گلیات میں اک گھر بنایا چاہیے


ہفتہ بھر گلیات میں کیا گزار کر آئے گویا دل وہیں چھوڑ آئے۔ گلیات کا قدرتی حسن اپنے پورے جوبن کے ساتھ یوں آپ کی حسیات پر طاری ہوتا ہے کہ بربط دل سے عشق کے نغمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ ارض حسین کا عشق، خالق کا عشق، الوہیت کا عشق۔ اسلام آباد کے ایک گیسٹ ہاؤس میں شب بسر کی۔ اسلام آباد کے ایک دوست نے ڈونگا گلی کے ہوٹل میں بکنگ کرا دی تھی اور گاڑی مع ڈرائیور کم گائیڈ کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔ سورج نے اسلام آباد کے کہساروں پر سنہری کلس چڑھایا تو گیسٹ ہاؤس سے رخت سفر باندھا۔

شہر سے نکلنے سے پہلے گاڑی اور اپنی شکم سیری کا سامان کیا۔ پھل اور نمکین خریدے۔ صاحبزادے خوشی سے اچھل پڑے جب ڈرائیور نے بتایا کہ ہائی وے پر جابجا بندر نظر آئیں گے۔ انہوں نے بندروں کی خاطر تواضع کے لئے کیلے کے گچھے اور مونگ پھلی کے پیکٹ اپنی گود میں ایسے رکھ لئے جیسے اسلام آباد کی سڑکوں پر ہی بندروں سے مڈبھیڑ ہو جائے گی۔ بر سبیل تذکرہ، ہمارے دوست نے فرمایا تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ جناور پھرتے ہیں جن کا نام لینے سے بڑے بوڑھوں کے بقول، چالیس دن تک دعا قبول نہیں ہوتی۔ اب نہ جانے وہ حقیقتاً کہہ رہے تھے یا اصطلاحاً۔

دوپہر ہو چلی تھی جب ہماری سواری نے اپنے پہیے مری ایکسپریس وے پر دھرے اور گلیات کو دوڑ لگائی۔ طویل عرصے بعد اس طرف آنا ہوا تھا اس لئے انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر دل خوش ہوا گو بعد ازاں مری کی ابتری پر دل مکدر بھی ہوا۔ گلیات لغوی طور پر گلی کی جمع ہے، اصطلاحاً خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد کی دونوں جانب سر سبز کہساروں کی ڈھلانوں پر تقریبا 50 سے 80 کلومیٹر پر محیط اونچی نیچی وادیاں گلیات کہلاتی ہیں۔ سیاحتی نقطہ نظر سے 33 میں سے 18 گلیات زیادہ معروف ہیں۔

گھوڑا گلی، جھیکا گلی اور دریا گلی حکومت پنجاب کے زیر اثر ہیں بقیہ خیبر پختونخوا میں شامل ہیں۔ ان جنت نظیر وادیوں میں سیاستدانوں کی عارضی آرام گاہیں ہیں جہاں وہ عوام کی بوٹیاں کھانے اور خون پینے کے بعد قیلولہ کرنے آتے ہیں۔ سنا ہے ایک بار ایک غلام سے گستاخی ہو گئی تو قوم کے رہنما اس ناہنجار کو سزا کے طور پر جنگل میں اتار کر چلے گئے۔ کاش کبھی ایسا بھی مقدور ہوتا کہ عوام انہیں اسی سڑک کنارے چھوڑ آتی جہاں سے انہوں نے عوام کی لوٹ کھسوٹ کا سفر شروع کیا تھا۔

افوہ! میرے وطن کے حسین نظاروں کی یادداشتوں میں کہاں یہ سیاستدانوں کا نظر بٹو ذکر آ گیا۔ لوٹتے ہیں سفر وسیلہ ظفر کی طرف۔ ہماری گاڑی پہاڑوں کے گرد کسی ترک صوفی درویش کی طرح گول گول رقص کرتی جا رہی تھی کہ اچانک یہ رقص تھم گیا۔ ڈرائیور نے سڑک کنارے گاڑی پارک کرتے ہوئے بائیں جانب اشارہ کیا۔ اس طرف مڑ کر دیکھتے ہی صاحب زادے کی باچھیں کھل گئیں۔ ایک دو نہیں کئی بندر سڑک پر، منڈیر پر اور پہاڑی طاق پر براجمان تھے۔

صاحب زادے گاڑی سے اترے اور ان کی مدارات میں لگ گئے۔ جوں ہی ان کے پاس راشن ختم ہوا نمک حرام بندروں نے حملہ کر دیا۔ صاحب زادے اس بیداد پر بوکھلا گئے اور رجعت قہقری کرتے گاڑی میں آ بیٹھے۔ مقامی لوگوں نے بتایا، پہلے یہ بندر معصوم اور بے ضرر ہوتے تھے اب یہ بھی انقلابی ہو گئے ہیں۔ رقص سفر پھر شروع ہوا اور خطرناک دائروں کے بعد چھانگلہ گلی پر منتج ہوا۔ یہ خوبصورت مقام 2559 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ نیچے وادی میں سرمئی بادلوں کا نظارہ نہایت دلکش تھا جیسے کسی حسینہ کی کاکلیں اڑتی پھر رہی ہوں۔

یہاں زیادہ دیر ٹھہرنے کا وقت نہ تھا۔ اگرچہ اگست کا مہینہ تھا لیکن سورج کو جانے کیوں سرما کی مانند جانے کی جلدی تھی۔ شہاب ثاقب کی طرح تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ڈونگا گلی پہنچنے تک اندھیرا پھیل گیا تھا۔ ہوٹل کے کمرے کی کھڑی کھولی تو ہر طرف ہیبت ناک تاریکی تھی جیسے حسین وادیوں نے سیاہ ٹوپی برقعہ اوڑھ لیا ہو۔ سناٹے سے گھبرا کر نو بجے باہر نکلے۔ گاڑی تاریک اور مدہم روشنی والی راہوں سے گزرتی رہی۔

تھکان سے بے حال بچوں نے کہیں بھی اترنے سے انکار کر دیا۔ کھانا لینے ایک جگہ رکے۔ گاڑی کی طرف لوٹ رہے تھے کہ کتوں کا ایک غول بھونکتا ہوا لپکا۔ ہمیں کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے، ہر طرح کے کتوں سے۔ بھونکنے والے، کاٹنے والے اور ’بھنبھوڑنے‘ والے۔ تندور والے نے موٹا سا ڈنڈا دکھا کر ششکارا تو وہ اپنی کمین گاہ کو لوٹ گئے۔ آئندہ کی پیش بندی کے طور پر وہ ڈنڈا ہمیں عنایت کر دیا گیا۔

رات جتنی تیرہ و تاریک تھی صبح اتنی ہی روشن اور خوشگوار تھی۔ وادی کا بے پردہ حسن نظروں کو خیرہ کیے دیتا تھا۔ ہر جا مصور قدرت نے سبز رنگ چھڑکا ہوا تھا۔ ایک ہرا رنگ مگر بے شمار شیڈ۔ صنوبر اور دیودار کے اونچے درختوں کے لامتناہی سلسلے اور ان کی گھنی چھاؤں میں سبزے سے سر اٹھاتی اودے نیلے پیلے خشخاشی اور گلابی پھولوں کی نازک ڈالیاں۔ افق در افق سبز پوش کہساروں کے سلسلے حد نگاہ کو مات دے رہے تھے۔ ڈونگا گلی سطح سمندر سے 2500 میٹر بلند ہے۔

ہماری اگلی منزل ایوبیہ نیشنل پارک تھی۔ نیشنل پارک کسی ملک کا وہ علاقہ ہوتا ہے جسے تحفظ حیاتیات و نباتات کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہو۔ یہاں قدرتی نباتات و حیوانات کو نقصان پہنچانا ممنوع ہوتا ہے۔ کمیاب اور معدوم ہونے والے جانوروں اور پرندوں کو قدرتی ماحول میں رکھ کر ان کی افزائش کی جاتی ہے۔ یہاں ہم حیاتیاتی اور نباتاتی تنوع کے خزانے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہ ملی باغ کسی بھی قوم کے لئے بیش بہا سرمایہ ہوتے ہیں۔

ایوبیہ نیشنل پارک پاکستان کے 35 نیشنل پارکس میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2400 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ 3312 کلومیٹر اسکوائر پر پھیلے اس قدرتی جنگل کو 1984 میں IUCN (international Union for conservation of nature) کے معیار کے مطابق نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ چار سیاحتی مقامات چھانگلہ گلی، خیرا گلی، خانس پور اور گھوڑا ڈھاکہ اس نیشنل پارک کا حصہ ہیں۔ ایوبیہ نیشنل پارک معتدل اور مرطوب ہمالیائی جنگلات کے نایاب ذخیرے کا مسکن ہے جہاں کئی اقسام کے نایاب پرندے اور حیوانات موجود ہیں۔

خطے کی دلکشی کو پیدل چل کر دیکھنے کے لئے چار کلومیٹر لمبا ٹریک موجود ہے جسے ”نیچر پائپ لائن واک“ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ڈونگا گلی سے شروع ہوتا ہے اور ایوبیہ پارک کے درمیان سے گزرتا خانس پور کی سرحد پر ختم ہوتا ہے۔ اکتوبر 2020 میں ”موٹو سرنگ“ کے افتتاح کے بعد اب یہ ٹریک سولہ کلومیٹر ہو گیا ہے۔ موٹو سرنگ 129 برس قدیم برطانوی عہد کی خوبصورت سرنگ ہے جو ایوبیہ پارک سے خیرہ گلی تک جاتی ہے۔ اس کے ماتھے پر 1891 لکھا ہوا صاف پڑھا جاسکتا ہے۔

ایوبیہ چیئر لفٹ گھوڑا ڈھاکہ سے مشکپوری چوٹی کے درمیان چلتی ہیں۔ رنگ برنگی چیئر لفٹ پر باغ و بہار مناظر کا ڈیڑھ کلومیٹر کا یہ سفر بہت نشاط انگیز ہے۔ ڈرائیور ہمیں چیئر لفٹ پر چھوڑ کر کھانا کھانے چلا گیا تھا۔ فارغ ہو کر ہم نے یہاں کی خاص سوغات اخروٹ کے حلوے کے بہت سے ڈبے خریدے۔ شاپنگ بیگ کو جھلاتے ہم ڈرائیور سے طے شدہ مقام پر پہنچے۔ درختوں کے مچان پر گھات لگائے بندروں کے گروہ نے ہمارے توشہ خانے پر حملہ کر دیا کچھ ڈبے پھاڑے، کچھ نوچے اور کچھ چھین کر لے گئے۔

ہکا بکا بچے کھچے ڈبے سمیٹے کھڑے تھے کہ ڈرائیور آن پہنچا اور ہم نتھیا گلی روانہ ہوئے۔ یہ گلیات کا سب سے معروف پر فضا سیاحتی مقام ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2195 میٹر بلند ہے۔ چیڑھ کے درختوں سے مرصع جنگل، انکھوں کو تراوٹ بخشتی پھلواریاں، خوش گلو جھرنے اور فن تعمیر کے تاریخی نمونے اس کی پہچان ہیں چوبی سینٹ میتھیو چرچ اور برطانوی عہد کا تعمیر کردہ گورنر ہاؤس قابل ذکر تاریخی عمارتیں ہیں۔ ہائیکرز کی تو یہ جنت ہے۔ ایک ٹریک نتھیا گلی سے 2987 میٹر بلند میرانجانی چوٹی تک جاتا ہے۔ یہ اس پہاڑی سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ دوسرا ٹریک نتھیا گلی سے مشک پوری چوٹی کے درمیان ہے۔ مشک پوری چوٹی 2804۔ میٹر کی اونچائی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ان طویل راستوں پر نایاب پرندوں اور کبھی کبھی درندوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے۔

ہم کسی جگہ جائیں اور وہاں کے مقامی لوگوں سے مل کر ان کے رہن سہن کا مشاہدہ نہ کریں تو سفر نامکمل لگتا ہے۔ نملی میرا پر یہ موقع مل گیا۔ اس خوبصورت گاؤں کی وجہ شہرت نملی میرا آبشار ہے۔ یہ آبشار سبز پہاڑوں سے جلترنگ بجاتا اترتا ہے اور پھر گنگناتے چشمے کا روپ اختیار کرتے ہوئے وادیوں میں بہنے لگتا ہے۔ اتھلے پانی میں میز کرسیاں ڈال کر سیاحوں کو مشروب و طعام پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارا پڑاؤ اس کے پہلو میں ایستادہ آبشار ہوٹل میں تھا۔

کمرے کی عقبی کھڑکیوں سے دیسی مرغیوں کے کئی خاندان مٹرگشت کرتے دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک مرغی رات کے کھانے پر لذیذ کڑاہی کی شکل میں دسترخوان کی زینت تھی۔ اگلی صبح پرندوں کی چہچہاہٹ، ٹھنڈی ہوا کی تھپتھپاہٹ اور آبشار کے جل ترنگ نے جگایا۔ ناشتے کے بعد میں اور میری بیٹی کوہ نوردی کو نکل گئے ہماری نیت چوٹی پر بنے چند گھروں تک جانے کی تھی۔ وہاں تک جانے کے دو راستے تھے ایک کم طویل رستہ سڑک سے سیدھی چٹان سے جاتا تھا دوسرا نسبتاً طویل پہاڑ کے ساتھ گھومتی پگڈنڈی سے پہنچتا دکھائی دیتا تھا۔

ہم شارٹ کٹ سے جانا چاہتے تھے لڑکپن میں پہاڑوں اور درختوں کے تنوں پر چڑھنے کا خوب تجربہ تھا لیکن ہماری بیٹی نے یاد دلایا کہ لڑکپن کہیں دور پیچھے رہ گیا ہے اور ایسے ایڈونچر سے گریز کرنا چاہیے۔ سو آبشار ہوٹل کے عقب سے شروع ہوتی اس پگڈنڈی پر چل پڑے۔ خوبی قسمت ہمارے ساتھ چلتے ایک ادھیڑ عمر مقامی نے اپنے گھر چائے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ ہم اس کی رہنمائی میں آگے بڑھتے گئے۔ ایک مقام پر پگڈنڈی ختم ہو گئی اب جھاڑیوں کے درمیان پتھروں پر قدم جما کر ڈھلانوں پر چڑھنا تھا۔

جانے کتنے سنبھل کر رکھے قدموں کے بعد پہلے گھر کے آنگن میں اترے۔ ہمارے میزبان کا گھر سب سے اونچی جگہ پر تھا۔ مسطح قطعہ زمین پر سبزیاں اگی ہوئی تھیں گھر کے پچھواڑے دانہ چگتی مرغیاں انڈے اور گوشت کا وسیلہ تھیں اور ڈھلان پر بغیر رسی کے دوڑتی بھاگتی بکریاں دودھ کے حصول کا ذریعہ تھیں۔ ہندکو مادری زبان تھی مگر ہر پاکستانی کی طرح مرد و خواتین اردو سے روشناس تھے۔ اس پاس کے گھروں سے خواتین اوپر ہی چلی آئیں۔

دہکتے کوئلوں پر دم کی ہوئی چائے اور بسکٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے باتیں ہوتی رہیں یہ پربتوں کی شاہزادیاں گھر کے کام کاج کے علاوہ دستکاری بھی کرتی ہیں۔ لڑکیاں اسکول جاتی ہیں۔ جس کٹھن رستے پر ایک بار جانا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں وہ روزانہ ان پتھروں پر چل کر علم کی کہکشاں پانے کی جستجو کرتی ہیں۔ ان کو سیاحوں سے ایک شکایت ہے وہ جگہ جگہ کچرا نہ پھینک کر جایا کریں۔

نملی میرا آبشار پر دو دن گزار کر ملکہ کہسار مری کو روانہ ہوئے لیکن اس بار یوں لگا کہ ملکہ کا جاہ و حشم ماند پڑ گیا ہے۔ بے ہنگم تعمیرات، صفائی کا فقدان اور، انبوہ آدم سے اوبھ کر چند گھنٹوں میں ہی جرس رحلہ بجا دی گئی۔ اسلام آباد کی طرف لوٹتے ہوئے سارے راستے شیخ چلی کی طرح گلیات میں گھر بنانے کے خواب بنتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments