بے سمت راستوں کے مسافر


وہ تیزی سے سارے منظر سمیٹنے لگا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ منظر ساتھ نہیں جائیں گے۔ اس کے ساتھ اگر کوئی چیز جائے گی تو وہ ایک اتھاہ تاریکی ہوگی جس میں ہر منظر کھو جائے گا۔ ہر رنگ بے رنگ ہو جائے گا۔ پھر بھی وہ منظر سمیٹ رہا تھا۔

اس نے ایک سمت نظر ڈالی۔ ایک وسیع منظر اس کے نگاہوں میں سمٹ آیا۔ ایک بہت بڑی سبز و شاداب وادی تھی۔ ہری بھری پہاڑوں کی چوٹیاں تھی۔ ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے۔ سورج بھی اپنے پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہرطرف گیس کے ہنڈولے لٹکے ہوئے تھے کہ اگر سورج ساتھ دینے سے انکار کردے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔

کچھ لوگ ان حسین مناظر کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ان کے لباس صاف ستھرے اور قیمتی تھے۔ شاید ان لوگوں نے وہاں تک کا سفر دوسروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر طے کیا تھا یا پھر وہ وہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ لوگ سبزہ سے ڈھکی ہوئی وادی کے وارث تھے۔ ان میں سے بعض لوگوں میں اتنی رعونت تھی کہ بات بھی کریں تو لگتا تھا آپ کے منہ پر تھوک رہے ہیں۔

کچھ اور بھی لوگ وہاں موجود تھے۔ وہ لوگ بہت عجلت میں تھے وہ سورج کی کرنوں سے اپنے کپڑے رفو کرنے میں مصروف تھے ان کی کوشش تھی کہ کام جلد ختم ہو اور وہ بھی مناظر کا لطف اٹھانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ یہ وہ لوگ

تھے جو اپنی جدوجہد سے اس شاداب وادی تک پہنچے تھے۔ راستے کے پیچ و خم کو اپنے قدموں سے زیر کیا تھا۔ اس وادی تک جانے والی پگڈنڈی خاردار اور تنگ تھی۔ اس پر چلنے کے لئے کانٹوں پر پاؤں رکھنے کا حوصلہ بہت ضروری تھا۔ ہر ایک کے تصور میں بسی ہوئی جو منزل ہے وہ یہی ہو سکتی ہے۔ میں بھی کاش وہاں تک پہنچ پاتا۔ اس نے سوچا۔

اس نے دوسری طرف نگاہ ڈالی ایک دوسرا منظر اس کا منتظر تھا۔ ایک وسیع ریگ زار تھا۔ ان گنت مٹیالے رنگ کے پہاڑ اور بنجر ٹیلوں کا اک سلسلہ تھا۔ ایک زرد سا سورج پہاڑوں پر اپنے ہاتھ ٹیک کر اپنے زوال کا مقابلہ کرنے حوصلے سمیٹ رہا تھا۔ ان ٹیلوں اور پتھروں پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیروں میں چھالے پڑے ہوئے تھے اور ان چھالوں کے عکس آنکھوں میں کراہ رہ تھے۔ درد کی تاب نہ لا کر وہ اپنے چھالوں کو پھوڑ دینا چاہ رہے تھے۔ لیکن ان کے ہاتھ خالی تھے نہ ہی حوصلوں کے نشتر ان کے پاس تھے اور نہ ہی کوئی مرہم تھا۔ چہروں پر تھکن مکڑی کے جالوں کی طرح تنی ہوئی تھی۔ پاس ہی ان گنت چراغ رکھے ہوئے تھے جو ہواؤں کی زد پر تھے۔ ان میں سے بیشتر چراغ بجھے ہوئے تھے جیسے ہوا نے اپنا راز افشاں کرنے کے جرم میں انہیں خاموش کر دیا ہو۔

اس نے نگاہ پھیرلی اور اس سمت دیکھنے لگا جہاں سے وہ چلا تھا۔ اس کے ساتھی ابھی تک اس بوسیدہ فصیل کے سائے میں پناہ لئے بیٹھے تھے اور دیوار سے جھڑتی ہوئی مٹی کھانے میں مصروف تھے۔ وہ دیوار سے اتنے چمٹے ہوئے تھے کہ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ حالانکہ دیواروں پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے چاہے وہ محبت ہو کہ نفرت ’وہ سچ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی کوئی تصنع نہیں ہوتا۔

ان کی ویران آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا۔ دیوار خمیدہ ہو گئی تھی اور اس کے اوپر کچھ لوگ سوار تھے جوان لوگوں کی اس حالت زار کو دیکھ کر ہنس رہ تھے۔ ایک وقت تھا کہ فصیل کے اس طرف کا علاقہ بھی ان لوگوں کا تھا لیکن اب اس پر دوسرے لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا اور ان لوگوں کو دیوار سے لگی ہوئی خندق میں ڈھکیل دیا تھا۔ اور دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئے تھے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کی پوشاکیں اجلی تھیں اور دانت چاندی کے تھے اور ہونٹوں پر لالی تھی اور یہ لالی پان کی نہیں تھی۔

ان لوگوں کا اصرار یہی تھا کہ وہ لالی پان ہی کی ہے۔ پان ان کی تہذیب کا حصہ ہی نہ تھا وہ تو نیم کے کڑوے داتن کے عادی تھے۔ اجلی پوشاک والے کوئی چیز چبا چبا کر دیوار پر سوار دوسرے ساتھیوں کے منہ میں ڈال دیتے تھے جسے وہ لوگ مرغوب غذا کی طرح کھا رہے تھے۔ وہ لوگ بری طرح دیوار پر سوار تھے اور اسے یقین تھا کہ وہ لوگ اسے فرش کردیں گے۔ اسی انکشاف نے اسے دیوار کا سایہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے حیرت سے خندق میں پڑے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔

نہ جانے یہ لوگ ابھی تک کس طرح دیوار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ آگہی بھی کتنا مہلک زہر ہے۔ ایک بار اسے پی لینے کے بعد تیرگی کو اجالا اور دھوپ کو چھاؤں کہنے کی کوشش کرو تو زبان کٹنے لگتی ہے۔ وہ بھی یہ زہر پی چکا تھا۔ اسے پینے کے بعد ہی وہ دیوار کے سائے میں بیٹھ نہیں پایا تھا۔ ایک احساس کہ وہ لوگ دیوار کو ڈھا دیں گے‘ رفتہ رفتہ یقین بنتا گیا اور پھر یہ فیصلہ کیے بغیر کہ کہاں جانا ہے اس نے وہ سایہ چھوڑ دیا۔ شاید وہ فیصلہ کر بھی لیتا اور منزل کو پا لیتا لیکن اسے اپنے حواس تک درست کرنے کی مہلت نہیں ملی تھی۔

اف۔ خوفزدہ ہو کر اس نے چوتھی طرف نظر ڈالی۔ وہ اس طرف سے اپنی آنکھیں بند رکھنا چاہتا تھا لیکن ایک خوف بار بار اسے ادھر دیکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ بھیانک اژدھا اب بھی تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جس کے سرخ آنکھوں میں اندھے انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ ہر قسم کی تفریق کی صلاحیت سے محروم انتقام۔ بار بار وہ زبان لپلپاتا تو بجلی سی کوند جاتی۔ غصہ کی شدت سے وہ پھنکار رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اژدہے کی طرف دیکھا اور زمین پر سے اپنے جسم کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔

لیکن اسے لگا کہ پاؤں من من بھر کے ہو گئے ہیں اور جسم کا ایک ایک جوڑ درد کر رہا ہے ’بے بسی اور خوف سے اس کی آنکھیں بند ہوئیں جا رہی تھیں۔ کچھ دیر میں اژدھا اس کے سرہانے پہنچ گیا۔ اور اس سے کھیلنے لگا۔ بس ایک لمحہ اور ہے اس کے بعد ایک آگ میرے جسم میں اتر جائے گی اور میرا سارا خون پی جائے گی۔ اس نے سوچا ”شاید یہ میرے قتل کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں دہشت کے مارے مرجاؤں اور وہ اس الزام سے بچ جائے۔

اس نے تیزی سے چاروں طرف ایک آس بھری نظر دوڑائی کہ شاید کچھ مدد مل جائے اور اسے اژدھے سے نجات مل جائے۔ شاداب وادی والے لوگ حسین مناظر میں گم اور اپنے ہی خیالوں میں مگن تھے۔ بے حسی ان کی سرشت تھی۔ کچھ کو تو اپنے چاک رفو کرنے ہی سے فرصت نہیں تھی۔

بنجر ریگ زار والوں کی نگاہوں میں خوف کی پرچھائیاں تھیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بچانے کی کوئی بھی کوشش انہیں بھی اسی عذاب میں مبتلا کردے گی۔ اژدھا ان سے بھی ضرور انتقام لے گا۔ وہ بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

بوسیدہ دیوار سے جھڑتی ہوئی مٹی کھانے والوں میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ مدد کرنے یا مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ تینوں طرف سے مایوس ہو کر اس نے پھر آنکھیں موند لیں۔ یہ اژدھا اب مجھے مار ڈالے تو اچھا ہے۔ اذیت کے احساس سے تو نجات تو مل جائے گی۔ اژدھا بدستور اس سے کھیلتا رہا۔ خوف اس کے دل میں زخمی کبوتر کی طرح پھڑ پھڑانے لگا۔ اس نے بے چین ہو کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کی نظر ایک لاٹھی پر پڑی جو صرف ایک ہاتھ کے فاصلے پر پڑی ہوئی تھی۔

ایک بار بچاؤ کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس نے سوچا ساتھ ہی ایک خوف سانپ کی طرح اس کے ذہن میں لہرایا۔ میں کلیم نہیں ہوں کیا پتہ وہ لاٹھی بھی میرے حق میں اژدھا بن جائے۔ ”اژدھے تو دو ہوسکتے ہیں لیکن موت تو ایک ہی ہوگی۔“ یہ خیال اس کی شریانوں میں دوڑنے لگا۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے اس نے سوچا اور ہاتھ بڑھا کر لاٹھی کھینچ لی۔ پھر کسمسایا اور اپنا بدن گرفت سے آزاد کر کے اژدھے کے سر پر پوری قوت سے لاٹھی دے ماری۔ اژدھا زخمی ہو کر گر پڑا اور اپنی جان کو خطرہ دیکھ کر اس پر حملہ کر دیا۔ اک آگ اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ وہ چکرا کر گر پڑا اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی قوت لمحہ لمحہ گھٹتی جا رہی ہے۔ بڑی مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔

اب اس کے اطراف ایک ہجوم تھا۔ ان میں اس کے شناسا بھی تھے اور اجنبی بھی۔ سب اپنی اپنی کہہ رہے تھے۔ اس کے ایک دوست نے جو دیوار پر سوار لوگوں میں شامل تھا اس کا ہاتھ تھام کر رقت آمیز لہجہ میں کہنے لگا۔ ”کاش تم نے مجھے

پہلے ہی بتا دیا ہوتا کم از کم تمہارا یہ انجام نہ۔ ”وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔ کیوں کہ چاندی کے دانتوں والے نے کوئی چیز چبا کر اس کے منہ میں انڈیل دی تھی۔

”روزانہ ملتے رہنے کے باوجود کچھ کہنے کی ضرورت دوستی کی توہین ہے۔ ہماری دوستی ایک سراب تھی جو میری پیاس نہیں بجھا سکتی تھی اور میرے انجام کی۔ فکر مت کرو۔ تمہارا انجام اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اک نہ اک دن تم بھی اندھے اژدھے کی گرفت میں آ جاؤ گے تب وہ تم سے بھی مروت نہیں کرے گا“ ۔ اس نے کہنا چاہا لیکن اسے محسوس ہوا کہ وہ قوت گویائی کھو چکا ہے۔ وہ بے بسی سے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ بنجر ریگ زار والے اس سے کچھ کہنا چاہ رہے تھے لیکن کچھ کہہ نہیں پار ہے تھے۔ وہ لفظوں کے معاملہ میں ہمیشہ تہی دست تھے۔ جو دل میں تھا اسے کبھی زبان پر لا نہ سکے۔

چاندی کے دانتوں والا ایک شخص کچھ کہنے کے لئے لفظ اکٹھے کر رہا تھا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ اس کی بات کل کے اخبار کی زینت بن جائے اور لوگ اس کا شمار بھی ہمدرد اور غم گساروں میں کریں۔ وہ جانتا تھا کہ چاندی کے دانتوں والا اس

گروہ کا سرغنہ ہے جو جب جی چاہے دوسروں کے گھر جلا کر دیوالی اور دوسروں کے خون سے ہولی کھیلنے کے عادی تھے۔ اس کے ساتھی اب بھی کہیں نہ کہیں اپنے کام میں مصروف تھے۔ اس نے چاہا کہ اپنے آلودہ ہاتھوں سے اس کا دامن پکڑ لے۔ اس کے اجلے دامن کو داغ دار کردے تاکہ اس کی بے زبانی کو زبان مل جائے۔ لوگ ان داغوں کو پڑھ لیں اور اسے پہچان لیں۔ آنے والی نسل کو چبائے ہوئے نوالے کھانا نہ پڑے۔

اس کے چاروں طرف ایک شور تھا۔ شور کے اس حصار سے اسے جھنجھلا ہٹ ہو رہی تھی۔ وہ چاہ رہا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے پرسکون ہوں۔ اسے آوازوں سے نفرت ہو چکی تھی۔ ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آوازوں نے اس کے فیصلوں کو بے سمتی بخشی تھی۔ اب آخری لمحوں میں تو یہ لفظ عذاب بن گئے تھے۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ اس نے سوچا اور پھر اپنے زخموں کا منہ ان لفظوں کے سامنے کر دیا۔ یکایک سارے لفظوں کے آہنگ پگھل گئے۔ سارے چہرے ایک تاریکی میں کھو گئے اور اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

قیوم خالد (شکاگو)
Latest posts by قیوم خالد (شکاگو) (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments