طالبان کو پیچیدہ معاشی بحران کا سامنا، عوام کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں


مسلح طالبان ایک پک اپ میں کابل کی ایک مارکیٹ میں گشت کر رہے ہیں۔ 17 اگست 2021

طالبان رہنماؤں نے اپنی تحریک کے اندر سے ایک غیر معروف شخصیت محمد ادریس کو ملک کے مرکزی بینک ‘دا افغانستان بینک’ کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ادریس بینکنگ کے مسائل اور لوگوں کے مسائل کو حل کریں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی معیشت کو سنبھالنا کسی کے لیے بھی ایک مشکل کام ہو گا، کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ادریس یا طالبان قیادت میں سے کوئی بھی شخص اس معاشی خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا اس وقت افغانستان کو سامنا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے سے ایک دن قبل ملک سے فرار ہونے والے مرکزی بینک کے سابق گورنر اجمل احمدی نے بلوم برگ کو بتایا تھا کہ طالبان نے ملکی معیشت سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا، “میں نے کبھی ان کی ٹیم کے کسی ماہر معاشیات کے بارے میں نہیں سنا۔

گھمبیر معاشی بحران

سن 2013 سے 2015 تک افغانستان کے کسٹم اور محصولات کے نائب وزیر کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے گل مقصود سبط کہتے ہیں کہ طالبان کو معیشت سنبھالنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کابل میں بینک کھلنے کے بعد لوگ اپنی رقم نکلوانے کے لیے کابل بینک کے باہر ایک لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔ 26 اگست 2021
کابل میں بینک کھلنے کے بعد لوگ اپنی رقم نکلوانے کے لیے کابل بینک کے باہر ایک لمبی قطار میں کھڑے ہیں۔ 26 اگست 2021

سبط نے، جو اب کیلیفورنیا میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، وی او اے کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ ان کے پاس معاشی امور کی مہارت رکھنے والے لوگ موجود نہیں ہیں اور انہیں ایک پیچیدہ معاشی بحران کی صورت حال کا سامنا ہے۔

بین الاقوامی امدادی رقم کی آمد رک چکی ہے، جو افغانستان میں 75 فیصد عوامی اخراجات کا حصہ ہے، جب کہ حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے افغانستان کو 440 ملین ڈالر کی قسط بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

افغانستان کے لیے فنڈز کا ایک اور بڑا ذریعہ، بیرون ملک مقیم اور کام کرنے والے افغان شہریوں کی ترسیلات ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اوسطاً 80 کروڑ ڈالر سالانہ آتے تھے۔ لیکن طالبان کی آمد کے بعد سے ملک میں رقوم منتقل کرنے والی دو سب سے بڑی کمپنیوں، ویسٹرن یونین اور منی گرام انٹرنیشنل نے افغانستان میں اپنا آپریشن معطل کر دیا ہے، جس سے فنڈز کا یہ ذریعہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔

مزید پیچیدہ معاملات یہ ہیں کہ غیر ملکی حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں افغانستان چھوڑ کر جا رہی ہیں، جو ہزاروں مقامی لوگوں کو ملازمت فراہم کرتی ہیں۔جس سے فنڈز کی آمد کا یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے۔

کرنسی کا بحران منڈلا رہا ہے

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بند ہونے والے بینک اب آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ لوگ اپنی کرنسی، ‘افغانی’ میں رکھی ہوئی رقم کو امریکی ڈالروں میں تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ‘افغانی’ کی قدر کم ہو رہی ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تجارت پر اثر

افغانستان کی معیشت میں ڈالر کے مسلسل آمد نے تاجروں کو یہ قوت دی تھی کہ وہ بیرون ملک اپنی خریداری ڈالروں میں کر سکیں، کیونکہ ان کے بہت سے سپلائرز افغان کرنسی ‘افغانی’ کو بطور ادائیگی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔

تاہم، اب امریکی ڈالر کی ترسیل رک جانے سے، تجارت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔

حکومت کی آمدنی میں کمی

سبط نے کہا کہ میرے خیال میں مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو جائیں گے۔ “اور پھر اس کا اثر تجارت پر بھی پڑے گا، کیونکہ بینکوں کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہوں گے کہ تاجر اپنی بین الاقوامی ادائیگیاں کر سکیں”۔

افغان تاجروں کو بیرونی ملکوں سے اشیا منگوانے کے لیے ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فائل فوٹو
افغان تاجروں کو بیرونی ملکوں سے اشیا منگوانے کے لیے ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فائل فوٹو

طالبان کی حکومت کی زیادہ تر آمدنی ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی سے آئے گی۔ لیکن بڑی مقدار میں زرمبادلہ ملک سے نکل جانے کے بعد ایسی معاشی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہو جائیں گی جن سے حکومت کو ٹیکس ملتا ہے۔ سرمائے کی کمی سے درآمدات بھی گھٹ جائیں گی۔

سبط کا کہنا تھا کہ فی الحال طالبان کے پاس آمدنی کا واحد ذریعہ ٹیکس ہو گا، ٹیکس کی وصولی گھٹنے سے ان کی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔

تعاون کرنے کی ترغیب

معاشی صورت حال میں بہتری کا تعلق نئی حکومت کی ہیئت واضح ہونے سے ہوگا۔ طالبان سابق حکومت کے کچھ عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، اور ایسی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اقتدار میں شراکت داری کے نظام میں دلچسپی رکھتے ہیں، تاکہ بین الاقوامی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔

بین الاقوامی سطح پر قبول کیے جانے کے بعد افغانستان میں امداد کی آمد دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ اور اسی طرح ویسٹرن یونین، منی گرام اور دیگر کمپنیاں وہاں اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتی ہیں جس سے زر مبادلہ کی آمد شروع ہو سکتی ہے۔

فورڈہم یونیورسٹی کے معاشیات کے پروفیسر ڈیرل میک لیوڈ کہتے ہیں کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے نئی حکومت کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ تعاون کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ حکومت تعاون اور مل جل کر کام کرنے کی کوشش کرے تاکہ انہیں قوموں کی برادری سے باہر نہ نکالا جائے۔

عام لوگوں کو مشکلات سے بچایا جائے

کچھ ماہرین بین الاقوامی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ اگر طالبان وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بھی ان کے خلاف پابندیاں لگانے سے احتراز کیا جائے۔

سبط کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں پابندیاں لگانے سے احتراز کرنا دنیا کے لیے ضروری ہو گا کیونکہ پابندیاں عائد ہونے کا خمیازہ براہ راست عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا، “میں اس کے سیاسی اثرات اور دباؤ کو سمجھتا ہوں جس کا اطلاق وہ طالبان پر کرنا چاہتے ہیں، لیکن بین الاقوامی برادری اور طالبان کے درمیان اس لڑائی، اور اس معاشی جنگ کی بھاری قیمت عام لوگوں کو ہی چکانی پڑے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments