امکانات کی دنیا یا قسمت کی جادوگری (مکمل کالم)


اس بات کا کتنے فیصد امکان ہے کہ کوئی شخص اپنے گھر کے باغیچے میں بیٹھا ہو اور اس پر آسمانی بجلی گرے اور وہ موقع پر ہی فوت ہو جائے؟ یا اس بات کا کتنا امکان ہے کہ آپ کی نئی گاڑی موٹر وے پر چلتے چلتے اچانک بند ہو جائے؟ یا روزگار کا متلاشی کوئی نوجوان اپنے پاسپورٹ پر امریکہ کا ویزا لگوا کر نکلے اور وہ پاسپورٹ کنویں میں جا گرے؟ اس قسم کی باتوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر صفر نہیں ہیں. دنیا میں کسی بھی واقعے کے امکان کو آپ سو فیصدی رد نہیں کر سکتے. تشکیک پسند فلسفی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ کل سورج طلوع نہیں ہو گا. اس لیے عین ممکن ہے کہ کوئی شخص گھر بیٹھے طوفان کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو جائے یا ہماری زمین ہی کسی لہراتے ہوئے اجرام فلکی سے ٹکرا کر تباہ ہو جائے. لیکن کیا ایسے واقعات کو بد قسمتی پر محمول کیا جا سکتا ہے؟ اگر کسی نوجوان کو سخت مقابلے کے بعد من پسند ملازمت مل جائے مگر کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے وہ ملازمت پر نہ جا سکے تو کیا ہم اسے نوجوان کی بد قسمتی کہیں گے؟ اس نوجوان کی جگہ دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے شخص کو اگر وہی ملازمت مل جائے تو کیا اس دوسرے شخص کو ہم خوش قسمت کہیں گے؟ اس بات کا امکان موجود ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے باوجود کسی کو کرونا ہو جائے اور وہ مر جائے مگر کیا یہ بد قسمتی کہلائے گی؟ قسمت اور امکان میں کیا فرق ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن واقعات کو بنیاد بنا کر ہم کسی کی خوش قسمتی یا سیاہ بختی کا تعین کرتے ہیں وہ محض امکانی نوعیت کے واقعات ہوں؟ کیا یہ مسئلہ اتنا ہی سادہ ہے؟

جب ہم کسی شخص کو خوش قسمت یا بد قسمت سمجھ رہے ہوتے ہیں تو دراصل اس کی زندگی کی ظاہری چکا چوند یا ابتری کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ وہ کتنا خوش نصیب یا بد نصیب ہے. کسی بھی شخص کی زندگی کے واقعات کا تسلسل ہمارے سامنے نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کن کن مراحل سے گزر کر وہاں تک پہنچا ہے جہاں ہم اسے لمحہ موجود میں دیکھ رہے ہوتے ہیں. جبکہ ہم اسے نہ صرف دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے متعین کردہ اصولوں کے مطابق پرکھ کر فیصلہ بھی صادر کر رہے ہوتے ہیں کہ آیا وہ خوش بخت ہے یا سیاہ بخت! خوش قسمتی دراصل زندگی میں کیے گیے درست فیصلوں کے تسلسل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، اس خوش قسمتی کو اکا دکا احمقانہ فیصلے بد قسمتی میں نہیں تبدیل نہیں کرتے بلکہ نا سمجھی میں کیے گئے فیصلوں کا ایک سلسلہ بد قسمتی پر منتج ہوتا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص دانستہ یا جان بوجھ کر اپنی زندگی میں غلط فیصلے نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ یہ جانتا ہو کہ وہ نا معقول فیصلہ کرنے لگا ہے تو پھر وہ ایسا فیصلہ ہی کیوں کرے گا؟ لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ زندگی میں قسمت کا تعین مسلسل دانشمندانہ یا احمقانہ فیصلوں کے نتیجے میں ہوتا ہے تو یہ دراصل قسمت کے دائرہ کار کا تعین کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور یہ جاننے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے کہ مقدر کا ہماری زندگیوں میں کیا اور کس حد تک کردار ہے.

ہم سب کی زندگیوں میں اتفاقات رونما ہوتے ہیں، بعض اوقات ان اتفاقات کے حیرت انگیز نتائج بھی نکلتے ہیں مگر ہم چونکہ ان اتفاقات کے پس منظر سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے اس لیے ان کے، مثبت یا منفی، نتائج کی بنیاد پر خود کو خوش قسمت یا بد قسمت سمجھتے ہیں. اس موضوع پر دنیا بھر میں کتابیں لکھی گئی ہیں اور تحقیق کی گئی ہے کہ قسمت کا زندگی سنوارنے اور بگاڑنے میں میں کتنا کردار ہے. اس موضوع پر آپ کا جو بھی نکتہ نظر ہو اس کے موافق یا مخالف دلائل آپ کو مل جائیں گے. لیکن اس ضمن میں کلیدی بات یہ ہے کہ ہم قسمت اور امکان کے باہم فرق کو سمجھیں جسے ہم اکثر خلط ملط کر جاتے ہیں. اگر کوئی شخص زندگی میں اپنا کوئی ہدف مقرر کرتا ہے اور پھر مسلسل لگن، محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے حاصل کرنے میں جت جاتا ہے تو اس بات کا امکان پھر بھی موجود رہے گا کہ وہ کامیاب نہ ہو، بالکل اسی طرح اور اتنا ہی امکان جیسے ویکسین لگوانے والے شخص کا کرونا وائرس سے موت کا امکان. مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ لوگ ویکسین لگوانا ہی چھوڑ دیں کیونکہ اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کرونا سے مرنے والوں میں ان لوگوں کی شرح اموات کہیں زیادہ ہے جو بغیر ویکسین کے کرونا کا شکار ہو کر اسپتال پہنچتے ہیں. اسی طرح اس بات کا بھی امکان رہے گا کہ کوئی شخص بغیر محنت اور دانشمندی کے دولت مند ہو جائے، جیسے وراثت میں جائیداد مل جائے یا بیٹھے بٹھائے کوڑیوں کی زمین کروڑوں کی ہو جائے، مگر یہ امکانات اور اتفاقات ہیں جنہیں قسمت کے ساتھ جوڑنا درست نہیں. قسمت کے ساتھ اس صورت میں جوڑا جا سکتا ہے جب ہم اپنے امکانات یا اتفاقات کی تعداد کو بڑھا لیں. ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے امکانات نہیں بڑھتے، اس کے لیے عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں، اگر ہم اپنی زندگی میں کسی بات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان وجوہات کا کھوج لگانا پڑے گا جن کی وجہ سے زندگی میں مسائل ہیں، اپنی ذات کی پڑتال کرنی پڑے گی او ر یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم کون سا ایسا کام مسلسل کر رہے جس کی وجہ سے اپنی زندگی کو تبدیل نہیں کر پا رہے.

اپنی ذات کے اس ‘بے رحمانہ احتساب’ کے بعد دوسرا کام یہ ہوگا کہ ہم اپنی زندگی سے بد قسمتی کے اس عنصر کو نکال باہر کر نے کے لیے عملی منصوبہ بندی کریں اور پھر اس میں جت جائیں. ایسا نہیں ہے کہ یہ سارا کام دو چار دن میں مکمل ہو جائے گا، یہ ایک جہد مسلسل ہو گی، بہت سے لوگ اپنے منصوبے کی ناکامی پر فرسٹریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، نا امیدی اور مایوسی انہیں گھیر لیتی ہے اور پھر وہ قسمت کو مورد الزام ٹھہرا کر واپس حالت ناکامی میں لوٹ جاتے ہیں. جبکہ اصل چیلنج ہی اس بات کو جاننا ہے کہ جب آپ ایک ٹھوس منصوبے پر عمل پیرا ہو کر کسی ہدف کو پانے میں جت جائیں گے تو یقینی طور پر ناکامی کے امکانات کو معدوم کرتے چلے جائیں گے. لیکن اکثر لوگ جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا پھر اپنے منصوبے میں حالات کے مطابق ترمیم نہیں کر پاتے، یا انہوں نے زندگی میں غلطی کی درست نشاندہی نہیں کی ہوتی. عین ممکن ہے کہ کوئی شخص ان میں سے کوئی غلطی نہ کرے اور اس کے باوجود ناکام ہی رہے. یہ امکان بہر صورت موجود رہے گا، بالکل اسی طرح جیسے اس بات کا امکان موجود رہے گا کہ وہ شخص گھر بیٹھا رہے اور اس پر جہاز آ گرے.

امکانات اور اتفاقات کا مکمل علم ہمیں نہیں ہو سکتا، یہ ایک لامحدود کائنات ہے اور اس کائنات میں لامحدود اتفاقات وقوع پذیر ہو سکتے ہیں. لہذا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دنیا میں جن اصولوں کو اپنا کر زندگی بدلی جا سکتی ہے، ہم ان اصولوں کو اپنانے کی بجائے کسی اتفاقی واقعے کے انتظار میں بیٹھے رہیں یا قسمت پر تکیہ کریں. قسمت دراصل ان امکانات کی تعداد بڑھانے کا نام ہے جو ہماری زندگی تبدیل کر سکتے ہیں.

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments