آج کا انسان کائنات کو تسخیر کرنے پر تلا ہوا ہے۔

لیکن ایک دور انسان پر ایسا بھی ہو گزرا ہے۔ جب وہ غاروں اور جنگلوں میں رہتا تھا۔ جنگلی پھل۔ جڑی بوٹیاں اور پتھر کے ہتھیار اور اوزار بنانے کے بعد جنگلی جانوروں کا شکار اس کی خوراک تھی۔ اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ خوراک اور شکار کی تلاش میں ایک علاقہ سے دوسرے علاقے ہجرت کرتا رہتا تھا۔ تہذیب سے بیگانہ ایک خانہ بدوش جاندار تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تجربہ بڑھنے سے وہ چھوٹی موٹی دریافتیں اور ایجادات کرتا گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ بعض علاقے کے انسانوں نے کھیتی باڑی کا ہنر سیکھ لیا اور خوراک کے لیے جگہ جگہ پھیرنے کے بجائے دریاوں کے کنارے مستقل سکونت اختیار کر کے کھیتی باڑی کے ذریعے خوراک حاصل کرنے لگا یہ انسان کی زندگی کا بہت بڑا انقلاب تھا۔ اور یہاں سے انسانی تہذیب کا آغاز ہو گیا۔

(آسان الفاظ میں تہذیب کے آغاز سے مراد انسان کا ایک جگہ مستقل رہائش پذیر ہو کر ذرائع معاش کے لیے زراعت کو اختیار کر کے اس سے متعلق پیشوں، اداروں اور اقدار کا نظام استوار کرنا ہے )

مورخین اور آثار قدیمہ کے ماہرین آج سے تقریباً ایک صدی قبل تک میسوپوٹیمیا ( دجلہ و فرات کی سرزمین۔ موجودہ عراق اور شام کے بعض حصے ) اور وادی نیل ( مصر ) کو انسانی تہذیب کے اوائل دو گہوارے گردانتے تھے جبکہ اس کے بعد وادی زرد دریا ( چین ) کو انسانی تہذیب کا تیسرا قدیم مرکز سمجھتے تھے۔ 20 ویں صدی کے اوائل تک دریائے سندھ کی تہذیب کے بارے کسی کو معلوم نہ تھا۔ اور برصغیر پاک و ہند میں پہلی تہذیب کا آغاز 1500 قم کے لگ بھگ یہاں آریوں کی آمد سے سمجھا جاتا تھا۔ پچھلی صدی کی دوسری دہائی میں جب اس کی دریافت ہوئی تو دنیا کو معلوم ہوا کہ اس خطے میں بھی ایک بے حد وسیع، اپنے وقت کی کافی ترقی یافتہ اور شاندار قدیم تہذیب بھی ہو گزری ہے۔ جو آریاؤں کی آمد سے بہت پہلے گزر چکی ہے۔ اس کو وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو قدیم انڈیا اور ہڑپہ موہنجوداڑو تہذیب بھی کہا جاتا ہے

اس کی دریافت سے ماہرین نے اس کو انسانی تہذیب کے اوائل قدیم مراکز میں شامل کیا ہے۔

اس کے دو بڑے شہروں ہڑپہ ( پنجاب ) اور موہنجوداڑو ( سندھ ) ہیں۔ ان دو بڑے شہروں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے قصبے اور سائٹس ( Sites ) دریافت ہوئے ہیں۔ (اس کا دائرہ مغرب میں بلوچستان، مشرق میں مغربی اور شمالی مغربی انڈیا ( اتر پردیش ) شمال میں شمال مغربی افغانستان اور جنوب میں گجرات اور مہاراشٹر تک علاقوں پر محیط رہا ہے )

اپنی قدامت، حیران کن وسعت اور تنظیم کے باوجود اس کے بارے بعض حوالوں سے معلومات تشنہ ہیں

آثار قدیمہ کے ماہرین نے ان کے شہروں کے کھنڈرات، تدفین کے طریقوں، برتنوں اور دھات کے اشیاء سے اس کے بارے کچھ اندازے لگائے ہیں۔ جبکہ اس کا فن تحریر اب تک معمہ ہے۔ اندازے کے مطابق اس تہذیب کے باسی تیسری ہزاروی ق م میں بلوچستان کے پہاڑوں سے وادی سندھ میں آباد ہونے لگے۔ اور کھیتی باڑی شروع کی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے وسیع و عریض علاقے۔ ( 5 لاکھ مربع میل ) پر پھیلے ان تمام مقامات، قصبوں اور شہروں کا ثقافتی طرز تھوڑے سے اختلاف کے ہڑپہ شہر کے طرز کا رہا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ تمام علاقہ ایک مرکز کے زیر اثر رہا ہوگا۔ وسیع رقبے پر پھیلے اس تہذیب کی مشترکہ خصوصیات ٹاؤن پلاننگ ( طرز تعمیر) اوزان اور پیمائش کا یکساں نظام اور تحریر ہیں۔

اگرچہ اس کے حکومتی انتظام کے بارے کچھ خاص معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم ان کی گلیوں کا یکساں طرز تعمیر، معیاری سائز کے اینٹوں کا استعمال، وسیع پیمانے پر پبلک ورکس جیسے گودام اور نکاسی آب

وغیرہ کا بہتر انتظام ایک مرکزی اتھارٹی ( حکومت) اور مشترکہ منصوبہ بندی پر دلالت کرتے ہیں۔

زبان۔ یہاں سے ملنی والی مہروں پر موجود طرز تحریر اگرچہ ابھی تک معمہ ہے کیونکہ یہ علامتی قسم ( logs Stllabi) کا ہے قیاس یہ ہے کہ یہ دراوڑی زبان کے خاندان سے ہے۔

معیشت۔ ان کی معاش زرعی پیداوار گندم، اور چاول وغیرہ ) تھیں۔ اور جانوروں کی افزائش بھی کی جاتی تھی۔ ان کی معیشت کا اہم حصہ ہاتھ سے بنی اشیاء ( ہنڈی کرافٹس ) بھی تھیں۔ موہنجوداڑو میں کپڑے کی رنگ سازی کے نمونے بھی ملے ہیں کپاس سے سوتی کپڑوں کی بنت کے 2000 ق م سے کیے جانے کے آثار بھی ملے ہیں۔

سماجی طبقات۔ اس کی موجودگی کا اندازہ مختلف درجے کے مکانات سے لگایا جاتا ہے۔

مذہب۔ اس کے مذہب کے بارے عام اندازہ موہنجوداڑو میں ایک بڑے نہانے والے تالاب سے لگایا جاتا ہے کہ یہ رسوماتی مقصد کے لیے بنایا گیا ہوگا۔ اس کے علاوہ عورت کی نقوش والی مورتیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وادی سندھ تہذیب کے لوگ دھرتی ماتا کے پجاری ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ تہذیب اپنے وقت کی پڑھی لکھی۔ زرعی اور ترقی یافتہ تھی۔ اور وادی سندھ کے زیادہ تر علاقے پر پھیلی تھی۔ 17 50 ق م کے بعد سے زوال پذیر ہوئی۔ اس کے خاتمے کی وجوہات کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔