جناب! آپ پولیس ہیں، جرگے پر نہیں قانون پر یقین کیجئے


حسن کی دیوی سوات میں حالیہ سیاحتی سیزن کے دوران سیاحوں کے لوٹنے کے پے در پے واقعات کے بعد اہالیان سوات کو شدید ندامت کا سامنا پڑا کہ مہمان نوازی اور سادی مزاجی کے لئے بے مثال وادی میں میں لوٹ کھسوٹ کا رواج کیسے چل پڑا؟

سول سوسائٹی کو یہ شبہ بھی لاحق ہوا کہ کہی شرپسند عناصر ایک بار پھر سازشی چال چلا کر سوات کو بدنام اور سیاحت کو ڈبونے کی مذموم کوششوں میں تو نہیں لگے ہیں؟

یہی غم سر پہ لئے سوات کا میڈیا پولیس و انتظامیہ سے مسلسل ڈکیتوں کی کھوج لگانے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے متحرک ہوا۔ اسی دوران ڈکیتی کا ایک اور واقع کالا کوٹ پولیس سٹیشن کے احاطے میں ہوا، لیکن مثالی پولیس نے ایک اور مثال قائم کرتے ہوئے ڈی ایس پی سرکل مدین فضل سبحان صاحب نے عزت ما آب جناب ڈی پی او سوات دلاؤر بنگش کی ہدایت پر سیاحوں کی داد رسی کے لئے سیاحوں کو حبس بے جا میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

یہ مردان سے تعلق رکھنے والے چار طلبہ تھے، جو سیر و تفریح کے لئے کالام آئے تھے۔ جب ان کے اہل خانہ کو خبر ہوئی تو سابق ایم این اے مردان حمایت اللہ مایار نے سوات پہنچ کر ایک پریس کانفرنس میں طلبہ کا موقف حکومت کے سامنے پیش کیا اور شدید صدمے کا اظہار کیا۔ سوات کے صحافیوں نے تحقیقاتی رپورٹس شائع کیے ، مگر مثال قائم کرنے والی پولیس طلبہ کو چور ثابت کرنے کے مختلف جواز پیش کرتے رہیں اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا باعث شرم گردانتے رہے۔ اس دوران پولیس نے چند صحافیوں کو بھی اس مہم کا حصہ بنایا کہ کس طرح پولیس کے بیانئے کو درست ثابت کیا جائے۔ سوات اور مردان میں سول سوسائٹی نے طلبہ پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تو ان کو قانون شکن اور ریاست دشمن ظاہر کرنے کی ایک بھرپور مہم چلائی گئی۔

لیکن سچ کسی نہ کسی صورت اگلا ہی جاتا ہے۔

آئی جی پی خیبر پختونخوا اچانک سوات میں قدم رنجہ فرما گئے اور صحافیوں کے سوال پر کھل کر حقائق سامنے رکھ دیے اور یہ بھی بتا دیا کہ مردان کے بے گناہ طالب علموں کی گرفتاری اور تشدد پر افسردہ ہیں اور ان کے گھر جرگہ بھیج کر عزت دیں گے۔

جناب من! اگر جان کی امان پاؤں تو ایک اور سوال بذریعہ اس تحریر سامنے رکھنے کی گستاخی کرتا ہوں کہ اگر پولیس سے خود سنگین غلطیاں سرزد ہو جائے تو قانون اور عدالت سے مبرا ہو کر جرگوں اور پنچایتوں سے عزت دینا ہی کافی ہوتا ہے؟

اور اگر کوئی عام شہری غلطی ثابت نہ ہونے پر بھی سیدھے حوالات، تشدد اور پھر جیل جانا لازمی ہوتا ہے؟
اس پر آپ جناب کا قانون کیا کہتا ہے؟

پاکستان کے اس عدلیہ نظام پر بھی کبھی کبھار سوال اٹھانے کی گستاخی کو کڑھتے ہیں، لیکن دل ہی دل میں کڑھنے کے سوا اور چارہ کیا ہے؟

جہاں تک ہم عوام سمجھتے ہیں تو سرکار اور عوام کا ایک باقاعدہ آئینی معاہدہ یہی ہے کہ جرم چاہے وزیراعظم کرے یا ایک مزدور ریڑھی بان، سزا و جزا کا طریقہ کار ایک ہی ہوگا۔

لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ طالب علموں کے پورے خاندان کی عزت نفس کو تار تار کرنے کے بعد باوردی جرگے ان کو کیا عزت دیں گے؟

قارئین میں سے اگر کوئی قانونی ماہر ہیں تو علم میں اضافہ کیجئے گا کہ کیا عدالتیں بھی آئینی اور قانونی سزا کی بجائے جرگوں شرگوں اور منت ترلوں کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں؟

اب تو آئی جی پی صاحب خود اعتراف جرم کرچکے ہیں کہ ان کے ڈی پی او اور ڈی ایس پی سے یہ جرم سرزد ہو چکا ہے۔

مگر بار بار سوالات اٹھانے کی گستاخی ہو رہی ہے کہ کیا انصاف کا یہ معیار کہ بجائے دونوں کو معطل کرنے یا کم از کم تبادلے کرنے کے جرگوں کے ذریعے ان کی نوکریاں بچانے کی کوششیں ہو رہی ہے؟

میرے خیال میں مردان اور سوات کے سول سوسائٹی کو قانون کے ان رکھوالوں کے خلاف ہائی کورٹ میں ہتک عزت اور ہرجانے کا کیس دائر کر کے فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے کہ معزز عدالت خود یہ فیصلہ سنا دے کہ جس طرح ان طالب علموں پر ظلم ڈھائے گئے، ان کے تصاویر پر چور کا عنوان دے کر سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نشر کر کے ان کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا اور ان کو حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کا بنایا گیا اس کی سزا کیا ہونی چاہیے۔

امید ہے معزز عدالت میں اس کے لئے کوئی واضح سزا کا طریقہ کار موجود ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments