کیا امامہ کا بھائی زندہ بچ پائے گا ؟


کابل سے تعلق رکھنے والی امامہ (فرضی نام ) جو کہ لاہور کے ایک نجی میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالب علم ہے، آج کل شدید پریشانی کے عالم میں ہے۔ اس پریشانی کی وجہ، افغانستان پر طالبان تسلط کے بعد اس کے بھائی کا ان کے قبضے میں چلے جانا ہے۔ اس بابت جب امامہ سے بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ جیسے جیسے طالبان، افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے کابل کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے تو کابل میں مقیم اس کے گھر والوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔

لیکن انہیں یہ لگتا تھا کہ کابل پر کنٹرول حاصل کرنے میں شاید طالبان کو کچھ وقت لگے یا شاید مکمل طور پر وہ اقتدار میں نہ آئیں تو تب تک وہ کابل سے کہیں اور چلے جائیں گے۔ مگر پندرہ اگست کے دن جب بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کیے طالبان نے کابل کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا تو باقی افغانیوں کی طرح ان کے لئے بھی یہ ایک بہت مشکل صورتحال تھی۔ امامہ کا بھائی چونکہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا اس لیے طالبان نے آتے ہی اسے دیگر کئی لوگوں کی طرح گرفتار کر لیا۔

امامہ نے بتایا کہ اسے جب یہ خبر اس کے گھر والوں کی طرف سے ملی تو وہ سکتے کے عالم میں چلی گئی۔ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہو گیا تھا۔ اس کے گھر والے سب لوگ شدید خوف کا شکار تھے۔ اس نے ان کو حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر خود حوصلہ ہار گئی اور اس دن سے مسلسل رو رہی ہے۔ کیونکہ اسے اپنے بھائی کی جان کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی خواتین کی بھی فکر ہے کہ ان کا سب وہاں کیا بنے گا؟

اس پر جب امامہ سے یہ کہا گیا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان شاید اس دفعہ کچھ بدل گئے ہیں یا کم از کم وہ تاثر ایسا دے رہے ہیں کہ پہلے کی طرح وہ اب خواتین پر پابندیاں نہیں لگائیں گے۔ بچیوں کو سکول بھی جانے دیا جائے گا۔ کسی کے کاروبار میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ اس کے جواب میں امامہ کا کہنا تھا کہ اسے یہ لگتا ہے کہ شاید طالبان اچھے بچے بننے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں اور کچھ وقت کے بعد وہ اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دیں گے۔ کیونکہ جن طالبان کو ان کے خاندان والے جانتے ہیں وہ جتنا بھی بدل جائیں، خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے ان کی سوچ کبھی نہیں بدل سکتی ہے۔

اگر طالبان اتنے ہی اچھے بن گئے ہیں تو پھر کابل پر ان کے قبضہ کے بعد افراتفری کیوں مچ گئی تھی؟ کیوں وہاں سے بھاگنے کے لئے لوگ جہاز پر چمٹ رہے تھے؟ جس کی وجہ سے تین افراد کی موت بھی واقع ہو گئی۔ کیوں وہاں طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی ایک خوف کا عالم ہے؟ کیوں وہاں اس کے بھائی اور دیگر لوگوں کو طالبان کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا؟ اس پر امامہ سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا کیا کہ افغانستان کے عوام امریکہ اور اس کی قائم کردہ حکومت سے خوش تھے؟

جس پر امامہ کا کہنا تھا کہ ایسا تو ہرگز نہیں کہ وہ امریکہ کی اس حکومت سے بہت زیادہ خوش تھے۔ امریکہ نے ہماری سرزمین پر بیس سال تک اپنی فوجیں رکھیں، طالبان سے لڑائی کی۔ دنیا کو افغانستان کا ایک اپنا الگ نظریہ پیش کیا، لیکن پھر ہمارے ملک کو انہی طالبان کے حوالے کر کے رخصت ہو گیا۔ ان گزشتہ سالوں میں بھی مکمل طور پر حالات اچھے تو نہیں رہے، لیکن یہ ضرور تھا کہ لوگوں پر خاص طور پر خواتین پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں تھیں۔ جس کی وجہ سے کچھ بہتر محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب تو شاید وہ بھی نہیں رہے گا۔

ان کے نزدیک افغانستان کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ان پر کوئی بزور بندوق حکومت کرے، چاہے وہ کوئی امریکہ جیسی سپر پاور ہو یا طالبان جیسے مسلح جتھے۔ افغان باسیوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے اور اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ امامہ کی ان سب باتوں سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے لوگ جو کہ پہلے ہی کئی سالوں سے جاری اس لڑائی سے تھک چکے ہیں۔ ان کی مشکلات میں کمی کی بجائے شاید اضافہ ہی ہوگا۔

بلکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس میں سب سے بڑا خطرہ تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، جن کے لوگوں کو افغان طالبان نے جیلوں سے رہا کر دیا ہے۔ اس لیے وہ اب دوبارہ فعال ہو کر پاکستان کے خلاف پہلے جیسی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہمارے ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو ان سب لوگوں کی خوشی غارت ہو جائے گی جو یہاں طالبان کی فتح کو فتح مبین سے تشبیہ دے کر بغلیں بجا رہے ہیں۔

دوسرا اہم مسئلہ ماضی کی طرح افغان مہاجرین کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔ گو کہ اب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو باڑ لگا کر بند کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی کئی ایسے دوسرے متبادل راستے موجود ہیں جہاں سے افغان مہاجرین یہاں پر آسکتے ہیں۔ جس سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ جہاں تک طالبان کے طرز عمل کی بات ہے کہ وہ اب لوگوں کی شخصی آزادی سلب کریں گے یا نہیں؟ خواتین پر پابندیاں لگائیں گے یا نہیں؟

افغانستان میں بسنے والے نان پشتون افراد جن میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر شامل ہیں، ان کے ساتھ ماضی کی طرح برا برتاؤ رکھیں گے یا اب انہیں بھی اپنا سمجھیں گے؟ اس سب کا تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا۔ لیکن خوف کے اس عالم میں فی الحال امامہ کے بھائی اور طالبان کی قید میں موجود دیگر افغانیوں کو تو اپنی زندگی کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments