دل ولایت میں اور دعائیں کابل کے لئے


طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سوشل میڈیا پر اوورسیز پاکستانیوں کے کمال کے تجزیے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ لوگ جس طرح اپنے جذبہ ایمانی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان پر سر دھننے کو دل کرتا ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ سترہ سال امیگریشن ڈیپارٹمنٹ میں جاب کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ میں یورپ میں بسنے والے اکثر تارکین وطن شہریوں کی سفر ہجرت کی روداد جانتا ہوں اس لئے بعض دفعہ ان کے تجزیے پڑھ کر سر دھننے کی بجائے سر پکڑنا پڑ جاتا ہے مثلاً عین اس دن جس دن طالبان نے کابل پر قبضہ کیا جمیل شاہ صاحب نے کمنٹ کیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب ہو اگر مومن ہو۔ شاہ صاحب کا اسائیلم کیس یہ تھا کہ انہوں نے ایک یورپی کمیشن کو بتایا تھا کہ انہیں اپنے ملک سے اس لئے بھاگنا پڑا تھا کہ انہیں مومنین کے ایک مذہبی گروپ سے جان کا خطرہ ہے۔ دعا ہے کہ پناہ دینے والے کمیشن کا کوئی ممبر ان کا حالیہ تبصرہ پڑھ نہ لے۔

افغانستان میں عورتوں کو گھر بٹھائے جان پر ایک صاحب ایمان و ثروت کا تبصرہ تھا کہ عورت لفظ کا ترجمہ ہی پردے میں رکھنے والی شے ہے۔ موصوف نے ابھی کچھ مہینے پہلے ہی مجھے فخر سے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کو ایک بنک میں جاب مل گئی ہے۔ اسی گروپ میں کسی سر پھرے نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں اب کہیں دوبارہ بچیوں کے سکول بند نہ ہو جائیں تو اس کے نیچے ملک اشتیاق صاحب کا کمنٹ تھا کہ تم جیسے لبرل اور مغربی آقاؤں کو خوش کرنے والے کیا جانیں کہ بچیوں کے لئے دینی تعلیم ہی کافی ہے۔

حالانکہ ملک اشتیاق صاحب نے مجھے جو اپنی کہانی سنائی تھی اس کے مطابق وہ اسپین میں رہتے تھے۔ ایک ریستوران چلا رہے تھے۔ ان کی بیٹی ہائی سکول میں پڑھ رہی تھی۔ ایک دفعہ ان کی بہن دبئی سے آئی۔ کپڑے استرے کرنے کے لئے اس نے اپنی بھانجی سے کہا کہ بیٹا آئرن لے کر آؤ۔ تو ملک صاحب کی بیٹی ادھر ادھر دیکھنا شروع ہو گئی کیونکہ ہسپانوی زبان میں استری کو آئرن نہیں بلکہ پلانسا کہتے ہیں۔ ملک صاحب کی بہن ہنسنا شروع ہو گئی۔ ملک صاحب کو محسوس ہو گیا کہ ان کی بیٹی تو پڑھ لکھ کر بھی انگریزی بولنے والوں کو مقابلہ نہیں کر سکے گی انہوں نے اپنا ریسٹورنٹ بیچا اور برطانیہ شفٹ ہو گئے۔ اب ان کی بیٹی ماشاءاللہ فرفر انگریزی بولتی ہے اور اپنی آنٹی کی غلطیاں نکالتی اور ان پر ہنستی ہے

جمشید پروانہ صاحب کا فون ابھی کچھ مہینے پہلے ہی تو آیا تھا۔ بتا رہے تھے چودھری صاحب برطانیہ کمال کا ملک ہے۔ ہم نے تو اٹلی میں رہ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ بتانے لگے میری بیٹی نے اٹلی میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن وہ کئی مہینوں سے بے روزگار تھی۔ اٹلی ایک متعصب ملک ہے۔ ہمیں یہاں آئے ابھی چار ماہ بھی نہیں ہوئے کہ میری بیٹی کو ایک لا فرم میں جاب مل گئی ہے۔ تنخواہ بھی لے رہی ہے اور آئندہ تعلیم بھی جاری رکھ سکے گی۔

چنگ چی میں چھیڑے جانے والی خواتین کا واقعہ ہویا افغانستان میں برقعے کی مانگ میں اضافے کی خبر ان کا تبصرہ یہی تھا کہ بے شک ہمارے مذہب میں عورت کا کسی نا محرم کے بغیر باہر نکلنا منع ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ پروانہ صاحب کی بیٹی کورٹ جائے گی تو کون سا محرم ساتھ لے کر جائے گی اور ہمارے مذہب میں یہ کہاں لکھا ہے کہ غیر محرم کے بغیر عورت گھر سے باہر نہیں نکل سکتی

عبیداللہ صاحب کا تبصرہ تھا کہ افغانستان کی فتح جہاد فی سبیل اللہ کا ثمر ہے۔ عبیداللہ صاحب نے مجھے پچھلے سال ہی پوچھا تھا کہ یورپی پاسپورٹ پر کینیڈا کیسے منتقل ہوا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا ساری دنیا برطانیہ آ رہی ہے اور آپ یہاں سے کینیڈا منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ بولے جناب یہ بھی کوئی ملک ہے۔ یہاں کا لیونگ اسٹینڈرڈ انتہائی پینڈو ہے۔ یہاں نہ تو لوگوں کو کپڑے پہننے کی تمیز ہے اور نہ ہی گفتگو کرنے کا ڈھنگ۔ دیسیوں کے محلے چلے جاؤ تو لگتا ہے کہ وہ تیس سال پرانے دور میں رہ رہے ہیں۔ ان کی گلیوں میں کچرا اور پلاسٹک بیگ اڑتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کاغذ والے بن میں کاغذ، پلاسٹک والے بن میں پلاسٹک اور کوڑے والے بن میں کوڑا پھینکنا نہیں آتا۔ میں چاہتا ہوں میرے بچے کسی ایسے ملک میں رہائش اختیار کریں جہاں ان کا معیار زندگی بلند ہو۔

راجہ صاحب نے افغانستان میں موسیقی بند ہونے پر جملہ لکھا ہے کہ اسلام میں موسیقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ ان کا اپنا بیٹا ہر سال سکول کے سالانہ فنکشن میں کیا کمال کا وائیلن بجاتا ہے کہ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ لاہور میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرانے والے مجاہد کو محمود غزنوی سے ملانے والے ساہی صاحب کو شاید علم نہیں کہ ان کا بیٹا فائن آرٹس پڑھ رہا ہے۔ اور قریشی صاحب کو کسی نے بتایا نہیں ہے کہ ان کا بیٹا ایک بہترین مقرر ہے۔ وہ ایک انتہائی بائیں بازو کی پارٹی کا ممبر ہے اور اپنی ہر تقریر میں تارکین وطن مخالف پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ ایک سیکولر جمہوری پارٹی ہی شہریوں کے بلا تفریق حقوق کی ضامن ہوتی ہے۔

ہم سمندر پار مقیم پاکستانی عجیب ہیں ہم کئی دہائیوں سے جمہوریت، رول آف لاء، شخصی آزادی اور جنسی مساوات جیسے حقوق سے نہ صرف استفادہ کر رہے ہیں بلکہ ان میں سے کسی بھی قسم کے حق نہ ملنے کی صورت میں کورٹ چلے جاتے ہیں۔ ہم ایسی کمپنیوں سے رابطے میں رہتے ہیں جو کسی بھی ادارے کی جانب سے میڈیکل غفلت یا تعصب کی صورت میں معاوضہ کا کیس کر سکیں۔ لیکن جوں ہی کسی دوسرے ملک کے شہریوں کے بارے بات کرنے لگتے ہیں تو ہم سب متقی بن جاتے ہیں۔

ہم ایک یورپی ملک سے کسی دوسرے بہتر ملک منتقل ہونے کی معلومات تو لیتے رہتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں جس نظام کو ہم آئیڈیل سمجھتے ہیں ان ممالک میں منتقل نہیں ہوتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی افغانستان کے شہریوں کو امن نصیب کرے اور انہیں بھی وہ سب حقوق ملیں جن کے حصول کے خاطر لوگ سمندروں اور صحراؤں کو پار کرتے ہیں یا جن کی خاطر جہازوں سے لٹک کر موت لینے میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments