نائلہ کا قانون: نیویارک میں کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون کو پاکستان نژاد نائلہ کے نام سے کیوں منسوب کیا گیا؟

محمد زبیر خان - صحافی


'میں نہیں چاہتی کہ کم عمری اور زبردستی کی شادی میں، میں نے جو عذاب سہے ہیں وہ دنیا کی کسی اور عورت کو برداشت کرنا پڑے۔ میری جدوجہد صرف پاکستان، مسلمانوں اور ترقی پزیر ممالک کے شہریوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ اور باقی دنیا کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔'

یہ الفاظ پاکستانی نژاد امریکی انسانی حقوق کی کارکن نائلہ امین کے ہیں۔

امریکہ کی ریاست نیو یارک میں حال ہی میں ایک قانون متعارف کروایا گیا جس کے تحت 18 سال سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون کے لیے نائلہ امین نے طویل جدوجہد کی ہے۔

یہ قانون کو نائلہ قوانین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

نائلہ امین کو کم عمری کی شادی کے لیے مہم چلانے پر امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر کئی ایوارڈز دیئے گے ہیں اور کئی امریکی اور بین الاقوامی اداروں کے سیمیناروں سے وہ خطاب کر چکی ہیں۔

اس وقت امریکہ کی کل 50 ریاستوں میں سے صرف چھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں پر کم عمری کی شادی کو اب تک غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ باقی کی ریاستوں میں کم عمری کی شادی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کم عمری کی شادی کے بعد کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو امریکہ میں شادی کی بنیاد پر سپانسر کیا جاسکتا ہے۔

نائلہ امین کہتی ہیں کہ ‘ابھی میری جدوجہد پوری نہیں ہوئی ہے۔ پورے امریکہ اور دنیا میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دلوانے کے لیے مہم اور جدوجہد جاری ہے۔ امریکہ میں وفاقی سطح پر مہم کے لیے بل تیار کررہے ہیں۔

‘امید کرتی ہوں کہ جلد ہی میری طرح ویزا سپانسر، نام نہاد خاندانی غیرت اور جھوٹی انا کی خاطر کسی اور لڑکی کو صرف پندرہ سال کی عمر میں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ میری طرح کوئی اور لڑکی کم عمری میں مسائل کا شکار ہو کر اپنے بچپن کے سنہری دور سے محروم نہیں ہوگی۔ یہ اقوام عالم کی اجتماعی ذمہ داری ہے جس کے لیے میں سب کے ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہوں۔’

نائلہ امین کون ہیں؟

نائلہ امین کی پیدائش صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے ایک گاؤں فارمولی میں ہوئی ہے۔ وہ چار سال کی تھیں جب اپنے والدین کے ہمراہ امریکہ منتقل ہوگئیں تھیں۔ سات سال کی عمر میں انھیں امریکہ کی شہریت مل گئی تھی۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ ایک مرتبہ پھر اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان اپنے آبائی علاقے میں آئیں۔

نائلہ امین بتاتی ہیں کہ ‘میں، میرے والدین اور میری چھوٹی بہنیں اب امریکن شہری ہیں۔ بدقسمتی یہ تھی کہ میرے والدین پڑھے لکھے نہیں تھے۔ میری والدہ تو بالکل ہی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ ان کی شادی چودہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا علاقہ اور خاندان مکمل طور پر روایت پسند پختون ہے۔ جہاں پر مرد زبان دیتے ہیں اور اس زبان کا پاس رکھنے کے لیے بیٹیوں اور بہنوں کو قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ‘میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میرے چچا نے میرے والد کو کہا کہ نائلہ ہماری ہوگئی ہے۔ والد نے فورا ہی حامی بھر لی۔ یہ کوئی باضابطہ منگنی نہیں تھی مگر دو بڑوں کا ایک دوسرے سے وعدہ تھا۔’

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ ‘جس کے ساتھ میری شادی کے وعدے ہورہے تھے وہ مجھ سے پندرہ سال بڑا تھا اور میں اس کو لالہ کہتی تھی۔ اس کے بعد میں واپس امریکہ آگئی اور ایک بار پھر 13 سال کی عمر میں دوبارہ گاؤں گئی۔ اس دفعہ میری باضابطہ منگنی اور نکاح ہوا تھا۔ اب میں کچھ سمجھ دار بھی ہوگئی تھی۔

‘مجھے سمجھ میں آگیا کہ یہ شادی درحقیقت ویزے کے حصول کے لیے کی جارہی تھی۔ اس کے لیے مجھے قربانی کا بکرہ بنایا جارہا تھا۔ منگنی کے بعد امریکہ واپس آکر میرا رویہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ جس پر گھر میں بھی مجھ پر سختی شروع ہوئی تو میں نے گھر ہی چھوڑ دیا۔

انھوں نے بتایا: ‘میں چودہ سال کی عمر میں بچوں کی ایک پناہ گاہ میں پہنچ گئی، جہاں پر میں کئی ماہ تک مقیم رہی۔ بچوں کی اس پناہ گاہ میں میں واحد مسلمان لڑکی تھی۔ وہاں پر حلال کھانوں کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ جب والد نے مجھے کچھ تسلی دی تو میں واپس اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔’

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس طرح ہوا مگر ہم سنہ 2015 میں ایک بار پھر پاکستان میں اپنے آبائی علاقے میں تھے۔ جہاں پر میرے نہ چاہنے کے باوجود 15 سال کی عمر میں میری رخصتی کردی گئی تھی۔

تین دفعہ فرار کی کوشش اور تشدد

نائلہ امین کہتی ہیں کہ ‘شادی کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ بس اسلام آباد پاکستان میں نور مقدم کا کیس اور اس کے ساتھ ہونے والے حالات کو دیکھ لیں۔ میں خوش قسمت تھی کہ زندہ بچ کر امریکہ پہنچ گئی۔ بس، نور مقدم کی قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔’

ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ سب سے پہلا ظلم شادی کے شروع کے دونوں میں ہوا جب زبردستی میں میرا شوہر قرار دیئے جانے والے شخص نے میرے ساتھ زبردستی کی تھی۔ اس نے مجھ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔

نائلہ امین نے کہا: ‘میں نے سوچ لیا تھا کہ زندگی ایک مرتبہ ملتی ہے۔ میں اپنی زندگی کو اس طرح ضائع نہیں کرسکتی ہوں۔ اس کے لیے میں نے فرار کے منصوبے بنانا شروع کردیئے۔ میں نے تین دفعہ فرار کی ناکام کوشش کی۔’

نائیلہ امین نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ‘پہلی مرتبہ اپنے گاؤن سے اٹک کے بس اسٹینڈ تک پہنچی وہاں سے بس میں اکیلی بیٹھ کر اسلام آباد پہنچ گئی تھی۔ اسلام آباد تو پہنچ گئی مگر مجھے اب پتا نہیں تھا کہ آگے کیا کرنا ہے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ اپنی ایک کزن کو فون کیا تو وہ مجھے لے کرواپس گاؤں پہنچ گئی۔

کم عمری کی شادیاں

'دوسری مرتبہ برقعہ بدل کر فرار ہونے کی کوشش کی مگر پھر پکڑی گئی۔ تیسری مرتبہ بھی ایسے ہی ہوا۔ تینوں مرتبہ مجھے میری ساس اور نام نہاد شوہر سے سخت جسمانی مار پڑی۔ میرے نام نہاد شوہر نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کے علاوہ انتہائی بے رحمانہ سلوک کیا تھا۔

‘تشدد سے میری گردن اور پیٹھ پر نشانات پڑ جاتے تھے۔ ناک او رمنہ سے خون نکلتا۔ سردی کے موسم میں برہنہ کرکے فرش پر لٹاتا اور کہتا کہ یہ تمھارا جسم ہے مگر اس پر تمھارا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ تشدد کا ہر حربہ آزماتا تھا۔’

قدرت کو ترس آ گیا

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ ‘اس دوران مجھے لگا کہ وہ مجھے غیرت کے نام پر قتل کرکے کسی ویران مقام پر دفنا دیں گے۔ میں امریکہ میں بچوں کی جس پناہ گاہ میں رہی تھی، وہاں کے اپنے کیس انچارج کا نمبر اپنی اسی کزن کو دیا اور اس کو کہا ان کو بتا دے کہ میری زندگی خطرے میں ہے۔’

انھوں نے بتایا: ‘میری اس کزن جس نے مجھے فرار ہونے میں مدد تو نہیں کی تھی مگر شاید سمجھ گئی تھی کہ اگر مجھے فی الفور مدد نہ ملی تو مجھے ممکنہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا جاسکتا تھا۔ اس کو مجھ پر ترس آیا یا جو کچھ بھی ہوا۔ اس نے امریکہ میں میرے کیس انچارج کو فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔

‘جس کے بعد امریکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستان میں امریکی سفارت خانہ فعال ہوا۔ میرے کیس انچارج نے میرے والد کو فون کیا اور کہا نائلہ امریکی شہری ہے۔ اس کو کوئی نقصاں پہنچا تو اس کی ساری ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔’

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان والد نے ان کے نام نہاد سسرال والوں سے بات کی۔ ان کو کوئی تسلی وغیرہ دی کہ اب حالات خراب ہوچکے ہیں اور امریکہ جانا لازم ہو گيا ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے اور یہ کہ وہ حالات کو ٹھیک کرلیں گے۔ میرے شوہر کو فی الفور شادی کی بنیاد پر سپانسر کروا کر امریکہ بلا لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس طرح دو ماہ کے بعد میں ایک روز دوبارہ نیو یارک کی طرف سفر کررہی تھی۔ جب نیو یارک ایئر پورٹ پر پہنچی تو وہاں پر ہر طرف وردی میں پولیس اہلکار موجود تھے۔ جہاز کے عملے کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ میرا خصوصی خیال رکھا جائے۔

‘تمام مسافر بھی حیران و پریشان تھے کہ یہ لڑکی کوئی دہشت گرد ہے جس کو لینے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں پولیس اہلکار آئے تھے۔ جہاز سے اترتے ہی انھوں نے مجھے اپنی تحویل میں لے کر بچوں کی پناہ گاہ میں پہنچا دیا تھا۔’

جبر شادی

پاکستان اور انڈیا میں کم عمری میں شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہیں

ایک انٹرویو نے زندگی بدل دی

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ میں 18 سال کی عمر تک بچوں کی پناہ گاہ میں رہی۔ وہاں پر میری تعلیم متاثر ہوچکی تھی مگر میں نے کچھ کورسز کرلیے تھے۔ جب میں اٹھارہ سال کی ہوئی تو ایک بار پھر میرا میرے والدین سے رابطہ ہوا۔ انھوں نے مجھ سے معذرت کی۔ میرے والد نے مجھے سے کہا کہ وہ غلط تھے اور میں صیح تھی۔

انھوں نے بتایا: ‘میں دوبارہ اپنے والدین کے پاس آگئی تھی۔ تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش شروع کی۔ اس دوران کچھ ملازمتیں وغیرہ بھی کیں۔ یہ سنہ 2015 کا واقعہ ہے امریکہ میں افغان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم وومن فار افغان وومن کے زیر انتظام سیمنار میں مجھے بھی بلایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں نمایاں کمی: یونیسیف

‘ہر سات سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر کی ایک بچی بیاہ دی جاتی ہے’

’لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال کرنے کی تجویز‘

‘مجھے کہا گیا تو میں نے اپنی کہانی سنا کر دل کی بھڑاس نکالی۔ اسی سیمنار میں ایک خاتون صحافی بھی موجود تھیں۔ انھوں نے میری کہانی پر انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جس نے تہلکہ مچا دیا۔’

نائلہ نے کہا کہ اس سیمنار اور انٹرویو کے بعد انھیں ایک راہ نظر آنے لگی جس پر انھوں نے اندھا دھند چلنا شروع کردیا۔

عملی جدوجہد کے ساتھ ہی کامیابیوں کا آغاز

نائلہ امین نے بتایا: ‘میں نے سب سے پہلے چینج ڈاٹ کام پر ایک پٹیشن ڈالی۔ جس میں کم عمری کی شادی کے نقصانات کا بتا کر اس پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ اپنی کچھ کہانی بھی بیان کی تھی۔ اس پیٹیشن پر بہت سے لوگوں نے دستخط کیے۔ اسے ہر طرف سے سراہا گیا۔ مجھے مختلف سیمنارز میں بھی مدعو کیا گیا۔

انھوں نے کہا: ‘اس کے ساتھ ساتھ میں سوشل میڈیا پر بھی فعال رہی۔ پاکستان، افغانستان، انڈیا، بنگلہ دیش، کینیا اور دیگر ممالک سے کئی کم عمر اور زبردستی کی شادی کا شکار لڑکیوں کو مدد فراہم کرکے ان کو واپس ان کے اپنے ملک امریکہ لانے میں مدد فراہم کی۔’

کم عمری کی شادیاں

ان کے مطابق ہر ایک کی کہانی رونگٹھے کھڑے کردینے والی ہے۔ بہت سی لڑکیاں نہیں چاہتی ہیں کہ ان کی کہانیاں منظر عام پر آئیں۔ لیکن اب وہ مطمئیں زندگی گزارنے کے علاوہ نائلہ کی مہم کا بھی حصہ ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے قانون سازی کے لیے باقاعدہ مہم شروع کردی تھی۔ وہ تمام ارکان پارلیمنٹ کو ای میل کرتیں، خطوط لکھتیں۔ ان کے ساتھ میٹنگز کرتیں۔ پبلک مقامات پر پروگرام کرتیں۔ شروع میں تو انھیں زیادہ نوٹس نہیں کیا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے توجہ دینا شروع کردی تھی۔

‘اب میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیو یارک کی ریاست کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی کام کررہی ہوں۔ ہمارے ساتھ بہت بڑا گروپ اکھٹا ہوچکا ہے۔ اب ہماری کوشش ہے کہ کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون کو امریکہ میں وفاق کی سطح پر منظور کروایا جائے۔

اب بھی دھمکیاں ملتی ہیں

نائلہ امین کا کہنا ہے کہ میں اب وہ بہتر اور کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ ‘میں چاہتی ہوں کہ وکیل بنوں تاکہ ہر ایک کو انصاف فراہم کرسکوں۔ جس کے لیے جدوجہد کررہی ہوں۔ یہ جدوجہد ساری دنیا کے لیے ہے۔ میں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں مجھے پاکستان اور اپنا علاقہ بہت یاد آتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے علاقے میں جاوں۔ مگر میرے دل میں اب بھی خوف بیٹھا ہوا ہے۔ میں چاہنے کے باوجود نہیں جارپارہی ہوں۔’

نائلہ امین کا کہنا تھا کہ انھیں اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں مختلف سوشل میڈیا پر اکثر یہ پوسٹ ہوتی ہیں کہ جب بھی موقع ملا قتل کردی جائیں گیں۔ ‘مجھ پر ناجائز الزامات لگائے جارہے ہیں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں یہ سب کچھ پیسوں کے لیے کررہی ہوں حلانکہ میں نے اس جدوجہد پر اپنی کمائی خرچ کی ہے۔

‘میں نے اپنے علاقے میں خواتین کی پسماندگی دیکھی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی چشم دیدہ گواہ ہوں۔ دلی خواہش ہے کہ اپنے علاقے میں جا کر خواتین کی تعلیم کے لیے کام کروں۔ ان میں شعور پیدا کروں۔ دیکھیں کبھی زندگی میں یہ خواہش پوری ہوتی ہے کہ نہیں!’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp