‘ان کے سروں پر لاٹھیاں مارو’، سرکاری افسر کے حکم پر بھارتی کسان برہم


بھارتی ریاست ہریانہ میں وزیرِ اعلٰی کے جلسے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر پولیس کی مبینہ کارروائی اور لاٹھی چارج کے دوران ایک کسان کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔

کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہفتے کو وزیرِ اعلٰی منوہر لال کھٹر کے جلسے سے قبل پولیس کے لاٹھی چارج کے باعث متعدد کسان زخمی ہو گئے جن میں سے ایک کسان اتوار کو دم توڑ گیا۔

اس دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں کرنال کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) آیوش سنہا پولیس کے ایک گروپ کے سامنے کھڑے ہیں اور اس کو ہدایت دے رہے ہیں کہ مظاہرہ کرنے والے کسان ایک خاص رکاوٹ سے آگے نہ جا سکیں۔

ویڈیو میں ان کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ فلاں رکاوٹ سے آگے کوئی بھی کسان نہیں جانا چاہیے۔ اگر کوئی جاتا ہے تو لاٹھی اٹھائیں اور زوردار وار کریں۔ اس کا سر توڑ دیں۔ میں آگے جانے والے ہر کسان کا سر پھٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔

خیال رہے کہ بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسان تنظیمیں گزشتہ نو ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔

کسان تنظیم ”بھارتیہ کسان یونین“ کے رہنما گورنام سنگھ چڈونی نے اتوار کو میڈیا کو بتایا کہ ایک کسان سشیل کجل کو ہفتے کو کرنال میں ایک ٹول پلازہ کے نزدیک پولیس کے لاٹھی چارج میں شدید چوٹیں آئی تھیں جس کے باعث وہ حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ ایکڑ کھیت کا مالک سشیل گزشتہ نو ماہ سے کسانوں کے احتجاج میں شامل رہا ہے۔ کسان برادری ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

رپورٹس کے مطابق وزیر اعلیٰ ایم ایل کھٹر آنے والے پنچایت انتخابات کے پیشِ نظر ہفتے کو کرنال میں ایک جلسہ کرنے والے تھے۔ کسانوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی تھی۔ جلسے میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی صدر اور دیگر رہنما بھی شریک ہونے والے تھے۔

کسانوں نے اس جلسے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کرنال کی جانب جانے والی ہائی وے کو بند کر رکھا تھا۔ پولیس نے ہائی وے کھلوانے کی کوشش کی اور جب وہ اس میں ناکام رہی تو اس نے لاٹھی چارج کر دیا۔

رپورٹس کے مطابق جب کسانوں نے مذکورہ رکاوٹ سے آگے جانے کی کوشش کی تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں متعدد کسان زخمی ہو گئے۔

لاٹھی چارج کی خبر عام ہونے کے بعد دوسرے اضلاع سے بھی کسان وہاں جمع ہو گئے۔ جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہو گیا جب کہ دہلی اور چندی گڑھ جانے والی ٹریفک میں بھی خلل آیا۔

سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی، کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اور دوسرے اپوزیشن رہنماؤں نے ہریانہ میں پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔

ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ نے کہا ہے کہ مذکورہ پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

بھارت میں گزشتہ نو ماہ سے کسان متنازع زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
بھارت میں گزشتہ نو ماہ سے کسان متنازع زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

دریں اثنا وزیر اعلیٰ نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وزرا اور ریاست کے اعلی عہدے داروں کا ایک اجلاس اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کسانوں کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے کچھ اہم فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے خلاف پولیس کارروائی کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں نے پرامن مظاہرے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن پولیس پر پتھراؤ کیا گیا اور ہائی وے کو بند کیا گیا۔

ادھر زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ احتجاج کو دس ماہ مکمل ہونے پر 25 ستمبر کو بھارت بند کریں گے۔

رپورٹس کے مطابق کسانوں نے پانچ ستمبر کو اترپردیش کے مظفر نگر میں ایک بہت بڑی پنچایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس روز مشن اتر پردیش (یو پی) کا اعلان کریں گے۔ یاد رہے کہ اگلے سال کے اوائل میں یو پی سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما اور کسانوں کا ایک مقبول چہرہ راکیش ٹکیت نے کرنال میں پولیس لاٹھی چارج کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ ملک پر ”سرکاری طالبان“ نے قبضہ کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو 25 ستمبر کو دس ماہ ہو جائیں گے۔

جہاں کسان ان قوانین کو اپنے خلاف قرار دیتے ہیں وہیں حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں۔ ان کے ذریعے اجناس کی خرید میں مڈل مین کا کردار ختم ہو جائے گا جس کا لا محالہ فائدہ کسانوں کو ہی ہو گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments