یادوں کا سحر


انسانی فطرت کے رچاؤ میں یادوں کی خوبصورتی کا ایک گلشن آباد ہوتا ہے۔ جس میں یادوں کے کچھ یادگار اور کچھ درد بھرے لمحات شامل ہوتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت سے نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے، جو اپنی کرامات کے باعث سوچ و خیال کو ماضی میں لے جاتا ہے۔ کبھی یہ دستک انسان کو زور سے سنائی دیتی ہے اور کبھی آہستہ لیکن قلب و ذہن پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔

انسان کی زندگی میں جو دن بیت گیا وہ واپس نہیں آتا۔ یہ شب و روز کا خوبصورت سنگم ہے، جس میں دن، مہینے، سال اور صدیوں کا جنم ہوتا ہے۔ یوں ہر دن اپنی یادوں کے خوبصورت پھول اور کانٹے اگاتا ہے۔ تو کسی کو اس گلشن میں خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور کسی کو درد کا البتہ دار و مدار حساسیت اور چناؤ پر ہے۔

تاریخ کے جھروکوں میں یادوں کا بھی الگ سا میلا ہوتا ہے۔ جس میں تربیت و نصیحت بھی شامل ہوتی ہے، اور آنے والے وقت کے لئے آگاہی بھی۔ یاد نئی ہو یا پرانی وہ اپنی قدر و قیمت کسی موسم کبھی نہیں کھوتی۔ جب ماضی کے واقعات دل کش ہوں تو بنی آدم کی فطرت میں یادوں کا میلا لگ جاتا ہے۔

البتہ کچھ ناخوشگوار یادیں بھی ہوتی ہیں جن کا کرب صلیب جیسا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ خیالات کے بہاؤ میں شدت پیدا کرتی ہیں، تو فطرت میں ایک ایسا طوفان آتا ہے جو اچھے خیالات کو بھی اڑا کر لے جاتا ہے۔

بلاشبہ یادیں خوشیوں اور غموں کی زنجیر سے بندھی ہوتی ہیں۔ ان کو جس سرے سے بھی پکڑو وہ اپنی تلاش اور اپنائیت کا احساس ضرور دیں گئی۔ بچپن سے بڑھاپے تک یہ ایک طویل مسافت ہے جو تین ادوار سے گزر کر مثلث بناتی ہے۔ زندگی نعمت خداوندی ہے نہ اس کا شروع ہے اور نہ آخر۔ بس ایک بہاؤ ہے جو نسل در نسل چلا رہا ہے۔ کیونکہ ہر دور کی اپنی چاشنی اور لطافت ہوتی ہے جو ارادوں اور جذبات کو تعبیر بخشتی ہے۔

یقیناً وفا سے ایسے چشمے جاری ہوتے ہیں جو رشک و تحسین کی دولت بن کر ہماری ضرورت پوری کرتے ہیں۔

البتہ یادوں کی خوبصورتی میں ایسے رنگ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جہاں جاذبیت اور اپنائیت ذہن کی پردہ سکرین پر بار بار دستک دیتی ہے۔ انسان کبھی افسردہ اور کبھی خوش باش ہوتا ہے۔ لیکن جن باتوں اور یادوں کا تعلق کامیابی سے ہوتا ہے وہ ذہن کو ہمیشہ تروتازگی کا احساس مہیا کرتی ہیں۔

اور روح کو جب ایک نئی طاقت ملتی ہے تو اس میں توانائی کے ذخائر موجود ہوتے ہیں۔ تو انسان کے بجھے ارادوں کا چراغ پھر سے روشن ہو جاتا ہے۔ جس سے انسان کے اندر خوشی کا نہ ختم ہونے والا احساس آنکھوں کی زینت بن کر حسرتوں کا ایک نیا جہان آباد کر لیتا ہے۔

نیکی کا وجود کبھی ختم نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایسا بیج ہے جو ہمیشہ پھل دیتا ہے۔ اس میں ذائقے کی وہ تمام چاشنی اور لطافت شامل ہوتی ہے جہاں روح و قلب سیر و آسودہ ہو جاتے ہیں۔ جذبات و خیالات کا اظہار کرنا بھی ایک قدرتی امر ہے، جس سے انسان کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، جہاں واقعات، قصے، کہانیاں، ارمان، کامیابیاں، ناکامیاں اسے یادوں کے محل میں لیتی ہیں۔

ہماری زندگی میں کچھ رشتوں کا تقدس ایک ایسے لبادے میں لپٹا ہوتا ہے جہاں ان کی محبت کا قرض ادا نہیں ہوتا۔ دراصل محبت کی ڈوری سے جذبات اس قدر پیوست ہوتے ہیں، کہ اگر دل سے جدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ بار بار اپنا دامن پھیلا کر انسان کو لپیٹ لیتے ہیں۔

یہ بھی ایک قدرتی امر ہے کہ چاندنی راتوں میں جذبات کی لہریں آسمان و زمین کے درمیان ایسے محو گردش ہوتی ہیں، جیسے انہوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر اپنی منزل کو پا لیا ہے۔ یقیناً جب انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو جائے تو وہ ایک ایسے جہاں میں کھو جاتا ہے۔ جہاں خوشیوں کی برسات، روشنی کے چراغ، باتوں کی خوشبو، محبت کا گلشن اور یادوں کی سحر انگیزی ماحول میں ایسی مطابقت پیدا کر دیتی ہے کہ اس کے اثرات نفسیات کے ساتھ ایسے نتھی ہوتے ہیں کہ وہ نفوذ کی جگہ خود بخود بنا لیتے ہیں۔

البتہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی میں غموں کی گھٹائیں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں جہاں انہیں اندھیرے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ نہ وہ برستی ہیں اور نہ وہ اڑھتی ہیں۔

اگر اس بات کا فکری تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی دکھ سکھ کا ایک خوبصورت بندھن ہے اور جب تک زندگی کے ایام نصیبوں سے نتھی ہوتے ہیں وہ اس وقت تک

یادوں کا کھیل تماشا کھیلتے ہیں۔

یہ بھی زندگی کا منفرد پہلو ہے کے یاد تو ان لوگوں کی بھی زندہ رہتی ہے جنھوں نے دکھ دیا ہو، ستایا ہوں، رلایا ہو، برباد کیا ہو نا حق باتیں کیں ہوں، جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہو، الزام تراشی سے سولی پہ چڑھایا ہو۔ تو انسان کے دل کا موسم خزاں جیسا رہتا ہے، جس میں دکھوں کی ہوائیں تھپڑ مارتی ہیں۔

دنیا میں یہ بھی ایک انوکھا کام ہے کہ ہر کوئی اپنی اقدار و روایات کو زندہ رکھنا چاہتا ہے، لیکن تاریخ اس کے ساتھ کیا تماشا کرتی ہے ہم سمجھ نہیں پاتے۔ کیونکہ ہماری فطرت میں ایسی باتوں کا رچاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، جہاں خواہشات کے سمندر بہتے ہیں۔ لیکن اس سے قسمت کی کوئی ندی نالا ضرور نکل آتا ہے، جو دل کی زمین سیراب کرتا ہے۔ کبھی کبھی ہماری فطرت میں موجوں کی ایسی طغیانی شروع ہوتی ہے، جیسے فطرت اپنے مناظر میں کروٹیں بدل بدل کر اپنی رعنائیاں ظاہر کرتی ہے۔

انسان کے ذہن کی یہ قدرتی شجرکاری ہے کہ وہ فطرت سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہے۔ اس لیے اس کی ترجیحات میں ایسے واقعات، مقامات، اور حسین یادوں کے مناظر بسے ہوتے ہیں جہاں ان کا عکس سایہ بن کر سکون دیتا ہے۔ یوں تو ہماری زندگی کا ہر دن اپنی یاد کے نقش بناتا ہے، لیکن زندگی کے سفر میں چند ایسی بھی یادیں ہوتی ہیں جو اپنی خاصیت و اعتبار کے لحاظ سے لاثانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ لہذا نہ وہ ٹوٹتی اور نہ وہ بکھرتی ہیں۔

دکھوں کی بھی الگ سی کیمیا گری ہے، کیونکہ یہ اچانک اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور جاتے جاتے ایسے مضر اثرات چھوڑ جاتے ہیں، جن کے نشان زندگی بھر کے لیے تحفہ بن جاتے ہیں۔ بلاشبہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دکھ ہمدردی کا پیراہن پکڑ کر دوسروں کے دلوں میں احساس کی امید پیدا کرتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے کا دکھ بانٹ سکیں۔

دنیا میں کچھ ایسے روحانی لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر بانٹتے ہیں۔ دکھ تو کٹ جاتا ہے اور تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی نفسیات ایسی ڈگر کی قائل ہوتی ہے جہاں بہار اور خوش حالی کا دامن ہو وہاں اپنے قدم جما لیتے ہیں۔ یقیناً ایسا تخلیق کردہ ماحول انسانیت کے لیے کڑی آزمائش بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہر انسان اپنے اعمال پر نظر رکھے، انسانیت سے پیار کرے، دوسروں کے کام آئے، مثبت خیالات کو فروغ دے، دکھی لوگوں کا پرسان حال بنے، تو آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں اور یادوں کا ایسا گلشن آباد ہو سکتا ہے جہاں خوشی اور محبت کی بہار لوٹ کر آ سکتی ہے۔ اور یوں دنوں مہینوں اور سالوں کی فاصلے پل بھر کے فیصلے سے سمٹ سکتے ہیں۔

بلاشبہ زندگی کی حقیقی معنویت اور مقصدیت اجاگر کرنے کے لئے یاد ایسے آلہ کا کام دیتی ہے جو خلوص اور محبت کی زبان بن کر دوسروں کو زندگی کی آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی چشم بینا صداقت ہے۔ یادیں خواہ بچپن کی ہوں، جوانی کی ہوں، یا بڑھاپے کی ہوں ان میں ذاتی احساسات اور انفرادی وجدان ضرور شامل ہوتا ہے، جو حقیقت کا ترجمان بن کر مزاج میں تبدیلی اور نکھار لاتا ہے۔

ہمیشہ اچھی یادوں کا وقار و مرتبہ ایسے نغمات گاتا ہے، جس سے حوصلہ اور امید کی سریں پیدا ہوتی ہیں۔

اگرچہ یہ خوشگوار یادیں جوش و جذبہ سے لبریز ان بیتے واقعات و لمحات کے ترجمان ہوتی ہیں جہاں کامیابیوں اور کامرانیوں نے دستک دیا ہوتا ہے۔

بلاشبہ یاد ایک ایسے اجلے موتی کا احساس دیتی ہے، جو وجود کی کرچیاں بکھرنے نہیں دیتا اور روح کو حسد کی آگ میں جلنے نہیں دیتا ہے۔ اچھی اور کھری یادیں اپنا تشخص نسلوں تک برقرار رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان سے وابستہ انسان کی شخصیت کے ہمہ گیر پہلو اور نئی پھوٹتی شعوری روایات شامل ہوتی ہیں۔

یادوں کی بھی ایک کلاسیکل روایت ہے نسل در نسل چلی آ رہی ہے، کیوں کہ جب عقل و شعور میں پختگی آتی ہے تو گفتگو کا لب و لہجہ تبدیل ہو کر نئے اسلوب میں ڈھل جاتا ہے اور جب انسان ان یادوں کو طبع لطیف سے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہے، تو اسے وقت کی قدر بھی ہوتی ہے اور روحانی آسودگی بھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوں کی چھاپ روح میں اپنے اثرات مرتب کرتی جاتی ہے۔ ایسے مذکورہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی ایک ایسے خط پر مرکوز کریں جہاں

یادوں کے خوبصورت زاویے ایسی عمارت کی بنیاد رکھیں جو آندھیوں اور طوفانوں کے باوجود بھی مسمار نہ ہوں۔

یقیناً جب ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو گا، عہد و پیماں سچے ہوں گے، اقدار و روایات کا چرچا ہوگا، سادگی و پاکیزگی ہو گی، حسرتوں کے روشن چراغ ہوں گے تو کئی نسلوں کو ایسی روشنی منتقل ہو گئی جس کے باعث

یادوں کا ایک سحر ہوگا جس میں وفا کے عناصر بھی شامل ہوں گے۔ چونکہ ہماری زندگی کے واقعات کے درمیان ایک بڑا شگاف ہوتا ہے جسے بھرتے بھرتے وقت کی دہائیاں لگتی ہیں۔

لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انسان کے اندر یادوں کی ایک چھپی ہوئی فلاسفی ہے۔ جس میں ہمارے جذبات، ارمان، خیالات، وفائیں، آشائیں اور خوشیوں کے عکس پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ انہیں دل کے آئینے سے دیکھا جائے تو یادیں شگفتہ، پاکیزہ اور دل کشی کے احساس سے بھری ہوتی ہیں۔ چونکہ جب فطرت اور یادوں کا ملاپ ہوتا ہے تو جذبات کا آنگن وسیع رتوں کی بہار پیدا کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments