ابرار الحق کی پاکستانی ماؤں پر تنقید اور خواتین کا ردِعمل: ’ابرار کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں؟‘

منزہ انوار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


’بچہ پانچ سال کا ہو گیا اور تم نے ابھی تک اس کا فیڈر نہیں چھڑوایا؟ ہمارے بچے تو تین سال کی عمر میں خود باتھ روم چلے جاتے تھے۔‘

’تم نے اسے ابھی تک پیمپر پہنا رکھا ہے؟‘

’دھوپ میں زیادہ کھیلنے دیتی ہو گی اسی لیے اتنا کالا کو گیا ہے۔‘

’تم تو اسے کھانا ہی نہیں کھلاتی، دیکھو کتنی کمزور ہو گئی ہے۔‘

پاکستان میں ماؤں کو اپنے کی ہی بچوں کی پرورش کے حوالے سے ایسے مفت مشورے آئے روز سننے کو ملتے ہیں لیکن جب ایسا ہی مشورہ ایک مرد کی جانب سے دیا جائے تو ان ماؤں کا ردِعمل کیا ہو گا؟

حال ہی میں کچھ ایسا ہی ہوا جب تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف گلوکار ابرا الحق نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں موضوع سے ہٹ کر خواتین اور بالخصوص ماؤں پر تنقید کی۔

’ہم جب اپنی ماں کی گود میں ہوتے تھے تو ہمیں کلمہ ملتا تھا سننے کو۔۔۔ آج کے بچے کو فون دے دیتی ہے ماں ہاتھ میں اس پر لگا ہوتا ہے بے بی شارک۔۔۔‘

ان کی تقریر کا یہ کلپ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور اس پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ ایک طرف وہ حلقہ ہے جو ابرار کی باتوں سے متفق نظر آتا ہے جس میں زیادہ تر تعداد مرد حضرات کی ہی ہے۔

تاہم خواتین کی جانب سے ابرارالحق کی اس بات پر زیادہ تر تنقید ہی دیکھنے میں آئی ہے۔

بی بی سی نے چند ماؤں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے انھیں اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے کس قسم کے مشورے یا کیسی کیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور وہ ان پر عمل کرتی ہیں یا نہیں۔

’کھانے کے دوران آئی پیڈ دینے پر سب سے زیادہ طعنے ملتے ہیں‘

صبا نومانی دو بچوں کی والدہ ہیں۔ وہ بچوں کی پرورش کے حوالے سے ان چاہے مشوروں کو مشورے نہیں طعنے کہتی ہیں۔

’90 فیصد مواقع پر لوگ ماں کی مدد کے لیے مشورہ نہیں دے رہے ہوتے بلکہ اسے طعنہ مار رہے ہوتے ہیں۔‘

صبا بتاتی ہیں ’سب سے زیادہ طعنے تو کھانا کھلاتے ہوئے آئی پیڈ دینے پر ملتے ہیں کہ تم اسے آئی پیڈ کے ساتھ کیوں کھانا کھلا رہی ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ نہیں جاتنے کہ بچے آئی پیڈ پر ایجوکیشنل ویڈیوز یا کارٹون دیکھ رہے ہیں اور میں ان کے وقت کا حساب رکھتی ہوں اور اس حوالے سے بہت محتاط ہوں کہ وہ وقت ضائع نہ کریں اور الٹی چیزیں نہ دیکھیں۔‘

ایسے ہی ایک اور مشورے کے متعلق انھوں نے بتایا کہ اگرچہ اس حوالے سے ڈاکٹروں کی رائے متضاد ہے لیکن اکثر کا ماننا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو چار ماہ سے کم عمر میں ٹھوس غذا نہیں دینی چاہیے لیکن تیسرے مہینے ہی میرے اردگرد کے لوگوں نے پریشر ڈالنا شروع کر دیا کہ اسے ٹھوس غذا کیوں نہیں دیتیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ جانے بغیر کے ان کے شوہر کے خاندان کو انڈے سے شدید الرجی ہے ہر کوئی انھیں یہی کہتا کہ ’اسے انڈہ کھلاؤ‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب معاملہ زیادہ بڑھا تو میں نے ڈاکٹر سے بات کی اور الرجی کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر نے بھی مجھے بچے کو انڈہ دینے سے منع کر دیا۔

’مگر اس کے باوجود مجھے یہی سننے کو ملتا ’ہم تو بچے کو انڈہ ضرور کھلاتے تھے۔۔۔ یہ آج کل کی لڑکیاں تو پرورش کے حساب سے بات ہی نہیں سنتیں۔‘

’بچے کو بوتل پر لگاؤ‘

صبا بتاتی ہیں کہ مائیں اگر اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلائیں تو اس پر بھی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور اگر پلا رہی ہوں تو اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ ’تمھاری تو وٹامن کیلشیم سب ختم ہو جائے گی، بچے کو بوتل پر لگاؤ۔‘

’اور لوگ تو چھوڑیں، میری اپنی والدہ نے ایک دن مجھے کہا کہ تم اسے فیڈ کیوں کراتی ہو، اسی لیے بچی کو تمھاری اتنی عادت ہو گئی ہے کہ تمھارے بغیر رہتی نہیں۔‘

ابرار الحق کی جانب سے ماؤں پر کی جانے والی تنقید کے حوالے سے صبا کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں رہتے ہوئے اب یہ عادت بن گئی ہے کہ عورتوں کا مذاق اڑائیں گے اور باقی سب اس پر ہنسیں گے کہ دیکھو کتنی مزاحیہ بات کی۔۔۔ لیکن جب میں نے ابرار کی تنقیدی ویڈیو پر مردوں کے تبصرے دیکھے تو مجھے بہت ہی برا لگا جیسے باقی مردوں کو بھی شہہ مل گئی ہو۔‘

’ابرار نے ایک ماں کے اوپر غیر ضروری پریشر ڈالنے اور تہمت لگانے والی بات کی ہے۔ ہم پہلے ہی کبھی کوئی طعنہ سنتے ہیں کبھی کوئی۔۔۔ اب تو لوگ کہیں گے ابرار بھی تم ماؤں ے بارے میں کہتا ہے کہ آج کل کی ماؤں کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا اور وہ جان چھڑانے کے لیے بچوں کو آئی پیڈ پکڑا دیتی ہیں۔‘

صبا کا کہنا ہے کہ ابرار کی تنقید سے لوگوں کو ’بچوں کی پرورش کے حوالے سے ماؤں پر تنقید کرنے کا ایک اور حربہ مل جائے گا۔۔۔ ایک سلیبرٹی کے طور پر ابرار کو ماؤں کی اس طرح سے حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

رفع حاجت میں دشواری ہوئی تو مجھے سنایا گیا ’ضرور تم نے کچھ کیا ہے‘

صحافی انعم لودھی کے بیٹے کی عمر صرف چھ ماہ ہے تاہم اس مختصر وقت میں بھی انھیں اپنے بچے کی پرورش کے حوالے سے بہت سے مشورے ملے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ظاہر ہے ہر بچہ مختلف ہوتا ہے اور جو چیزیں ہمارے ماں باپ کے زمانے میں چل جاتی تھیں وہ آج کل ممکن نہیں۔‘

ان کے مطابق انھیں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ’ہم نے بچے پالے ہوئے ہیں، ہمیں پتا ہے لہذا ایسے پرورش کرو۔‘

انعم نے اپنے بیٹے جو جب اپنا دودھ پلانا شروع کیا تو اس پر انھیں کہا گیا ’تمھارے لیے مسئلہ ہو گا، ساری زندگی بچے کو دودھ پلاتی رہو گی۔‘ ان کے مطابق اسی طرح ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

’لیکن اگر میں اسے بوتل سے دودھ بھی دیتی ہوں تو مجھے یقین ہے اس پر بھی کئی تجاویز سننے جو ملیں گی، مثلاً کیوں دے رہی ہو بوتل ماں کا دودھ کیوں نہیں پلا رہی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کو دس، پندرہ دن تک رفع حاجت میں دشواری ہوئی جس پر انھیں کہا گیا: ’ضرور تم نے کچھ کیا ہے۔‘

’اس طرح کی باتوں سے ماں کو گلٹی فیل کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انعم کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بچے کی پرورش کو لے کر ماؤں کا مذاق اڑانا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یقیناً تجربے کی اپنی جگہ ہے لیکن ہر ماں باپ اور ماںاور بچے کی اپنی صحت اور گھر کے سو مسائل ہوتے ہیں اور ماؤں کو دس پندرہ منٹ کے لیے ان کی توجہ ہٹانے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لیے وہ مختلف طریقے اختیار کرتی ہیں۔

’لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کام کرنے والے والدین خاص کر ماؤں کے لیے بچے پالنا آسان نہیں اور مشورے تب تک ٹھیک ہیں جب تک آپ ان ماؤں کے حالات کا مذاق نہ اڑائیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’حمل کے دوران سنی سنائی باتوں پر ہرگز نہ جائیں‘

اندام نہانی کے پانچ حقائق ہر خاتون کو معلوم ہونے چاہییں

کیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟

نادیہ حسین: ’ابرار کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں؟‘

بطور ماں ماڈل نادیہ حسین کو ابرار الحق کا تبصرہ انتہائی ناگوار گزرا۔ انھوں نے اس حوالے سے سوشل ٹیڈیا پر بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نادیہ خان کا کہنا تھا کہ ’ابرار الحق خود ہی یہ کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں اور اپنے مفروضوں کی بنیاد پر ان کی تربیت پر سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں۔‘

نادیہ کا ماننا ہے کہ آج کل کی ماؤں کا پچھلی نسل کی ماؤں سے موازنہ ممکن ہی نہیں کیونکہ ہماری مائیں اس طرح ورکنگ وویمن نہیں تھیں جیسے ہم ہیں۔’آج کل سب کچھ آن لائن ہے۔ بچوں کی کلاسز تمام تعلیم تک آن لائن ہوتی ہیں۔‘ وہ پوچھتی ہیں کہ اگر بچوں سے یہ ٹیکنالوجی کے آلات لے لیں تو وہ کیسے سیکھیں گے۔نادیہ حسین کہتی ہیں کہ اگر ابرار آج کل کی ماؤں پر تنقید کے بجائے یہ کہتے کہ ’چونکہ آج کل سب کچھ ٹیکنالوجی پر منحصر ہے لہذا ماں باپ کو زیادہ محتاط اور زیادہ علم رکھنا چاہیے کہ ان کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں اور انھیں بچوں کے ساتھ زیادہ انگیج ہونا پڑے گا۔۔۔ اگر وہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسا پیغام دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔‘نادیہ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اگر پچھلی نسل کی ماؤں کی تربیت اتنی اچھی تھی تو آج کل ہمارے ملک کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں، ابرار پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کی تربیت اگر کلمے سے کی گئی تھی تو آپ کیسے بلو کے گھر پہنچ گئے؟ آپ کے گانوں نے ہماری نئی نسل کو کیا سکھایا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp