افغانستان میں طالبان: کابل پر طالبان کے قبضے نے کیسے ایشیائی ممالک کو ہلایا اور چین کے حوصلے بلند کیے

تیسا وونگ اور زاؤان فیگ - بی بی سی نیوز، سنگاپور اور واشنگٹن


امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس
کملا ہیرس نے اپنے حالیہ دورہ ایشیا کے دوران اپنے اتحایوں کو سکیورٹی کی یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان عوام کی بے بسی کے جو مناظر منظر عام پر آئے ہیں انھوں نے نہ صرف پوری دنیا بلکہ ایشیا کے ممالک میں بھی لاکھوں افراد پر سکتہ طاری کر دیا ہے اور متعدد لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب بھی امریکہ پر یقین کیا جا سکتا ہے؟

طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے ایک ہفتے بعد گذشتہ اتوار کی شام امریکی نائب صدر کملا ہیرس ایشیا کے دورے کے سلسلے میں سنگاپور پہنچیں۔

اپنے دورے کے آغاز سے ہی کملا ہیرس نے اس بات پر زور دیا کہ یہ خطہ امریکہ کی ’اولین ترجیح‘ ہے۔

لیکن کیا تشویش سے دوچار ایشیائی خطے کے ممالک کے لیے یہ زبانی یقین دہانی کافی ہے؟ ماہرین کے مطابق کیا امریکہ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ افغانستان کی حالیہ صورتحال کو چین جس طرح امریکہ مخالف ایجنڈا چلانے کے لیے ایک سنہرے موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے، وہ اس کا سامنا یا اس کا دفا‏ع کر سکے گا؟

بے چینی اور تشویش کا اظہار

پیر کو سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے متنبہ کیا تھا کہ خطے میں متعدد لوگ اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ اپنا رُخ کیسے بدلتا ہے یا وہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔

خطے میں امریکہ کے دو بڑے اتحادی جنوبی کوریا اور جاپان کے عوام میں امریکہ کے لیے جو اعتماد تھا وہ زیادہ متاثر نہیں ہوا ہے لیکن بعض حلقوں نے دبے الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بعض قدامت پسندوں نے اپنی افواج کی تعداد میں اضافے کی بات کی کیونکہ اُن کا مؤقف ہے کہ انھیں امریکہ کے اس وعدے پر مکمل یقین نہیں ہے کہ مشکل کی گھڑی میں وہ اُن کا ساتھ دے گا۔

جنوبی کوریا اور جاپان میں ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی تعینات ہیں لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی سے کچھ پرانے رشتے متاثر ہوئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے اے بی سی نیوز نامی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹریو میں امریکی صدر جو بائیڈین نے کہا تھا کہ افغانستان، جنوبی کوریا، جاپان اور تائیوان کے درمیان ’ایک بنیادی فرق ہے‘ اور ان کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اگست 23 2021 کی یہ تصویر جس میں طالبان جنگجوؤں کو افغانستان کی سڑکوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان میں بے حد تشویش پائی جاتی ہے

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کا ایشیا کے دیگر قدرے امیر ممالک سے کوئی مقابلہ نہیں ہے اور ان ممالک کی اپنی مضبوط حکومتیں ہیں اور ان کے پاس بہتر فوجی وسائل موجود ہیں۔

ایشیا کی جمہوریتیں ہونے کے ناطے اُن کے اقدار امریکہ جیسے ہیں اور ان کے دوسرے ممالک کے ساتھ بڑے اور بہتر فوجی اور تجارتی رشتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا جیسا ملک جو ایشیا میں امریکی فوجی حکمت عملی کا اہم محور ہے وہاں سے امریکہ عنقریب اپنی فوجیں واپس بلا لے گا، اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔

امریکہ تباہی کا باعث ہے

لیکن جیسے جیسے غیر یقینی کی صورتحال بڑھ رہی ہے، چین نے اپنے مؤقف میں شدت اختیار کر لی ہے۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ وی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے ’جلد بازی‘ میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلوانے کا ’انتہائی منفی اثر ہوا‘ ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے بعض سخت گیر رہنما اور سرکاری میڈیا اپنی مخالفت میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیئن نے بار بار طالبان کے کابل پر قبضے کا سنہ 1975 میں سیگن پر ویتنامی فوج کی جانب سے قبضے سے موازنہ کیا ہے جبکہ اُن کے ساتھی ہوا چنینگ نے امریکہ کو ’تباہ کن‘ ملک قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہا ہے کہ ’امریکہ جہاں بھی اپنے قدم رکھتا ہے وہاں پریشانی بڑھتی ہے اور پھوٹ پڑتی ہے، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں اور ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘

قوم پرست اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے ایک اداریہ شائع کیا جس میں تائیوان سے کہا گیا ہے کہ وہ ’چین مخالف ایجنڈے میں امریکہ کا ساتھ دینا بند کرے‘ اور ساتھ ہی یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ امریکہ کبھی بھی تائیوان کے دفاع میں چین کے ساتھ مہنگی ترین جنگ کا آغاز نہیں کرے گا۔

اخبار کے ایڈیٹر نے ایک ٹویٹ بھی کیا ہے جس کا مختصر ترجمہ کچھ اس طرح ہے: ’افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد تائیوان کے حکام کانپ رہے ہوں گے۔ یہ حکام اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی جانب نہ دیکھیں۔‘


تائیوان، جو امریکہ سے اسلحہ خریدتا ہے، اپنے آپ کو ایک آزاد ملک بتاتا ہے لیکن چین اس کو اپنا ہی ایک باغی صوبہ سمجھتا ہے جس پر اسے دوبارہ قبضہ کرنا چاہیے، چاہے اس کے لیے طاقت کا ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔

تائیوان

چین تائیوان کو اپنا ایک باغی صوبہ سمجھتا ہے مگر تائیوان اپنے آپ کو ایک آزاد ملک بتاتا ہے

حالیہ دنوں میں اس جزیرے نے چین کے خلاف جارحانہ رُخ اختیار کرتے ہوئے چین کا موازنہ طالبان سے کیا ہے۔ تائیوان کے وزیر اعظم سو سینگ چانک نے گذشتہ ہفتے کہا تھا وہ ’بیرونی طاقتیں‘ جو چین پر حملہ کرنا چاہتی ہیں وہ ’گمراہ‘ ہیں جبکہ وہاں کے وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ چین طالبان کی نقل کرنا چاہتا ہے لیکن ہم واضح طور پر یہ کہنا چاہيں گے کہ ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے ہمت اور ارادہ ہے اور وسائل بھی ہیں۔


اے بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں صدر جو بائیڈن نے جس طرح کے بیان دیے ہیں اس نے صورتحال مزید کشیدہ کر دی ہے۔ اس انٹریو میں جو بائیڈین نے تائیوان، جنوبی کوریا اور جاپان کو ایک ساتھ جوڑ دیا۔ جاپان اور جنوبی کوریا وہ دو ممالک ہیں جن کے ساتھ امریکہ کا باقاعدہ یہ معاہدہ ہوا ہے کہ جنگ کی صورتحال میں وہ اِن ممالک کا دفاع کرے گا۔

جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح تائیوان کا امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا ہے بلکہ دونوں کے درمیان بس ایک طرح کی سرسری طور پر سکیورٹی کی گارنٹی کی بات ہوئی ہے۔

امریکی حکام نے بعد میں کہا کہ ان کی تائیوان سے متعلق ’مبہم حکومت عملی‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن اس واقعہ نے چین کے سرکاری میڈیا کو امریکہ پر حملہ کرنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین کو ایشیائی خطے میں عوام کو اس بات پر قائل کرنے کا ایک سنہرا موقع مل گیا ہے کہ امریکہ پر اب یقین نہیں کیا جا سکتا ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں پولیٹیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایان چونگ کا کہنا ہے کہ ’اس پروپیگینڈا کا پورا مقصد ان حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے جو امریکہ سے قریب ہیں، اور ان کے رشتوں کو کمزور کرنا ہے۔‘

محتاط رویہ

لیکن افغانستان کی صورتحال چین کے لیے کوئی ’جیک پاٹ‘ ثابت نہیں ہوئی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک جرمن مارشل فنڈ میں ایشیائی امور کے ماہر بونی گلیسر کا کہنا ہے کہ چین افغانستان کی حالیہ صورتحال کو فائدے سے زیادہ خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

منی سکرٹ سے برقعے تک: افغان خواتین کی زندگیاں کیسے بدلیں

وادی پنجشیر: طالبان سمیت بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ

’تین روز سے سن رہے تھے کہ ایئرپورٹ پر دھماکے کا خطرہ ہے اور پھر وہی ہو گیا‘

ان کا کہنا ہے ’چینی حکام افغانستان میں عدم استحکام کے بارے میں تشویش رکھتے ہیں کیونکہ افغانستان اب بھی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔‘

ایک حقیقت پسندانہ رخ اختیار کرتے ہوئے چین نے گذشتہ ماہ طالبان کو مذاکرات کے لیے مدعو کیا تھا اور ان کو اقتصادی مدد کی پیشکش بھی کی تھی۔ ساتھ ہی چین نے اس بات پر زور دیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کو تیار کرنے کے لیے استعمال نہ کی جائے۔

چین کی وزیر خارجہ وانگ وی اور طالبان لیڈر ملا برادر

چین یہ چاہے گا کہ افغانستان میں سیاسی استحکام قائم رہے اور اسے وہاں کاروبار کرنے کا موقع ملے

افغانستان میں سیاسی استحکام چین کے حق میں ہو گا۔ اس کی کمپنیوں نے وہاں تیل اور تانبے کی کانکنی کا اربوں ڈالر کے ٹھیکے حاصل ہو پائیں گے۔

لیکن علاقائی سطح پر چین طالبان کے ساتھ اپنے اس محتاط اتحاد کے بارے میں عوام کے اس گروہ کو قائل کرنے میں تقریباً ناکام رہا ہے جو طالبان سے نفرت کرتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے جب طالبان نے واپس ملک پر اپنا قبضہ کیا تو وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ نے بیان دیا کہ چین ’افغانستان کے عوام کی پسند‘ کی قدر کرتا ہے۔ اس بیان کے بعد چینی سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا اور لوگوں نے کہا کہ حکومت اصل مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب چین میں خواتین کے حقوق کے بارے میں زبردست بیداری پائی جاتی ہے، متعدد افراد نے خواتین کے تئیں طالبان کے رویے پر تنقید کی ہے۔

چین شدت پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی ہی ملک میں مسلمان اقلیت پر بے رحمی سے کریک ڈاؤن کر رہا ہے، اسے اب اپنے پڑوس میں ہی اسلامی شدت پسند گروپ کا سامنا ہو گا۔

ڈاکٹر چانگ کا کہنا ہے کہ اویغر مسلمانوں کے خلاف کاروائی کر کے ’چینی حکومت عوام کے دلوں میں مذہبی گروپوں کے بارے میں شکوک پیدا کر رہی ہے۔ تو ایسے میں طالبان کے ساتھ ان کی دوستی ایک مسئلہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ شدت پسندی سے متعلق اس کی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔‘

چین اس وقت جو بھی کر رہا ہے وہ اپنے فائدے کے لیے کر رہا ہے۔ ’لیکن اسے سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے، یہ سب ابھی واضح نہیں ہے۔ ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ افغانستان کس سمت جا رہا ہے۔‘

سب کی نظریں امریکہ پر

بونی گلیسر جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان سے فوج کا انخلا ’امریکہ کی لیڈرشپ کے لیے موت کی گھنٹی نہیں ہے۔‘ اور امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دہانی کرائی جائے گی کہ وہ ایشیائی خطے اور چین کے سامنے ان کے مفادات کے اب زیادہ توجہ دے گا۔

طالبان

طالبان قیادت کے اہم رہنما کون ہیں؟

افغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ‘سلطنتوں کا قبرستان’ بناتا ہے

داڑھی سے ’استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ‘ اور طالبان کی کاسمیٹکس کی دکان سے بیویوں کے لیے خریداری


منگل کے روز سنگاپور میں اپنے خطاب میں کملا ہیرس نے ایشیا کے ساتھ امریکہ کی وفاداری کے عہد کے بارے میں عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا ’اس بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس خطے میں ہمارے گہری دلچسپی اور پائیدار عزائم ہیں جن میں سکیورٹی بھی شامل ہے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے کہ امریکہ ان رشتوں کو مزید مضوبط کرنے کے لیے اپنا وقت اور محنت لگائے گا۔‘

کملا ہیرس

امریکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ایشیا کے ممالک کا ساتھ چاہتا ہے

آئی آئی ایس ایس ایشیا نامی تھنک ٹینک کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر جیمس کریب ٹری کا کہنا ہے ’کملا ہیرس کا ایشیا کا دورہ حالیہ دنوں میں اعلیٰ امریکی اہلکاروں کی جانب کیے جانے والے متعد دوروں میں سے ایک ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اس تنقید کا جواب دے دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’آپ ہمیں بھول چکے ہو۔‘ اس لیے ’اب وہ ایشیا کے دورے پر آ رہے ہیں۔‘

اب اگلا سوال یہ ہے کہ ’اتحاد کی ان ساری باتوں کا اصل مطلب کیا ہے؟ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟‘

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو محض وعدوں سے زیادہ کچھ کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر چانگ کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ نے جو وعدے کیے ہیں، جو عہد کیے ہیں، ان کے لیے اس کے اتحادیوں کی حمایت، اقوام متحدہ کے سرحدی حدود سے متعلق کنویشن اور ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ ٹریڈ معاہدے یعنی بین البراعظمی تجارتی معاہدے میں امریکہ کو واپسی کرنی ہو گی جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔

مسٹر کریب ٹری کا کہنا ہے کہ ’لوگ اب امریکہ پر زیادہ گہری نظر رکھیں گے کہ اب وہ ایشیا میں کرتا کیا ہے، کیونکہ افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے بعد وہ ایسے موقع کی تلاش میں رہیں گے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ وہ اعتبار کے قابل نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’امریکہ اب اس بات کو لے کر محتاط رہے گا کہ لوگ اس کے ارادوں اور وعدوں پر سوال نہ اٹھائیں اور وہ ایسے اقدامات کرے گا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اُس کے ارادے نیک ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp