اندھی ویگن اور مریل کھمبا


میں اپنے ہسپتال کے کمرے میں بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا کہ مجھے کھڑکی کے باہر سے ٹیں ٹیں کی آواز آئی۔ میں نے بیزاری سے باہر دیکھا تو ایک ڈیلیوری وین تھی جو ریورس ہو رہی تھی اور ایک محفوظ اور ذمہ دار گاڑی ہونے کے ناتے وہاں پہ ناموجود افراد کو غائبانہ طور پر خبردار کیے جا رہی تھی کہ ذرا بچ کے بھائی، گاڑی ریورس ہو رہی ہے۔ معمول کے مطابق میرے پاس کافی تعداد میں مکھیاں مارنے کے علاوہ کوئی خاص کام تو تھا نہیں اور میں بیزار بھی بیٹھا تھا سو میں نے اس انتہائی اہمیت کے حامل منظر پر اپنی نظریں گاڑ لیں اور انہماک سے سست رفتاری کے ساتھ پیچھے کی جانب آتی اس وین کو دیکھنے لگا۔ ان چند لمحوں نے مجھ میں ایک ایسی کیفیت پیدا کر دی جیسے کرکٹ میچ کے آخری چند سنسنی خیز لمحات چل رہے ہوں۔ ٹیں ٹیں کی مسلسل آواز نے ایک صوفیانہ سماں پیدا کر دیا تھا جیسے ہر سانس کے ساتھ ذکر کی ایک تسبیح جاری ہو۔

اچانک میری نظر ایک مریل بوڑھے سے منحنی کھمبے پر پڑی جو وین کے عین پیچھے دنیا اور مافیہا سے بے خبر مست ملنگ کی طرح ایک ٹانگ پہ کھڑا تھا جیسے کسی مراقبے میں مگن ہو۔ وہ گرد و پیش کے ممکنہ خطرات سے عاری تھا، اسے اپنی طرف دھیرے دھیرے بڑھتی وین کی کوئی خبر نہ تھی، ورنہ غالب امکان تو یہی ہے کہ وہ بھاگ کر دور ہو جاتا۔ اب یہ منظر پہلے سے بھی زیادہ پرتجسس ہو گیا۔ وین میں سامان بھرا ہونے کی بنا پر گاڑی کے عقب بیں آئینے (Rear view Mirror) سے پیچھے کا منظر دیکھنا ناممکن تھا اور واحد سہارا سائیڈ کے آئینے تھے جہاں سے گاڑی کے عین پیچھے کا منظر مسدود تھا۔

اب میں ایک طرف تو لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں کھمبے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور دوسری جانب ڈرائیور اور ان کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ساتھی کی طرف بھی دیکھتا جاتا۔ وہ دونوں بھی کھمبے کی موجودگی سے اتنے ہی لاعلم تھے جتنا کہ کھمبا وین سے۔ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے دونوں معمر افراد نے یقیناً اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے اور اور وہ بظاہر انتہائی مشاقی کے ساتھ دائیں بائیں دیکھتے پھونک پھونک کر گاڑی کو پیچھے لے جا رہے تھے۔

ان کی آنکھوں کے موٹے چشمے ان کے وسیع تجربہ کے غماز تھے۔ یوں اس سارے منظر میں صرف ایک میں ہی تھا جو اس غیبی خبر سے آگاہ تھا کہ چند لمحوں میں کیا ہونے کو ہے یعنی ایک معصوم بے زبان کھمبا ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے کو ہے۔ میں نے ایک خاموش تماشائی کی طرح اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کوئی مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ آپ بے شک میری معنی خیز خاموشی کو تماش بینی کا نام دیں، لیکن میں نے فلم ’دنگل‘ دیکھ رکھی تھی جس میں عامر خان کو کوچ نے اسی جرم کی پاداش میں سیڑھیوں کے نیچے والے کمرے میں بند کر دیا تھا۔

اور ویسے بھی مجھے اس اندھے اور بہرے کھمبے سے کوئی ہمدردی نہ تھی کیونکہ وہ انتہائی سست الوجود واقع ہوا تھا۔ میں اسے پچھلے پانچ سال سے اسی جگہ کھڑا دیکھ رہا تھا، مجال ہے جو اس نے کبھی ہل کر کوئی کام کرنے کی پیشکش ہی کی ہو۔ کوئی مر جائے یا گر جائے اس کی بلا سے، بس کھڑا رہتا ہے منہ اٹھا کہ لمبا کا لمبا۔ بلاشبہ مجھ جیسے محنتی ڈاکٹر کو اس کے اس رویے سے چڑ ہو نا لازمی امر تھا۔ مریض کمرے کے باہر انتظار میں تھے کی کب ڈاکٹر صاحب انہیں دیکھیں لیکن میرا ذہن جب تک کھڑکی سے باہر ہونے والی اس واردات سے فارغ نہیں ہو جاتا میں انہیں مکمل توجہ نہیں دے پاتا اور ان کے مرض کی صحیح طور تشخیص ہونا مشکل تھی اس لئے ان کا باہر انتظار کرنا ہی ان کے وسیع تر مفاد میں تھا۔

اب صورتحال کافی نازک ہو چکی تھی کھمبے اور وین کے کشادہ پچھواڑے میں اب صرف چند انچ کا فاصلہ باقی تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ٹیں ٹیں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا ہو۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ قبر میں ٹانگیں لٹکائے ڈرائیور صاحب کب حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں یا پھر کب یہ سن رسیدہ کھمبا برسوں کی سستی جھٹک کر اپنی جان بچانے کو بھاگ کھڑا ہوتا ہے؟ کھیل نازک مراحل میں داخل ہو چکا تھا اور میں اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

اچانک ڈرائیور اور میری نظریں چار ہوئیں، میں نے اسے انتہائی چالاکی بھری سمائل دی اور مسکراہٹوں کے اس پاکیزہ تبادلے میں اسے بالکل یہ پتہ نہ چلنے دیا کہ میں کسی آنے والی مصیبت کا ننھا سا بھی ادراک رکھتا ہوں۔ میری انہی فطری خوبیوں کی بنا پر اللہ بخشے میری والدہ مجھے پیار سے میسنا کہ کر پکارتی تھیں۔ خیر اس کے پیچھے میری مکمل رازداری کی فلاسفی کارفرما تھی جو کہ کسی بھی صالح انسان کی صفت ہوا کرتی ہے۔

ڈرائیور کی نظر ابھی مجھ سے ہٹی نہ تھی کہ اچانک ٹن کی زور دار آواز سنائی دی اور اس کے فوراً بعد گڑ گڑ گڑ کی موسیقی دھیمے سروں پہ شروع ہوئی جو کھمبے پہ لگے ’نو پارکنگ‘ کے بورڈ کے شدت جذبات کے ساتھ ہلنے سے پیدا ہوئی۔ ان پکے راگوں کے درمیان وین کی ٹیں ٹیں پس منظر کی موسیقی کا کردار ادا کرتی رہی۔ میں نے اچھل کر اپنی بے انتہا خوشی کا اظہار کیا جیسے میانداد نے آخری گیند پہ چھکا لگا دیا ہو۔ میں نے دھماکے سے ہوئے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے کھڑکی سے منہ باہر نکالا۔

میری باچھیں کھلی ہوئی تھیں جب کہ ڈرائیور اور ان کے کو پائلٹ جن دونوں کے سر کے بال کچھ یوں تھے کہ اگلا حصہ غریب کی جھولی کی طرح خالی، اور پچھلا حصہ بد عنوان افسر کی تجوری کی مانند بھرا ہوا، منہ کھولے آنکھیں پھاڑے اس اچانک ہوئے حادثے پر دائیں بائیں جھانک رہے تھے۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا اور کھمبا کسی وجد میں آئے صوفی یا یوں کہیے کہ ایک مخمور نشئی کی طرح جھولے جا رہا تھا۔ ڈرائیور نے بوکھلاہٹ میں گیئر تبدیل کر نے کے عمل کے دوران ہی ریس دے دی تو وین کے قلب سے ایک دلخراش چیخ نکلی جو آسمان کو چیرتی ہوئی عرش تک کو ہلا گئی۔ دونوں حضرات ہونقوں کی سی حرکات کرتے ہوئے وہاں سے گاڑی کو کسی بوڑھی دوشیزہ کی مانند بھگا کر لے گئے جو سارا رستہ چنگھاڑتی اور انہیں کوستی گئی۔

دھاتی کھمبا ان کے فرار ہو جانے کے بعد کافی دیر تلک مرگی کے مریض کی سی حالت میں مرتعش رہا۔

چوٹ لگنے سے اس کی چیخیں تو نکلیں لیکن وہ ایک بہادر سپاہی کی طرح محاذ پہ ڈٹا کھڑا رہا۔ جس پر میں نے اسے دل ہی دل میں داد دی۔

اگرچہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا جس کا کلی ذمہ دار آپ معمر ڈرائیور کو ٹھہرائیں یا کھمبے کی ہٹ دھرمی کو۔ لیکن میں یقیناً آپ کی داد کا مستحق ہوں کہ میں نے خاموش رہ کر مکمل غیر جانبداری کا ثبوت دیا اور ساتھ ہی مکمل فرض شناسی کا عملی مظاہرہ کیا۔ میں مسرور تھا جیسے میری ٹیم میچ جیت گئی ہو۔ میں ان چند لمحات کی شدید جذباتی کیفیت سے گزرنے کے بعد نڈھال سا محسوس کرنے لگا۔ میں نے گھنٹی بجا کر قاصد کو چائے لانے کا کہا اور مریضوں کو ’ٹی بریک‘ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر یہ مضمون لکھنے بیٹھ گیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments