ترقی اور اجتماعی خود کشی میں کیا فرق ہے؟


دنیا پن بجلی کے ڈیم توڑنے کے فکر میں مبتلا ہے۔ ہم پن بجلی کے نئے ڈیم بنانے کے بارے میں فکر مند اور پر جوش ہیں۔ اوپر سے عوام میں اسے اپنا عظیم ترین کارنامہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اور ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا یہ بھی دعوی ہے کہ ہم دنیا سے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں، اور ماحولیات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

دنیا اس وقت ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے طریقے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس باب میں بے شمار ہنگامی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک بڑا قدم توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جا رہی رہی ہے۔ ابھی ابھی اقوام متحدہ نے ماحولیات کے باب میں ”ریڈ الرٹ“ جاری کیا ہے۔ اس کی تفصیلات ڈرا دینے والی ہیں۔ دنیا کو اپنی بقا کے لیے ماحولیات پر سن دو ہزار پچاس کے ٹارگٹ پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے دنیا کو اس وقت موجود پن بجلی کے روایتی ڈیم توڑ کر ان کی تعداد کم کرنی پڑے گی، تاکہ مقررہ ٹارگٹ کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے دس سال میں دس ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ دس برس کے قلیل عرصے میں پن بجلی کے دس بڑے ڈیم بلا شبہ روایتی سوچ کے مطابق ایک حیرت انگیز کام ہوگا، جس کے اعلان پر حکومت کے پر جوش حامی خوشی سے سرشار ہیں۔ یہ کام تین چار دہائیاں قبل ہوتا تو بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ یقیناً ایک بڑا کارنامہ تصور ہوتا۔ مگر اس کام کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا گا کہ ماحولیات کے بارے میں پہلے سے فکرمند لوگوں کو اس اعلان نے مزید فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی سائنس کی الف ب پ سے واقف ہیں، وہ ماحول پر اس از حد حریص طلب منصوبے کے گہرے اور تباہ کن اثرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ماحولیات کے حوالے سے اس وقت دنیا کا ”ٹارگٹ“ یہ ہے کہ سن دو ہزار پچاس تک درجہ حرارت کو ایک مخصوص حد سے نیچے رکھا جائے۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں ناکامی کے خوفناک نتائج ہوں گے۔ اب تک اس پر اتنا لکھا اور بولا جا چکا ہے کہ دنیا بڑی حد تک اس سے آگاہ ہے۔ اس آگہی کے باوجود ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کوا تنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا، جتنا سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس باب میں ہماری حکمران اشرافیہ لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

کئی وسائل کی کمی کا رونا ہے۔ کئی سائنسی آگہی و علم پر یقین کی کمی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہماری وہ روش برقرار ہے، جو ہمیں بڑی آہستگی، مگر یقینی طریقے سے تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ پاکستان اس باب میں پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس ملک کی ہوائیں اور فضائیں زہر آلود ہو چکی ہیں۔ پانی خطرناک حد تک آلودہ ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے ہر بڑے شہر کے نیچے زمین میں موجود پانی کے زہر آلود ہونے کی رپورٹ آئی ہے۔

مگر حکمران اس مسئلے کو وہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو اس کا متقاضی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کو توانائی کی ضرورت ہے، اور ہم نے اس ضرورت کو پورا کرنا ہے، خواہ اس کی قیمت آنے والی نسلوں کی تباہی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں بے شمار ایسے کام کر رہے ہیں، جو ماحولیاتی تباہی اور آلودگی کا باعث ہیں۔ ان میں ایک کام متبادل ذرائع کے بجائے پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے ڈیم بنانے پر زور دینا ہے۔

حالاں کہ یہ اب سائنسی حقیقت ہے کہ ڈیم اور آبی ذخائر دنیا بھر کے دریاؤں کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ اس وقت دنیا آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کے ایک اہم دور میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور میں پالیسی سازوں کو لازمی طور پر پن بجلی کی ترقی اور صحت مند میٹھے پانی کے ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے طریقوں پر غور کرنا پڑے گا۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے میٹھے پانی کے سائنسدان اور ایک مشہور مطالعے کے مرکزی مصنف مائیکل تھیم کہتے ہیں، ”جب دریا کی صحت، آب و ہوا کی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے ضیاع کی بات آتی ہے، تو ہم اب ان کو الگ الگ مسائل کے طور پر سوچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دریا جنگلی حیات اور کمیونٹیوں کو صحت مند رکھنے کے لیے طاقتور ایجنٹ ہیں، لیکن ان کی زندگی کو ہائیڈرو پاور ڈیموں سے خطرہ لاحق ہے۔

اس معرکتہ الارا مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آزاد بہنے والے دریاؤں کے تمام موجودہ اور مجوزہ ڈیمز کو عالمی سطح پر درجہ حرارت کو مطلوبہ سطح پر رکھنے کے لیے سن دو ہزار پچاس تک توانائی کا 2 فیصد سے بھی کم پیدا کرنا پڑے گے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ انسان اور جنگلی حیات جو ان دریاوں پر انحصار کرتے ہیں، تباہی و بربادی سے بچ سکتے ہیں۔ مربوط اور صحت مند دریا متنوع فوائد فراہم کرتے ہیں، جنہیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ان فوائد میں میٹھے پانی کی مچھلیوں کے ذخائر جو لاکھوں لوگوں کے لیے غذائی تحفظ کو بہتر بناتے ہیں۔ ان فوائد میں تلچھٹ کی ترسیل ہے، جو زراعت کی پرورش کرتی ہے اور ڈیلٹا کو بڑھتے ہوئے سمندروں کی سطح سے اوپر رکھتی ہے، اور سیلاب کے میدان ہیں جو سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حیاتیاتی تنوع کی دولت ہے، جو صحت مند زندگی کے لیے لازم ہے۔

انسانیت کا مستقبل قابل تجدید توانائی میں ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم حقیقت پسندانہ حل نکالیں جو کہ بہتے ہوئے دریاؤں کے وسیع فوائد کے ساتھ ساتھ عوام کی صاف توانائی کی ضرورت بھی پوری کرے۔

محققین نے موسمیاتی اہداف اور توانائی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے سائنس پر مبنی پالیسی حل مرتب کیے ہیں۔ یہ ایسے حل ہیں، جن کے ذریعے بہتے ہوئے دریاؤں اور ان کے ذریعے انسان اور فطرت کے فوائد کی حفاظت بھی ممکن ہے۔ کئی ایک محققین کے مطالعے ایسی مثالوں کا خاکہ پیش کرتے ہیں، جہاں حکومتوں نے کامیابی کے ساتھ ان حکمت عملیوں کو نافذ کیا ہے۔ اس حکمت عملی میں جو اقدامات شامل ہیں، ان میں دریاؤں کو باضابطہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے متبادل توانائی کے ذرائع، جیسے پن بجلی کے بغیر قابل تجدید توانائی، شمسی اور ہوا کی توانائی کے ذریعے دریاؤں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ توانائی کے متبادل نظام کی منصوبہ بندی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کا بہترین حل ہے، اور دریاؤں کے آزادی سے بہنے سے و فوائد منسلک ہیں، ان کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔

دریاؤں پر ڈیموں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اگر ان کی تعمیر ناگزیر ہے تو یہ تعمیرات ایسے مقامات پر ہوں، جہاں سے لوگوں اور فطرت پر کم اثرات مرتب ہوں۔ ماحولیاتی بہاؤ جیسی ٹیکنالوجیز ڈیم کے اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہیں، تاکہ پانی کو ڈیموں کے ذریعے اس طرح منتقل کیا جا سکے، جو قدرتی بہاؤ کو کم ازکم متاثر کرتا ہو۔

اس سلسلے میں امریکہ کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، جہاں اس وقت نوے ہزار کے قریب پن بجلی کے ڈیم ہیں۔ لیکن ڈیم توڑ کر دریاؤں کی اصل شکل میں بحالی اس وقت امریکہ میں ایک مقبول راستہ پے۔ اس کی وجہ پن بجلی کے ڈیم کی دیکھ بھال کے زیادہ اخراجات اور ارد گرد کے ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات ہیں، جو طویل تجربے اور تحقیق کے بعد تسلیم کیے جا چکے ہیں۔ امریکی تجربے کی روشنی دنیا توانائی کے حصول کے لیے ترقی اور تباہی کے درمیان واضح فرق کر سکتی ہے۔ توانائی کے حصول کا وہ راستہ جو کسی قوم کو اجتماعی خودکشی کی طرف کے جا رہا ہو، اس سے اجتناب ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments