طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ


فائل فوٹو
پشاور — افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں حالیہ چند روز کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے زیادہ تر وارداتوں میں بیشتر حملوں کا نشانہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بنے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی عہدیدار بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں کابل میں برسرِ اقتدار طالبان سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے انتظامی عہدیداروں، صحافیوں اور قبائلی باشندوں کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق 15 اگست سے اب تک سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے مجموعی طور پر ڈیڑھ درجن سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات شمالی وزیرستان میں پیش آئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرِستان میں 14، جنوبی وزیرستان میں چار، باجوڑ اور بنوں میں دو دو جب کہ ایک واقعہ لوئر دیر میں رپورٹ ہوا ہے۔

گو کہ سرکاری طور پر بعض واقعات کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم سرحد پار افغانستان میں روپوش عسکریت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ترجمان کے ذریعے ان واقعات میں سے 14 کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پیش آنے والے بعض واقعات کی تصدیق پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے اپنے جاری کردہ بیانات میں بھی کی ہے۔

ماضی قریب میں حکومتی عہدیدار دہشت گردی کے واقعات کا الزام سرحد پار افغانستان میں روپوش عسکریت پسندوں سمیت افغانستان اور بھارت کے جاسوسی کے اداروں پر لگاتے رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد اب حکومتی عہدیدار ان واقعات میں کمی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر دو روز قبل باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کا الزام ایک بار پھر سرحد پار افغانستان میں روپوش عسکریت پسند تنظیم پر لگایا گیا ہے۔

تازہ ترین واقعات

گزشتہ دو روز کے دوران افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے تین قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر دو سیکیورٹی اہلکاروں اور تین دہشت گردوں سمیت چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے باجوڑ میں دہشت گردوں سے جھڑپ کی تصدیق کی ہے لیکن شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی۔

ان تینوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے قبول کی ہے۔

دہشت گردی اور تشدد کے ان تمام واقعات میں ہونے والے جانی نقصانات کے متضاد اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تازہ واقعات

جنوبى وزيرستان کے علاقے بدر مانڑہ میں اتوار کو ہونے والے بم دھماکے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیلات اب تک سامنے نہیں آئیں۔

اسی طرح شمالی وزیرستان کے انتظامی عہدیداروں کے مطابق اتوار کو میران شاہ میں سیکیورٹی فورسز کے لیے راشن لے جانے والی نجی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ڈرائیور ہلاک اور اس کا ساتھی شدید زخمی ہوا ہے۔

سرکاری طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ان واقعات کے بارے میں اب تک کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

گھات لگا کر قتل کی وارداتیں

دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی حالیہ لہر میں زیادہ تر واقعات کا ہدف سیکیورٹی فورسز بتائے جاتے ہیں لیکن اس دوران شمالی وزیرستان میں تین عام شہریوں کو بھی گھات لگا کر قتل کیا گیا ہے۔

گھات لگا کر قتل کیے جانے والوں میں شمالی وزیرستان کے نوجوانوں کی تنظیم کے بانی نور اسلم داؤڑ بھی شامل ہیں۔ جنہیں نامعلوم حملہ آوروں نے 27 اگست کی شام شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے نواحی گاؤں میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے ایک بیان میں نور اسلم داؤڑ کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

مقامی قبائلیوں کے مطابق 2016 سے لے کر اب تک شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر قتل کے 400 سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں وہ سرکردہ قبائلی رہنما اور وہ نوجوان ہلاک ہوئے ہیں جو حکومت اور حکومتی اداروں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ اور سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی عسکریت پسندی اور دہشت گردی ایک مخصوص ذہنیت کا نام ہے اور اس پر قابو پانا یا اسے ختم کرنا اب کسی ایک ملک کے بس میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی میں ملوث گروہ اور افراد اب نام تبدیل کر کے اپنی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس ذہنیت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ ذہنیت رکھنے والوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہ پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔

سید اختر شاہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کے علاوہ دیگر گروہ بھی سرگرم ہیں جن میں داعش سرِ فہرست ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حالیہ حملے کے بعد لگتا ہے کہ اس گروپ پر قابو پانا طالبان کے بس میں بھی نہیں ہے۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی

طالبان رہنماؤں اور ترجمان کی جانب سے مسلسل اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی کو بھی پاکستان کے خلاف افغان سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک تازہ بیان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان معاملات کو فریقین کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اور دیگر رہنماؤں کو مبارک باد پیش کی تھی۔

پاکستانی حکام پرامید ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments