پاکستان میں سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے کیوں روکا گیا؟


فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان میں وفاقی حکومت نے تمام سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سرکاری ملازم بغیر اجازت کوئی میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتا ، اس سلسلہ میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے آفس میمورنڈم بھی جاری کر دیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس پابندی کو آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن کے مترادف قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ سرکاری ملازمین کو حساس معلومات شئیر کرنے سے روکنا درست ہو سکتا ہے۔ لیکن شہری ہونے کے ناطے وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی صدف بیگ کہتی ہیں کہ تمام سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا سے دور کرنے کے بجائے اگر کوئی کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔

حکومت کے مطابق سرکاری معلومات اور دستاویزات افشا ہونے سے روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

میمورینڈم کے مطابق سرکاری ملازم بغیر اجازت کوئی میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتا، میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کی پاسداری کریں۔

رولز 1964 سرکاری ملازم کو کسی بھی بیان بازی یا رائے دینے سے روکتا ہے۔ سروس رولز کا رُول 18 سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا کسی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکتا ہے۔

حکم نامے کے مطابق ملازمین کے بیان یا کسی بھی موضوع پر رائے سے حکومت کی بدنامی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حکومتی وارننگ کے باوجود سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال جاری ہے۔

سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم بغیر اجازت فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کی کوئی بھی ایپلی کیشن استعمال نہیں کر سکے گا۔تمام سرکاری ملازمین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسے خیالات کے اظہار سے روکا گیا ہے جن سے قومی سلامتی یا دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

اس کے علاوہ پبلک آرڈر، شائستگی یا اخلاقیات، توہینِ عدالت یا ہتکِ عزت یا کسی جرم کی ترغیب دینے یا فرقہ وارانہ عقائد کا پرچار کرنے کی بھی ممانعت ہو گی۔

جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جاری کردہ ان ہدایات کا مقصد کسی سرکاری ادارے کی طرف سے حکومتی پالیسی پر عوامی ردعمل، خدمات میں بہتری کے لیے تجاویز لینے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے سوشل میڈیا کے تعمیری اور مثبت استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔

اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری میڈیا ریگولیشن سے متعلق تمام موجودہ قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق تمام موجودہ قوانین کو منسوخ کیا جا رہا ہے اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئی قانون سازی کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے الیکٹرونک، پرنٹ، ڈیجیٹل اور ابھرتے ہوئے میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ‘ایچ آر سی پی’ نے اس نوٹی فکیشن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو حساس معلومات شئیر کرنے سے روکنا اچھا عمل ہو سکتا ہے لیکن اس پابندی کی آڑ میں ان کی رائے کے اظہار کو روکنا آزادی سلب کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

صدف بیگ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو اپنے ذاتی استعمال میں معلومات حاصل کرنے اور ذاتی تعلقات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان پر مکمل پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ ان کی ذاتی زندگی میں حکومت کی مداخلت کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پابندی صرف ان کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نہیں بلکہ ان کے اس سے منسلک حقوق پر پابندی بھی ہے۔ سرکاری ملازمین کا کنڈکٹ بہتر بنایا جائے تو حساس اور سرکاری معلومات لیک ہونے سے روکی جا سکتی ہے لیکن انہیں سوشل میڈیا سے ہی دور کردینا ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments