ایرانی افسانہ نگار جمال میر صادقی اور ڈاکٹر اطہر مسعود کی ترجمہ نگاری…


ڈاکٹر محمد اطہر مسعود فارسی ادبیات کے سنجیدہ طالب علم ہیں اور فارسی ادب اور فنونِ لطیفہ کے کئی قدیم و جدید فن پارے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کرکے اہلِ فن سے داد پا چکے ہیں۔ پچھلے دنوں اُن کے ترجمہ کردہ فارسی افسانوں کے مجموعے جمال کہانیاں کا دوسرا ایڈیشن (2021ء) شائع ہوا تو سوچا کہ اُن کے فنِ ترجمہ نگاری کا ایک تحقیقی جائزہ لے لیا جائے۔

جمال کہانیاں میں جدید ایران کے معروف افسانہ نگار جمال میر صادقی کے 28 افسانوں کے تراجم شامل ہیں۔ آخرِ کتاب میں میر صادقی کا ایک مضمون ’’کچھ افسانہ نگاری کے بارے میں‘‘ (ص-208) ہے جو فنِ افسانہ نگاری پر اُن کے خیالات کا جامع ہے۔ نیز ’’جمال میر صادقی (شخصیت اور افسانہ نگاری پر ایک نظر)‘‘ (ص-185) کے نام سے اطہر مسعود کا ایک مفصل مضمون ہے جو میر صادقی کے بارے میں تدریسی، علمی اور ادبی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ راقم کے مطالعے کی حد تک اردو زبان میں کسی بھی ایرانی مصنف کے بارے میں ایسا مبسوط مقالہ شاذ ہے۔ اِس مقالے کے 39 حواشی ہیں اور اِس میں بیسویں صدی کے نصفِ آخر کے فارسی افسانے کا مکمل ریویو موجود ہے۔

میر صادقی کے افسانوں کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ اِن کا ماحول اور زمانہ وہی ہے جس سے ہم لوگ آج گزر رہے ہیں۔ کسی تاریخی یا مخصوص لوکیل والا افسانہ اِن میں شامل نہیں۔ جو چیز خاص طور سے دیکھنے کی ہے وہ یہ کہ اِن افسانوں میں ایلیٹ کے ذکر کردہ ’’تاریخی شعور‘‘ کی لازمی کارفرمائی تو ہے لیکن ’’تاریخ‘‘ نہیں ہے۔ صرف ایک افسانہ ’’انقلاب‘‘ البتہ ایسا ہے جس میں انقلابِ ایران 1979ء کا ذکر ہے۔ اِس میں سیکرٹ سروس کے اُن لوگوں کی نفسیات کے بارے میں بات کی گئی ہے جو دفتری کام اور دیگر ترجیحات چھوڑ کر انقلاب کے حامیوں والے جلوسوں کا حصہ بن جاتے تھے، لیکن یہ ذکر بھی چلتا چلاتا آتا ہے اور بہت جلد Fade out ہوجاتا ہے۔

اگلی اہم بات یہ ہے کہ جیسے ایک سے زیادہ زبانیں جاننے والوں کو متن اور ماحول کی بہتر سمجھ ہوتی ہے اُسی طرح جتنے زیادہ فنون سے انسان واقف ہو وہ اُسی قدر گہرے مشاہدے اور علم و معلومات کی روشنی میں لکھتا ہے۔ میر صادقی اگرچہ ادب لکھتے ہیں لیکن اُن کے افسانوں میں دیگر فنونِ لطیفہ سے متعلق براہِ راست معلومات نہیں ملتیں۔ نیز جیسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ موسیقی، مجسمہ سازی یا کوئی اور فائن آرٹ نہیں جانتے وہ تحریر میں اِن فنون کی بعض اصطلاحات کا پیوند لگا لیتے ہیں؛ میر صادقی کے افسانوں میں یہ بے سوادی بھی نہیں ملتی۔

jamal mirsadeghi

البتہ اطہر مسعود کا امتحان تھا کہ وہ نظری اور عملی دونوں طرح کی موسیقی کی رمزوں سے گہری آشنائی کی وجہ سے اپنے ترجمہ کردہ مواد میں کوئی ایسا ٹکڑا لے آتے، لیکن وہ ایک اچھے اور منجھے ہوئے مترجم کی طرح متن سے وفاداری نباہتے ہوئے اِس اوگھٹ گھاٹی سے کامیابی کے ساتھ نکل گئے اور کہیں اپنے علمِ موسیقی کا نشان (Footprint) نہیں چھوڑا۔ یہ ضرور ہے کہ ترجمہ کرتے وقت جملوں کے لیے الفاظ کا انتخاب اور در و بست اُن کی موزونیِ طبع اور رواں نثر لکھنے کی صلاحیت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میر صادقی کے افسانوں کی طرح اِن کا اردو ترجمہ بھی رواں دواں ہے، اور اِس کی واحد وجہ جنابِ مترجم کی موسیقی اور علمِ عروض سے ایسی عملی آشنائی ہے جو روح میں اتری ہوئی ہے۔

میر صادقی کے افسانوں کی لفظیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ڈکشنری لفظیات کی پابندی نہیں کرتے بلکہ حد درجہ خالص عوامی سلینگ استعمال کرتے ہیں۔ وہ لسانی اعتبار سے اِس خیال کے شدید حامی ہیں کہ ’’جیسے بولیں ویسے لکھیں‘‘ (ص-198)۔ وہ اپنے افسانے کے ماحول کے مناسب کوئی بھی چلتا چلاتا جملہ (Catchphrase) بے دھڑک لکھ ڈالتے ہیں۔ چنانچہ اُن کے تقریبًا سبھی افسانوں میں ایسے بہت سے الفاظ مل جاتے ہیں جنھیں اصطلاحًا غیر لغوی اندراجات (Non-Dictionary Words) کہا جاتا ہے۔ زیرِ بحث افسانوں میں اِن الفاظ کا نہ صرف املا عوامی ہے بلکہ تلفظ بھی ایضًا لکھا گیا ہے۔ فاضل مترجم نے اِس نکتے کو کتاب کے آخر میں شامل اپنے متذکرۂ بالا مضمون میں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے اور نہ صرف ترجمہ شدہ بلکہ میر صادقی کے دیگر افسانوں سے متعدد ایسی مثالیں بھی درج کی ہیں جن سے موصوف کی وسعتِ مطالعہ اور زباندانی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

Muhammad Athar Masood

البتہ اُنھوں نے افسانوں کے ترجمے میں اِس لسانی توڑا مروڑی (Language Distortion) کو زیادہ جگہ نہیں دی بلکہ اِسے، زیادہ تر، ادبی زبان (Literary Discourse) میں لکھا ہے۔ اُن کے ترجمے کا ہدف بنیادی طور پر ادب کا طالبِ علم ہے اور اُنھوں نے متن کی ’’ادبیت‘‘ کو بحال رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن زبان اور لفظیات ایسی برتی ہے کہ عام آدمی بھی اِسے اُتنی ہی دلچسپی سے بے تکلف انداز میں پڑھ سکتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ تراجم رواں دواں زبان کے باوجود ’’صحافیانہ‘‘ رنگ اور سنسنی خیزی سے دور ہیں اور لفظیات کے پیمانے پر جانچیں تو اِن میں کوئی غیر لغوی اندراج بھی نہیں ملتا۔ چنانچہ اطہر مسعود کے ترجمے کی زبان میر صادقی کے اصل متن کی زبان کی نسبت رسمی (Formal) ہے

ترجمے اور ڈکشنری میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مترجم خواہ دوسری زبان بلکہ ایک سے زائد زبانوں کا کیسا ہی جاننے والا ہو لیکن اُسے ترجمے میں کئی مقامات پر ڈکشنری کی حاجت ہوتی ہے۔ جمال کہانیاں میں اطہر مسعود نے جب کسی لفظ یا محاورے و روزمرے کی تفہیم کے لیے ڈکشنری سے رجوع کیا اور وہ مسئلہ حل نہ ہوا تو میر صادقی سے براہِ راست ٹیلیفون پر بات کرکے معنی کی تفہیم میں مدد حاصل کی۔ زندہ مولفین کے مترجمین میں سے بہت کم کو یہ سہولت میسر ہوتی ہے چنانچہ اطہر مسعود اِس حوالے سے بھی ممتاز ہیں۔ اِس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ نہ صرف یہ ترجمہ کتابی زبان سے دور اور روزمرہ کی استعمالی زبان (Functional Language) سے ہم آہنگ ہے بلکہ افسانے کا پورا ماحول بھی براہِ راست ترجمہ ہو گیا ہے اور منشائے مصنف کی بھی گویا ترجمانی ہوگئی ہے۔ بالفاظِ دیگر یوں سمجھیے کہ یہ افسانے میر صادقی نے براہِ راست اردو میں لکھے ہیں۔

جدید فارسی آج بہت وسیع زبان بن گئی ہے جس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی یہ کہ اِس میں شروع ہی سے نہ صرف ادب بلکہ سائنسی، اطلاعیاتی، معاشیاتی اور شوبز وغیرہ جیسے موضوعات کے بے شمار تراجم ہو رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ مناسب متبادلات کو رواج دینے یا مختلف غیر زبانوں کے الفاظ کو موزوں انداز میں مفرس کرنے کے حوالے سے صحافتی اور ادبی دونوں جہات میں بڑا کام ہوا ہے۔ یاد رہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں تطہیرِ زبان کے لیے نہایت زور شور سے چلنے والی تحریک ’’نہضتِ فارسیِ سرہ‘‘ (Purification of the Persian Language) کے تحت فارسی کو عربی الفاظ سے ’’پاک‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مخصوص سیاسی و ملّی نقطۂ نظر سے تطہیرِ زبان کی یہ کوشش بوجوہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔

دراصل زبانیں ایک زندہ وجود کی طرح ہوتی ہیں۔ کسی خاص نقطۂ نظر سے اِن میں عمداً کی جانے والی تبدیلیاں اگر اِن کے عمومی مزاج سے لگّا نہ کھاتی ہوں تو ایسی تحریکوں کا وہی حال ہوتا ہے جو ’’نہضتِ فارسیِ سرہ‘‘ کا ہوا۔ احمد کسروی اور اُن کے چند پیروکاروں کے بعد یہ تحریک اپنا دم خم کھو بیٹھی۔ چنانچہ آج سائبر دور میں جب کہ ہر موضوع اور ہر خیال روشنی کی رفتار سے جدید فارسی کی علمیات (Body of Knowledge – BoK) کا حصہ بن رہا ہے تو اصطلاحات کے رواں دواں ترجمے کی وجہ سے کوئی شعبۂ علم مفہوم کی قلت کا شکار نہیں ہوتا۔ ایسی زوردار زبان میں لکھی تحریر کا ترجمہ کرتے وقت اِس بات کا بہت دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں مفہوم میں کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔ مثال لیجیے کہ جب کسی مخصوص محاورے کے مفہوم کی ترجمانی کے لیے کوئی محاورہ موجود نہ ہو تو جملے کو توڑ کر دو حصے بنا دیے جاتے ہیں، لیکن توجہ اِسی بات پر رہتی ہے کہ اِس تکنیک کی کارفرمائی سے کہیں کچھ ’’اضافہ‘‘ نہ ہوجائے۔

اِس کی ایک خوبصورت مثال جنابِ اجمل کمال نے ایک جگہ پر دی ہے کہ مترجمین عربی افسانے/ ناول کو اردو ترجمہ کرتے وقت بسا اوقات متن کے پہلے سے کیے ہوئے کسی انگریزی ترجمے کو بنیاد بنا لیتے ہیں اور یوں مثلًا عربی لفظ میّت کا انگریزی ترجمہ Dead Body سے ہوتا ہوا جب اردو میں پہنچتا ہے تو لاش/ نعش/ میّت میں لفظ کی ٹون کا فرق آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری سے تیسری زبان میں (L2 to L3) کیا ہوا ترجمہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ مثال لیجیے کہ گیبرئل گارسیا مارکیز کے مشہور ہسپانوی ناول Cien años de soledad کے اردو میں ایک سے زیادہ تراجم ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کے نام سے ہوئے ہیں، اور یہ سب براستہ انگریزی یعنی انگریزی ترجمے سے ہوئے ہیں۔ جسے دونوں ترجمے پڑھنے کا موقع ملے اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اِن تراجم میں بعض مقامات پر کیسا خلا پایا جاتا ہے۔ القصہ ترجمہ وہی ہے جو براہِ راست یعنی فرسٹ ہینڈ ہو (L1 to L2)، اور ادب کے اچھے باذوق قاری ہمیشہ پہلا یعنی براہِ راست کیا ہوا ترجمہ ہی دیکھتے ہیں بجائے دوسری سے تیسری زبان میں کیے ترجمے کے۔ مارکیز کے مندرجۂ بالا ناول کے انگریزی میں بھی کئی ترجمے ہوئے ہیں اور اُن میں سے بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ بہتر کون سا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف لاطینی امریکہ کے ناولوں کی نہیں بلکہ بعض مشہور جاپانی ناولوں کے اردو تراجم کی بھی ہے جو براستہ انگریزی ترجمہ کیے گئے ہیں۔ مغربی بھارت کی زبانوں پالی، مراٹھی وغیرہ سے براہِ راست اردو میں ترجمہ ہونے والے ناولوں اور افسانوں کی کیفیت اُن سے بہت مختلف ہوتی ہے جو براستہ انگریزی ترجمہ ہوئے ہیں۔ اِس کی کئی مثالیں سہ ماہی ’’آج‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جمال کہانیاں میں موجود ترجمہ شدہ افسانوں کی اصالت اور سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ جنابِ اطہر مسعود نے فارسی سے براہِ راست اردو میں کیے ہیں۔

میر صادقی نہ صرف ایک ادیب بلکہ ایک سماجی سائنسدان کی حیثیت سے سماج کی زیریں سطح کے کرداروں سے کام لیتے ہیں، اور یہ کردار ڈرائیور، پہلوان، کلرک، قصائی، گھریلو عورت، نشئی، ہوٹل کا بیرا، وغیرہ، کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ میر صادقی اِن سب کرداروں سے اِن کی مخصوص زبان استعمال کراتے ہیں۔ چنانچہ اُن کا کوئی افسانہ کسی خاص شعبے یا طبقے کی لفظیات یا سلینگ وغیرہ کا جامع نہیں ہے بلکہ ہر افسانے میں صورتِ حال کے مطابق کردار کی زبان سے لفظ تراوش ہوتے ہیں۔ وہ لفظ جمع کرکے افسانہ نہیں بناتے بلکہ افسانہ تراشتے ہوئے جہاں جہاں جس کردار کی ضرورت ہو اُسے اپنا مخصوص لفظ خزانہ خرچ کرتے دکھاتے ہیں، مثلًا کلرک کسی موچی سے بات کرتا ہے تو دونوں بالکل سامنے کے لفظوں میں اپنی اپنی بات کرتے ہیں۔ وغیرہ۔

جمال کہانیاں میں شامل میر صادقی کے افسانوں میں فارسی کا کوئی شعر یا شعر کا کوئی ٹکڑا شامل نہیں ہے اِس لیے اطہر مسعود کے کیے تراجم میں بھی اردو یا ہندی کے ڈکشن کی یہ جہت اور ثقافتی رنگ مفقود ہے۔ نیز اُنھوں نے محاورے کا ترجمہ بالالتزام محاورے سے کرنے کے الجھاوے میں پڑنے اور اپنی زباندانی کی دھاک بٹھانے کے بجائے قاری کی تفہیم اور تسہیل کے مقصد کو سامنے رکھا ہے اور، میر صادقی کی طرح، کرداروں کے جذبات کو بیان کیا ہے یعنی ترجمانی کی ہے۔

میر صادقی کے افسانوں میں تانیثیت کے کئی مظاہر ہیں اور اُن کے ہر افسانے میں ایک خاتون یا نسوانی حوالہ بالالتزام موجود ہے، نیز صنفی امتیاز اور جنریشن گیپ بھی اُن کے افسانوں کا موضوع بنا ہے۔ مثلًا ’’زندگی کا تھیئٹر‘‘ (ص-69) میں ایک خاتون کے جذبات کا بیان ہے جس نے پہلے طالبہ کے طور پر اپنے تھیئٹر کے استاد اداکار سے عشق کیا ہے، پھر وہ ایک ایکٹریس کی زبان بولتی ہے اور بعد ازاں ایک ماں جو بچے سے بچھڑی ہوئی ہے؛ یوں اُس کی زندگی کے مختلف ادوار کا بیان چلتا ہے۔ اِسی طرح ’’کمبخت برف‘‘ (ص-8) میں ایک غریب عورت کی مجبور زندگی، معاشرتی پابندیاں، معاشی مسائل جن کے باعث وہ چادر میں ہڈیاں چھپائے لے جا رہی ہے۔ نیز ’’آئینے والی پری‘‘ (ص-58) جو ایک نوجوان مطلقہ کی دل خراش واردات ہے، وغیرہ۔ لیکن جدید دور کی فارسی میں چونکہ مردانہ اور زنانہ زبان میں کوئی خاص صنفی فرق (Language Discrimination) نہیں رہ گیا اِس لیے اِن افسانوں میں ایسا صنفی محاورہ و روزمرہ نیز لفظیات بالکل ناپید ہے۔ اطہر مسعود نے اپنے تراجم میں اِس پہلو کا خاص خیال رکھا ہے اور ترجمے کی زبان اور اُس کے ماحول کو روحِ عصر سے ہم آہنگ رکھا ہے۔

جنابِ اطہر مسعود کی فنِ ترجمہ پر عمومی گرفت کا جائزہ لینے کا یہ موقع نہیں تاہم سرسری ذکر کرنا چاہوں گا کہ وہ صرف فارسی سے اردو ترجمہ نہیں بلکہ اہم نوعیت کے انگریزی سے اردو/ فارسی اور اردو/ فارسی سے انگریزی ترجمے بھی کرچکے ہیں اور قدیم و جدید دونوں طرح کی ادبی اور انتظامی زبان پر مہارت رکھتے ہیں۔ فنِ موسیقی پر امیر مینائی کی کتاب نغمۂ قدسی (2016ء) اِس کی بڑی مثال ہے نیز سرسید کے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند (محقَّق ایڈیشن 2020ء) میں اُن کے کیے بعض تراجم موجود ہیں اور اہلِ علم کی توجہ حاصل کرچکے ہیں۔ فقیر سید اعجاز الدین کی کتاب The Resourceful Fakirs (2014) کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیرِ اعظم فقیر سید عزیز الدین کی ڈائری کے کچھ حصوں کا فارسی سے براہِ راست انگریزی ترجمہ کرنے پر بھی موصوف اہلِ فن سے داد پاچکے ہیں، جس کا فاضل مولف نے اپنے ابتدائیے میں بجا طور پر اعتراف کیا ہے۔ آج کل وہ نغماتِ آصفی کی تدوین و ترجمہ مکمل کرنے کے بعد اِس کے حواشی و تعلیقات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments