طالبان کی بھارت کو تعلقات استوار کرنے کی پیش کش، مودی حکومت ‘خاموش’ کیوں؟


بھارت نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد تاحال جنگجو گروپ کے ساتھ تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔
نئی دہلی — افغان طالبان کے سینئر رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے بھارت کو تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی پیش کش کی ہے جس پر تاحال بھارت کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے سے لے کر اب تک بھارت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ لہذٰا بیرونی دنیا کے ردِعمل سے قبل بھارت بھی طالبان سے متعلق کوئی دو ٹوک پالیسی نہیں اپنائے گا۔

البتہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پیر کو کہا کہ بھارت کابل کی سیکیورٹی کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ملک دشمن طاقتیں افغانستان کی صورتِ حال کا فائدہ اٹھا کر بھارت میں دہشت گردی نہ کرنے پائیں۔

دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے ہفتے کو نشر ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ برِصغیر کے لیے بھارت ایک اہم ملک ہے۔ طالبان اس کے ساتھ ثقافتی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی رشتے رکھنا چاہتے ہیں۔

ستنکزئی نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ فضائی اور تجارتی راہداری کو بھی کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔

ذرائع کے مطابق طالبان رہنما بھارت اور افغانستان کے درمیان اس فضائی راہداری کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

افغان خبر رساں ادارے ’طلوع نیوز‘ نے ستنکزئی کے حوالے سے کہا ہے کہ طالبان قیادت فی الحال مختلف نسلی گروپس اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے تاکہ ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو افعانستان کے اندر اور باہر بھی قابل قبول ہو۔

قبل ازیں 1996 میں جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس میں شیر محمد ستنکزئی نائب وزیر خارجہ تھے۔ اس وقت بھی انہوں نے ایسے ہی بیانات دیے تھے۔

شیر محمد ستنکزئی (فائل فوٹو)
شیر محمد ستنکزئی (فائل فوٹو)

اس بار انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب بھارت نے کابل میں اپنے سفارت خانے کا عملہ واپس بلا لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ستنکزئی کے بھارت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی و تجارتی رشتے کو اہمیت دینے اور ان رشتوں کو برقرار رکھنے کے بیان کو بھارت میں اہمیت تو دی جارہی ہے مگر اسے محتاط انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔

رشتوں میں بہتری کا اشارہ

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان رہنما عباس ستنکزئی کا یہ بیان طالبان کے تعلق سے تمام فریقوں کے ساتھ بھارت کی خفیہ یا اعلانیہ سفارت کاری کے بارے میں مہینوں کی قیاس آرائیوں کے درمیان آیا ہے۔

ان کے مطابق ستنکزئی کے ویڈیو بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت اور طالبان کے درمیان رشتوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ بھارت اگست کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر ہے۔ اس لیے بھی طالبان نے بھارت کے لیے اپنے رویے میں تبدیلی کی ہے۔

کیا بھارت کے مؤقف میں نرمی آ رہی ہے؟

خیال رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سلامتی کونسل کی جانب سے 15 اگست کو ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں واضح طور پر طالبان کا نام لیا گیا تھا۔

اس بیان میں یہ اپیل کی گئی تھی کہ طالبان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

رپورٹسں کے مطابق اب 27 اگست کو سلامتی کونسل کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں طالبان کا نام شامل نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی افغان گروپ یا انفرادی شخص کو دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سلامتی کونسل کے بیان میں یہ تبدیلی طالبان کے متعلق بھارت کے بدلتے نظریے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماضی کے واقعات کے پیشِ نظر بھارت بہت ہی سنبھل کر چل رہا ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ طالبان سابقہ طالبان سے مختلف ہیں۔ ابھی تک ان کے جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

’بھارت کو یہ پیشکش مسترد نہیں کرنی چاہیے‘

راجیو ڈوگرہ نے شیر محمد ستنکزئی کے بیان کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ تمام قسم کے رشتے استوار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ بھارت کو بہت محتاط ہو کر آگے بڑھنا ہے لیکن اسے طالبان کی اس پیش کش کو مسترد بھی نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق بھارت پہلے یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ افغانستان میں کیسی حکومت بنتی ہے۔ جب تک حکومت نہیں بن جاتی وہ کوئی مؤقف کیسے اختیار کر سکتا ہے۔ بغیر حکومت بنے وہ کس سے تعلقات قائم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے طالبان بھارت میں سفارت خانہ فعال کریں۔ کیوں کہ جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ سابقہ عملے کو نہیں رکھے گی۔ اس لیے پہلے طالبان اپنا سفیر بھارت بھیجیں اور اپنا عملہ فعال کریں اس کے بعد ہی بھارت دیکھے گا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔

رشتے استوار کرنے کی ضرورت

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ رشتے استوار کرنے چاہئیں۔ کیونکہ اس نے افغانستان کی تعمیر نو میں تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔

راجیو ڈوگرہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے مفادات ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بھارت قندھار واقعہ کو فراموش کر کے نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے۔

خیال رہے کہ دسمبر 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے نئی دہلی آنے والی انڈین ایئر لائنز کی پرواز کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا جس کے بعد اس پرواز کو امرتسر، لاہور اور دبئی کے بعد قندھار ایئر پورٹ پر اُتارا گیا تھا۔

ہائی جیکرز اور انڈین حکام کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بھارتی جیلوں میں قید کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگرز کی رہائی کے عوض پرواز کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

راجیو ڈوگرہ کے مطابق پاکستان، ترکی، روس، چین اور ایران وغیرہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ افعانستان کی نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات اور مضبوط کریں گے۔ ان ملکوں کے سفارت خانے بھی کام کر رہے ہیں۔ بھارت کو اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔

ان کے مطابق اگر بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار نہیں رکھے گا تو اس کے اپنے مفادات کا تحفظ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ نئی حکومت مذکورہ ممالک کے زیرِ اثر آسکتی ہے۔

راجیو ڈوگرہ کے مطابق بھارت کو زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی پالیسی مرتب کرنا ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ لیکن آگے چل کر اسے وہاں کی نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے ہوں گے ورنہ اسے نقصان ہو گا۔

راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں بھارت مغربی ممالک کے اقدامات کا بھی انتظار کر رہا ہے۔ خاص طور پر ’کواڈ گروپ‘ کیا پالیسی اپناتے ہیں، اس پر بھارت کی نظر ہے۔

خیال رہے کہ بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چار ملکوں نے ’کواڈ گروپ‘ قائم کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس گروپ کے قیام کا مقصد بحر الکاہل خطے میں چین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے۔

سلامتی کونسل کے بیان پر نئی دہلی میں نکتہ چینی

جب راجیو ڈوگرہ سے یہ پوچھا گیا کہ بھارت کی صدارت میں جاری ہونے والے سلامتی کونسل کے بیان میں پہلے کی مانند طالبان کا نام نہیں لیا گیا ہے تو کیا اسے طالبان کے تعلق سے بھارت کے رویے میں نرمی تصور کیا جائے؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کے اس تازہ بیان میں طالبان کا نام نہ لینے پر نئی دہلی میں نکتہ چینی ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق اس بیان کے حوالے سے نئی دہلی کے سیاسی حلقوں میں سوال کیا جا رہا ہے کہ بھارت نے طالبان لفظ کیوں نکال دیا۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس نے جھک کر بات کی ہے۔ لیکن ان کے خیال میں بیان کی یہ تشریح مناسب نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں تمام دہشت گرد گروپوں کی بات کہی گئی ہے اور اس میں طالبان بھی آگئے۔ ان کے خیال میں اس پر بہت زیادہ نکتہ چینی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

شیر محمد ستنکزئی نے اپنے بیان میں ایران کا ذکر کرتے ہوئے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا بھی حوالہ دیا۔ راجیو ڈوگرہ کے خیال میں بھارت نے چاہ بہار کی تعمیر میں اس لیے حصہ لیا تھا تاکہ وہ اس کے توسط سے افغانستان تک با آسانی رسائی حاصل کر سکے۔ لیکن طالبان رہنما نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔

طالبان رہنما نے اپنے بیان میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ حکومت سازی کے بعد اس منصوبے کو درپیش مسائل حل کیے جائیں گے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما نے بھارت کے ساتھ تجارت کی بات تو کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ تجارت دو طرفہ ہوگی یا نہیں۔

پاکستان نے افغان تاجروں کو اپنی مصنوعات پاکستان کے راستے بھارت بھیجنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن بھارتی مصنوعات کو اپنی سرزمین کے راستے افغانستان بھیجنے کی اجازت کبھی نہیں دی۔

حقانی نیٹ ورک کا معاملہ

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے بارے میں طالبان رہنما کے اس بیان کا ایک مقصد عالمی دہشت گردی کی فہرست سے حقانی نیٹ ورک کو باہر نکلوانا بھی ہے۔

ان کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھارت کا مؤقف انتہائی سخت رہا ہے اور وہ طالبان کو دہشت گرد گروپ مانتا رہا ہے۔

لیکن حالیہ مہینوں میں سلامتی کونسل یا اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اس کے جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ بہت محتاط رہے ہیں اور ان میں طالبان کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

ان کے خیال میں ستمبر میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں بھارت ”طالبان پابندی کمیٹی“ کے چیئرمین کی حیثیت سے حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں رکھنے یا نہ رکھنے کے معاملے پر تبادلۂ خیال کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کا محتاط رویہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے دوحہ سمجھوتے کے فریم ورک کے اندر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل کابل پر قبضہ کرنے کے بعد شیر محمد ستنکزئی نے غیر رسمی طور پر بھارت سے رابطہ قائم کیا تھا اور کابل سے سفارتی عملے کو نہ نکالنے کی اپیل کی تھی۔

لیکن بھارت نے ان کی اپیل کو نظرانداز کرتے ہوئے سفارت خانے کے عملے کو واپس بلا لیا تھا۔

خیال رہے کہ شیر محمد ستنکزئی نے 1980 کے اوائل میں افغان فوجی کی حیثیت سے ریاست اتراکھنڈ کے ڈیرہ دون میں واقع انڈین ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کی تھی۔ اس وقت ان کے ساتھی انھیں ’شیرو‘ کہہ کر بلاتے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments