تھا، بیان دیا ہے۔

یہ واقعہ میسورو کے ایک مقام چموندی پہاڑی میں پیش آیا تھا۔ یہ علاقہ نوجوان جوڑوں میں کافی مقبول ہے۔

بی بی سی ہندی کے نامہ نگار عمران قریشی نے ریاست کے دارالحکومت بنگالورو (بنگلور) سے بتایا ہے کہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ جو اب ہسپتال میں زیرِ علاج ہے وہ ایک مقامی مینیجمنٹ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اور اُس کا دوست منگل کی شام ساڑھے سات بجے للیتادھریپورا شہر کی جانب واپس آرہے تھے جو کہ میسورو کا ایک مضافاتی علاقہ ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور شراب کے نشے میں دُھت تھے اور انھوں نے طالبہ کو جنسی تشدد بنانے سے پہلے اس کے طالب علم دوست پر شراب کی بوتلوں سے حملہ کیا تھا۔

اپنی شکایت میں طالب علم نے کہا کہ ان لوگوں نے پہلے تو ان کو لوٹنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن پھر انھوں نے اُسے مارا پیٹا اور طالبہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے زبردستی اٹھا کر لے گئے۔

میسورو پولیس کے کمشنر، چندراگپتا نے کہا ہے کہ ‘(طالبہ) کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔’

پولیس کمشنر نے کہا کہ ‘ملزموں کو گرفتار کرنے کے لیے کئی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ یہ ایک حساس کیس ہے اس لیے اس کے بارے مزید تفصیلات جاری نہیں کی جا سکتی ہیں۔’

لنکس

رکن پارلیمان پر ریپ کا الزام لگانے والی عورت کا فیس بک لائیو اور پھر خود سوزی

انڈیا میں ریپ کے بڑھتے واقعات

دہلی گینگ ریپ کے چار مجرموں کی سزائے موت برقرار

میسورو کی طالبہ کے ریپ کا واقعہ کا اب انڈیا میں سنہ 2012 میں ہونا والی مشہور ریپ کے واقعے سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ دسمبر سنہ 2012 میں دہلی میں ایک طالبہ کو اس کے دوست سمیت چھ افراد نے ایک بس میں اغوا کیا تھا اور طالبہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے ساتھی کو مارا پیٹا تھا۔ یہ لڑکی بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی۔

اُس لڑکی کے دوست نے بعد میں پولیس کو تمام واقعات سے آگاہ کیا تھا اور حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ پولیس نے چھ ملزموں کو گرفتار کیا تھا جن میں ایک کم سن مجرم بھی شامل تھا۔

ریپ کے اُس واقعے نے دنیا بھر میں ایک شور برپا کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے جنسی تشدد کے جرائم کی روک تھام کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے تھے۔ ان چھ میں سے پانچ حملہ آوروں کو سزائے موت سنائی گئی تھی، چار کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا جبکہ پانچواں جیل میں ہی مر گیا تھا۔

تاہم سخت قوانین اور سخت نگرانی کے باوجود انڈیا میں عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی۔

انڈین پولیس کے مطابق، سنہ 2018 میں تقریباً چونتیس ہزار (33,977) عورتیں ریپ کا شکار ہوئیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عورت ریپ کا نشانہ بنتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عورتوں کے ریپ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp