جنسی ہراسانی اور قصور وار


گزشتہ کچھ دنوں سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکرز اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بڑے بڑے دانشور اس موضوع پر اپنے عظیم نظریات کو آسمانی صحیفے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر ایک کی نظر میں ظالم الگ ہے اور مظلوم الگ۔ ہر ایک کا اپنا نظریہ اپنی سوچ اپنی تربیت اور اپنا معیار ہے۔ لیکن قصور وار ہے کون؟

جب مینار پاکستان کا واقع سامنے آیا تو دل پھٹنے لگا۔ ذرا تصور کریں آپ مرد ہیں یا عورت آپ چار سو ایسے انسانوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جو نہ آپ کی آواز سن رہے ہیں نہ آپ پر رحم کر رہے ہیں۔ وہ آپ کو انسان تو کیا کوئی زندہ جانور بھی نہیں سمجھ رہے بلکہ وہ خود انسانیت سے بہت دور کسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو ایسے وقت آپ پر کیا گزر رہی ہو گی؟ ان چار سو لوگوں میں سے ایک کے اندر بھی انسانیت نہیں جاگتی۔ اگر ایک کے اندر بھی ہوتی تو شاید مزاحمت کی کوئی نشانی میڈیا پر آ چکی ہوتی۔

اس واقعہ کو ہم یہیں چھوڑ کر ذرا اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ نور مقدم پہ جو گزری وہ ہمارے دل و دماغ سے جانے کب اترے گا۔ اس کی چیخ و پکار جانے کب ہمارے کانوں سے دور ہو گی۔ اس نے اپنی زندگی بچانے کے لئے کیا نہیں کیا ہو گا۔ وہ کون سا جتن ہو گا جو اس نے اپنی سانس کی روانی کے لئے نہیں کیا ہو گا۔ یہ واقع میڈیا پر آیا تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ وہ چیختی رہی مدد کے لئے پکارتی رہی۔ ارد گرد انسان جیسے جسموں والے حیوان پھرتے رہے لیکن اس کی مدد کے لئے ان جسموں میں ذرا بھی انسانیت کی روح نہ جاگی۔ وہ جیسے مردہ بت بنے تماشا دیکھتے رہے۔

ایک منٹ عثمان مرزا کیس بھی ابھی کل کی بات ہے۔ اس جوڑے کے ساتھ جو گزری ہم وہ کیسے بھول سکتے ہیں؟ ڈر خوف زندگی کا بھی اور عزت کا بھی۔ ایک کمرہ پانچ چھ بھیڑیے۔ کیا یہ سب کسی موت سے کم تھا؟ کیا گزری ہو گی ان دونوں پر اس وقت اور اس کے بعد ان کے والدین پر۔ ہم میں سے کوئی اس درد کو محسوس کر سکتا ہے؟

وہ عثمان مرزا ہو یا چار سو لوگوں کا ریوڑ وہ ظاہر جعفر ہو یا بائیس کروڑ بے ضمیروں کا جنگل سزاوار سب ہیں۔ ان واقعات میں ملوث لوگوں کو عبرتناک سزائیں ہر صورت ملنی چاہیے۔ لیکن سزا سے اپنے بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ ہم نے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو گھر سے باہر نکلنے دوسروں سے پیش آنے کے آداب سکھانے ہیں لیکن ان سے پہلے ہم نے خود یہ آداب سیکھنے ہیں کیونکہ ہم خود اس تربیت سے کوسوں دور ہیں۔ جو لوگ باشعور اور تربیت یافتہ ہیں ان کے بچے خود اس تربیت میں ڈھل جاتے ہیں۔

اس میں تربیت کی اولاد کو نہیں ماں باپ کو ضرورت ہے۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ان لوگوں کو تو ہم جان گئے جو اس میں مجرم تھے ان کو سخت سے سخت سزائیں دینے کے لئے بھی ہم نے اپنی بساط مطابق آواز اٹھا لی۔ ہمارے اینکرز گلے پھاڑ پھاڑ کر تھک گئے۔ ٹی وی چینلز کی ریٹنگ بھی بڑھ گئی۔ مجرم گرفتار بھی ہو گئے۔ چلیں ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیتے ہیں۔ میں اپنے سمیت سب ان مظلوموں کا درد محسوس کرنے والوں سے سوال کرتا ہوں کے

مینار پاکستان پر اپنے فینز کو سوشل میڈیا کے ذریعے بلا کر نیم برہنہ حالت میں ویڈیو شوٹ کرنا کیا اسلام یا آئین پاکستان اجازت دیتا ہے؟ اب پاکستان میں غیر مسلموں کے نام پر لائسنس حاصل کر کے شراب بیچنے والے کہیں گے کے یہاں تو غیر مسلم بھی رہتے ہیں لیکن عرض ہے کہ جس طرح رمضان میں غیر مسلم کو بھی سرعام کھانے کی اجازت اس لیے نہیں کہ اس سے رمضان کا تقدس پامال ہوتا ہے اسی طرح غیر مناسب لباس اور غیر اخلاقی اخلاط کی بھی اجازت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے معاشرے کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ اور کل یہی لوگ سڑکوں پر جنسی حرکات کریں گے اور روکنے والوں کو سر عام سزائیں سنائی جا رہی ہوں گی۔

مجھے بتائیں کے کیا ظاہر جعفر اور نور مقدم کا رشتہ اسلام یا آئین پاکستان کی روح سے جائز تھا؟ اگر نہیں تھا تو ان کے خلاف یہ مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا۔ کیا عثمان مرزا کے ظلم کا شکار ہونے والا جوڑا عین اسلام اور آئین پاکستان کے مطابق وہاں رنگ رلیاں منا رہا تھا؟ اگر نہیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا یا ان سب کے خلاف مقدمے کے لئے کوئی اینکر کوئی دانشور کیوں نہیں چیخا؟ کیا ان کی تربیت کی ضرورت نہیں؟

جب بھی معاشرہ حکومت یا میڈیا تصویر کے ایک رخ پر بحث کرے گا اس کا دوسرا رخ ابہام شکوک و شبہات پیدا کرے گا۔ ہم ظلم ظلم چیختے رہیں بائیس کروڑ عوام گونگی بہری بنی رہے گی۔ مدرسے کے مولوی کو جرم کی اتنی ہی سزا ملنی چاہیے جتنی یونیورسٹی کے پروفیسر کو پچھلے دنوں ملی۔ میڈیا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی دونوں کے لئے برابر چیخ و پکار کرنی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں معاشرہ متحد ہو سکتا ہے اور معاشرہ متحد ہو گا تو جرم بھی ختم ہو گا۔

جب تک بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور راولپنڈی مدرسہ کے مولویوں کو، عثمان مرزا اور زنا میں ملوث جوڑے کو، ظاہر جعفر اور ان کے درمیان غیر قانونی تعلق کو قصوروار اور آئین کے مطابق سب کو سزائیں نہیں ملیں گی تب تک ہماری چیخیں چیخیں ہی رہیں گی۔ ہمیں نوجوان نسل سے زیادہ بزرگوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تربیت یافتہ ہوتے تو نسل کبھی بگاڑ کی طرف نہ جاتی۔

آخری بات اب مجھے رکشے والی موٹر وے والی اور دوسری تیسری مثالیں نہ دینا۔ پہلے کہہ چکا ہوں کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ لیکن جو جرم دوسری طرف ہو رہا ہے اس کی سزا کیوں نہیں دی جا رہی اس پر شور کیوں نہیں کیا جا رہا میرا سوال اتنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments