افغانستان میں طالبان: چمن سرحد سے پاکستان آنے والے افغان پناہ گزین کن مشکلات اور خدشات کا شکار ہیں؟


چمن سرحد، افغان پناہ گزین
ایک طرف طالبان افغانستان میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں تو دوسری جانب ہزاروں افغان شہری خوف کے مارے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ خوفزدہ اور نقل مکانی پر مجبور ان بہت سے افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد چمن بارڈر کے ذریعے پاکستان بھی آ رہی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار شمائلہ جعفری چمن کے سرحدی علاقے میں موجود ہیں اور انھوں نے کچھ افغان پناہ گزینوں سے بات کر کے اُن کے اس سفر اور افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد درپیش صورتحال پر گفتگو کی ہے۔

چمن افغانستان کی سرحد سے متصل گرد و غبار سے اٹا ایک چھوٹا سا شہر ہے اور یہ ان دنوں غیر معمولی سرگرمیوں کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے اور وہاں پھیلنے والی بے چینی کے پیش نظر اپنے گھروں کو چھوڑ دینے والے افغان شہریوں کی آمد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں پھنس جانے والوں کی بے چینی میں بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

جو لوگ سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں وہ پُرسکون تو دکھائی دیتے ہیں لیکن مستقبل کیسا ہو گا، یہ خیال انھیں پریشان بھی کر رہا ہے۔

ایسے ہی کچھ لوگوں نے بی بی سی سے بات کی ہے۔ بی بی سی نے ان افراد کی حفاظت کے پیش نظر ان کے نام تبدیل کر دیے ہیں۔

دو ماؤں کی کہانی

زرقون بی بی کابل میں اپنا گھر چھوڑ کر پاکستان پہنچی ہیں اور چمن سرحد پر واقع ایک عارضی کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ پاکستان میں پہلے سے موجود ان کی کمیونٹی کے لوگ آ کر انھیں کسی نامعلوم مقام پر لے جائیں گے کیونکہ ان کے پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہیں ہیں۔

زرقون کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے اور وہ اپنی زندگی میں دوسری بار نقل مکانی کر رہی ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیسی ہیں، تو انھوں نے سسکیاں لینا شروع کر دیں۔

چمن سرحد، افغان پناہ گزین

انھوں نے کہا ’میرا دل درد سے نڈھال ہے۔‘ زرقون بی بی نے ایک ہی سانس میں ایسا دو مرتبہ کہا۔

’میں نے خود سے پوچھا کہ میرے بیٹے کا کیا ہو گا، میرے اکلوتے بیٹے کا کیا ہو گا؟‘

زرقون کے اکلوتے بیٹے، جو ایک برطانوی کمپنی میں کام کرتے تھے، ابھی تک افغانستان سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

’میرے بیٹے کی اہلیہ کو مار دیا گیا ہے، میں بہت پریشان رہی اور ایک لمبے عرصے تک سو نہیں سکی۔‘

زرقون بی بی کہتی ہیں کہ ان کی بہو چند سال قبل ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے والے طالبان کے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

’طالبان بہت خوفناک لوگ ہیں، میں ان سے خوفزدہ ہوں۔ انھوں نے میری بہو کو شہید کر دیا۔ انھیں کوئی ہمدردی نہیں، ان کے سینوں میں دل نہیں ہیں۔‘

زرقون کی دو جوان بیٹیاں ان کے پیچھے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں جبکہ ان کی کمسن پوتی ان کی گود میں اس حقیقت سے مکمل طور پر غافل بیٹھی تھی کہ وہ اپنا گھر کھو چکی تھی۔

زرقون کہتی ہیں کہ ایک جوان بہو کھونے کے بعد وہ کسی دوسرے صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ہیں۔

انھوں نے اپنی پوتی کے کندھوں کو آہستہ سے دباتے ہوئے کہا ’مجھے اپنے گھر یا سامان کی کوئی فکر نہیں، میں صرف اپنے بیٹے اور اس کی بیٹی کے لیے پریشان ہوں۔‘

چمن سرحد

’میں کہاں جا سکتی ہوں، میں کیا کر سکتی ہوں، میں نے اس بچی کی ماں کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا ہے۔ بچوں کو پالنے میں بہت پیار اور کوشش درکار ہوتی ہے، میں مزید ایک اور کو نہیں کھو سکتی۔‘

غزنی کی شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والی زرمینے بیگم بھی خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ چمن کے راستے پاکستان پہنچی ہیں۔ افغانستان میں شیعہ برادری کو طالبان ماضی میں نشانہ بناتے رہے ہیں۔

زرمینے بیگم کی عمر ساٹھ برس کے لگ بھگ ہے۔ انھوں نے افغانستان پر طالبان کے قبضے بے بعد کے اپنے احساسات بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’ہم خوف اور صدمے کی حالت میں تھے، ہم نے اپنے گھروں کو فوری طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘

زرمینے کہتی ہیں کہ سرحد پر حالات اچھے نہیں ہیں، خواتین کو پرائیویسی کی ضرورت ہے لیکن ان کے پاس افغانستان چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔

’طالبان واپس آ گئے ہیں تو ہمیں ڈر ہے کہ وہ دوبارہ سے دہشتگردی کی کارروائیاں شروع کر دیں گے۔ وہ ہمارے گھروں پر چھاپے ماریں گے۔ وہ پہلے ہی حکومتی عہدیداروں کو تلاش کر رہے ہیں۔ ہمیں خوف ہے کہ کسی بھی دن بمباری شروع ہو جائے گی۔‘

زرقون بی بی کی طرح زرمینے بیگم نے بھی اپنا گھر دوسری بار چھوڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں وہ جوان تھیں اور ایسی صورحال سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتی تھیں لیکن اب سانس پھولے بغیر وہ چل بھی نہیں سکتی ہیں۔

چمن سرحد

’لوگوں کو کوئی امید نہیں‘

چمن سپن بولدک سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔

ہر روز ہزاروں مسافر اور تاجر اس راستے سے سرحد پار آتے جاتے ہیں لیکن ان دنوں افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

صبح سے شام تک مردوں کو اپنے کندھوں پر سامان لادے، خواتین کو برقع پہنے اور لمبی چادریں اوڑھے مردوں کے ساتھ چلتے، اپنی ماؤوں سے لپٹے بچوں سمیت سینکڑوں تھکے ہارے، گرد میں اٹے، ویل چئیر پر بیٹھے مریضوں اور کئی افراد کو پاؤں میں جوتوں کے بغیر پاکستان میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سے جوان لوگ بھی شامل ہیں۔

18 برس کے جمال خان کابل میں گیارہویں جماعت کے طالب علم تھے۔ انھوں نے کابل کو گرتے دیکھا اور وہ اس امر پر بالکل مایوس دکھائی دیے کہ طالبان کیسے بغیر کسی مزاحمت کے ان کے شہر پر قابض ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں ’ہر کوئی اپنے گھر میں رہنا چاہتا ہے لیکن ہمیں افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پاکستان یا کسی دوسرے ملک میں ہجرت کرنے پر خوش نہیں۔ سب لوگ پریشان ہیں اور انھیں کوئی امید نہیں۔‘

جمال نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ طالبان کی حکومت میں افغانستان کی خواتین کے لیے حالات کیسے بدل گئے ہیں۔

’طالبان کے قبضے کے دوسرے روز جب میں اپنی گلی اور بازار میں گیا تو میں نے وہاں خواتین کو نہیں دیکھا۔ پہلے تو مجھے کوئی خاتون نظر نہیں آئیں لیکن بعد میں چادر میں لپٹی کچھ خواتین نظر آئیں۔‘

جمال نے کہا کہ طالبان ابھی تک خواتین سے ماضی جیسا بُرا سلوک تو نہیں کر رہے لیکن خواتین خوفزدہ ہیں۔

بینر

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے 'سلطنتوں کا قبرستان' بناتا ہے

افغان طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی

منی سکرٹ سے برقعے تک: افغان خواتین کی زندگیاں کیسے بدلیں

افغانستان سے انخلا کا فیصلہ جس نے امریکہ اور برطانیہ کے ’خاص رشتے‘ کی قلعی کھول دی


محمد احمر کا تعلق افغانستان کے صوبہ پنجشیر سے ہے لیکن وہ کابل میں پڑھ رہے تھے اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے انسٹرکٹر کے طور پر کام بھی کر رہے تھے۔

محمد احمر کہتے ہیں کہ ’یہ سب ناقابل یقین تھا، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک رات میں ہی کابل کے ہر حصے پر قبضہ کر لیں گے لیکن میں صرف اپنے سکول اور اپنی تعلیم کے بارے میں خوفزدہ تھا۔‘

احمر کہتے ہیں کہ طالبان نے ان کے پاکستان تک سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ احمر کا خیال ہے کہ شاید طالبان اس بار مختلف ہوں گے لیکن ماضی میں طالبان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے والے لوگ ابھی ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔

احمر کے مطابق ان کے پاس مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ تو نہیں لیکن ان کا مستقبل افغانستان کی حالیہ حکومت میں بھی نہیں۔

’میں زندگی میں اپنے فیصلے خود کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے آزادی چاہیے، تو میں واپس نہیں جا رہا۔‘

علی چنگیز غزنی میں ایک سرکاری ملازم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس دن سے افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے جس دن اشرف غنی کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں سرحد سے تین بار واپس بھیجا گیا کیونکہ ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے لیکن بعد میں پاکستان حکام نے انھیں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اپنے ملک میں داخل ہونے دیا۔

’اس وقت زندگیاں بچانا اولین ترجیح تھی لہذا ہم نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا۔ ہم پاکستان آئے ہیں، جہاں ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کو خطرہ نہیں ہو گا۔‘

چمن سرحد

ایک طالب اور ایک سابق افغان فوجی

تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے ایک سابق افغان فوجی نے اپنے جوان بیٹے کو ہم سے بات کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ پاکستان پہنچے ہیں۔

اس بچے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خاندان خوفزدہ ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ طالبان کی یقین دہانی کے باوجود انتقامی کارروائیاں ناگزیر ہیں۔

قندھار سے آنے والا ایک نوجوان طالب سپاہی بھی ہمارے پاس آیا اور بی بی سی کی ٹیم سے بات کی۔ انھوں نے صاف ستھری سفید شلوار قمیض کے اوپر کالے رنگ کی واسکٹ پہن رکھی تھی۔ ان کے گہرے کالے رنگ کے بال ان کے کندھوں تک تھے اور ان کی داڑھی بہت اچھے انداز میں تراشی ہوئی تھی۔

وہ طالب اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس سے ان کے ’بڑے‘ ناراض ہوں گے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی عمر 24 سال ہے اور وہ 17 برسوں سے طالبان کے لیے لڑ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں ابھی صورتحال مکمل طور پر پُرامن ہے اور غیر ملکی قابض افواج کے ملک سے نکلتے ہی افغان عوام کا صدمہ بھی ختم ہو جائے گا۔

انھوں نے کہا ’یہ صرف اعتماد کا مسئلہ ہے۔ لوگ جلد ہی یہ جان لیں گے کہ ہمارا مطلب وہی ہے جس کا ہم نے وعدہ کیا۔‘

مایوسی اور ناامیدی

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر طالبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور یہاں سے گزرنے والے پناہ گزینوں نے ہمیں بتایا کہ انھیں کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔

پاکستان میں پہلے ہی لاکھوں افغان پناہ گزین موجود ہیں اور پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں سے نہیں نمٹ سکتا۔ اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی جب اسلام آباد پناہ گزینوں کے داخلے کو مکمل طور پر روکنے پر مجبور ہو جائے گا۔

پاکستان نے کہا ہے کہ 1980 کی دہائی کے برعکس پناہ گزین کیمپ سرحدوں پر قائم کیے جائیں گے اور افغان پناہ گزینوں کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔

کوئٹہ قندھار سڑک

اگرچہ ابھی سپن بولدک سرحد پر پالیسی نرم ہے لیکن نقل مکانی کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے، اس لیے وہ افغانستان سے نکلنے کے لیے کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔ کچھ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں جبکہ کچھ غربت سے بچنے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

قندھار سے تعلق رکھنے والے ایک پشتون مزدور عبید اللہ نے کہا کہ کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، وہاں کوئی حکومت نہیں اور معیشت مکمل تباہی کا شکار ہے۔

’قندھار میں صورتحال نارمل ہے لیکن وہاں کوئی کام نہیں۔ میں یہاں آیا ہوں تاکہ میں کوئی کام تلاش کر سکوں۔ میں شاید رکشہ چلاؤں گا۔‘

عبید اللہ نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے افغانستان کی سرحد کی جانب نقل مکانی کرنے والوں کی طویل قطاریں دیکھی ہیں۔

’لوگ، خاص طور پر خواتین سپن بولدک چمن گیٹ پر بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ سرحد کے پار افغانستان میں بہت رش ہے۔ لوگوں کو دھکے دیے جا رہے ہیں۔ قطاریں لمبی ہیں اور آپ کو ہر طرف ملک سے نکلنے کے لیے بے تاب شہری نظر آتے ہیں۔‘

سنگین خان کا تعلق افغانستان سے ہے لیکن وہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ وہ ابھی ابھی ننگرہار سے واپس آئے ہیں جہاں وہ اپنی بیمار بہن کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان سے زیادہ افغانستان کے لوگ غربت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

’لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، معیشت کی حالت بُری ہے تو لوگ پاکستان اور ترکی جیسے دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں۔‘

بغلان سے تعلق رکھنے والے اور فارسی زبان بولنے والے کوئلے کے ایک کان کن اپنا سامان کندھے پر ایک چھوٹی سی بوری میں لے کر جا رہے تھے اور سیاہ رنگ کے برقعے میں ان کی اہلیہ محتاط انداز میں ان کے پیچھے چل رہی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے آبائی علاقے میں کانیں بند ہیں اور ان کے پاس کام نہیں۔ وہ چمن سرحد سے تقریباً سو کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے شہر کچلاک جا رہے تھے تاکہ کوئلے کی کانوں میں اپنے لیے روزگار کام تلاش کر سکیں۔

طالبان کے قبرستان

’شہدا کے قبرستان‘

نقل مکانی کرنے والے طالبان سے بچ رہے ہیں لیکن جب کوئی کوئٹہ قندھار سڑک پر سفر کرتا ہے، جو سرحدی قصبے کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے جوڑتی ہے، تو مختلف مقامات پر امارت اسلامیہ افغانستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

کچلاک، جنگل پیر علی زئی اور اس کے درمیانی علاقے خاص طور پر افغان طالبان کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔

کوئٹہ قندھار سڑک کے ساتھ کم از کم چار قبرستان ایسے ہیں جنھیں مقامی لوگ ’شہدا کے قبرستان‘ کہتے ہیں اور جہاں بہت سے افغان طالبان جنگجو دفن ہیں۔ بہت سی قبریں پرانی ہیں لیکن کچھ نئی بھی ہیں۔

ایک مقامی ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ حالیہ لڑائی میں مرنے والے کچھ لوگوں کو تدفین کے لیے یہاں لایا گیا تھا۔

پاکستان اب کھلے عام یہ تسلیم کرتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ اس کے روابط ہیں اور اس کی سرزمین پر ان کے خاندان موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ صرف طالبان ہی نہیں بلکہ وہ تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے، جن میں سے تقریباً نصف کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی۔

پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں کوئی اس کا پسندیدہ نہیں اور وہ افغان بحران کے تمام ممکنہ سیاسی حل کی حمایت کرے گا۔

پاکستان میں بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغان طالبان بدل چکے ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ماضی میں ان کے تشخص کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔

جبکہ بہت سے دیگر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ جب تک اعتماد بحال نہیں ہوتا، عام افغان شہری اپنی زندگی بچانے کے لیے بھاگتے رہیں گے اور مستقبل کے لیے ان کا خیال ہے کہ وہ طالبان کی حکمرانی میں نہیں رہ سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp