پاکستان اور افغانستان تعلقات کا نیا منظر نامہ


تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر، مولوی فقیر محمد کو دیگر کئی قیدیوں کے ساتھ 15 اگست 2021 کو بگرام جیل، افغانستان سے رہا کر دیا گیا ہے۔ بادی النظر میں ایسا نہیں لگتا کہ قیدیوں کی یہ رہائی حادثاتی طور پر ہوئی یا پھر ان قیدیوں کو جشن فتح کے طور پر چھوڑا گیا بلکہ فاتحین نے اس سب کی مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ کن قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس رہائی کی سیاسی مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔ اس شبہ کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پل چرخی جیل یا پروان جیل ابھی بھی خالی نہیں ہیں اور داعش کے جن قیدیوں نے افغان جیلوں سے بھاگنے کی کوشش کی ان کی لاشوں پر گولیوں کے نشان ملے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھاگنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

پشتون معاشرے میں قبائلی و نسلی عصبیت کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اشرف غنی کو کابل چھوڑ کر فرار ہونا پڑا مگر طالبان کے اولین دشمن، جن کے ہاتھ طالبان قیادت کے خون سے رنگے ہیں، حامد کرزئی، ابھی تک نا صرف کابل میں ہی ہیں بلکہ طالبان سے بلا خوف و خطر شراکت اقتدار کے مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حامد کرزئی اور طالبان کے روحانی سرپرست ملا محمد عمر، ایک ہی، پوپلزئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح طالبان نے شمالی اتحاد کی شورش کو قابو میں رکھنے کے لیے ماں کی طرف سے تاجک، سابق افغان صدارتی امیدوار، عبداللہ عبداللہ، جو افغان خانہ جنگی میں شمالی اتحاد کے سربراہ، احمد شاہ مسعود کی مشیر بھی رہے ہیں، کو بھی گفتگو میں شریک رکھا ہے۔

پاکستان میں طالبان کے کابل پر قبضے کا جشن مناتے لوگوں کے سامنے مشکل سوالات ہیں۔ اگر طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو رہا کیا ہے تو پاکستان کے لیے اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا طالبان بھارت مخالف جاتے ہوئے پاکستان کو وہ تزویراتی گہرائی اور گیرائی فراہم کریں گے جس کا خواب پاکستان نے ہمیشہ دیکھا ہے؟ اگر طالبان افغانستان میں شریعت نافذ کرتے ہیں تو کیا پاکستان میں بھی طالبانی نظام شریعت نافذ ہو گا؟ طالبان کے کابل پر قبضے کے کیا مقامی اور علاقائی اثرات مرتب ہوں گے، بالخصوص سرگرم مسلح جتھے اور متشدد دھڑے اس سے کیا سبق حاصل کریں گے؟

ان سوالات کے جوابات مشکل بھی ہیں اور پیچیدہ بھی کیونکہ یہ اور ان جیسے کئی دیگر سوالات کے تسلی بخش جوابات پانے اور پیش آمدہ حالات سے نمٹنے کے لیے بنیادی تصورات ہی پاکستان میں واضح نہیں ہیں چنانچہ اندیشہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مشکلیں بڑھتی جائیں گی۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ہو گا کہ مذہب اور سیاست الگ الگ ہیں اور اب دونوں کو متراکب کرنے کا انجام افراتفری اور بدامنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ طالبان بھلے جتنے بھی مذہبی ہوں، سیاسی مجبوریاں بہرحال مذہب سے بالاتر ہیں۔ مسائل یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ اس سب کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے قبائلی و نسلی عصبیتیں بھی موجود ہیں۔

ایسٹ ترکستان موومنٹ نامی جہادی گروہ جو بالخصوص چین میں مسلح کارروائیوں کے لیے شہرت رکھتا ہے وہ بھی طالبان کا حامی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے سے کچھ ہی عرصہ پہلے امریکی انتظامیہ نے ایسٹ ترکستان موومنٹ کو زیر عتاب دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے خارج کیا تھا۔ مستقبل قریب میں یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ چینی حکومت اور طالبان کیسے ایسٹ ترکستان موومنٹ اور اس کے پیچھے چھپے اصل خطرے، اویغور مسلمانوں کے مسئلے سے نمٹتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر چین نے حالیہ پیش رفت میں طالبان کے لیے غیر معمولی نرم گوشہ رکھا ہے۔ چند ہفتے پہلے ہی چینی وزیر خارجہ ’وانگ یی‘ نے ملا برادر کی سربراہی میں طالبان وفد کی میزبانی کی تھی۔

یہ صورتحال پاکستان کے لیے تشویش ناک ہو سکتی ہے کیونکہ اویغور مسلمانوں کے موضوع سے پاکستان دامن بچاتا رہا ہے مگر اب یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ طالبان کا چینی امداد کے بدلے اویغور مسلمانوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے کا سیدھا مطلب ان کا داعش سے اتحاد ہو سکتا ہے جو لازمی طور پر خطے میں پاکستانی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ اس کے علاوہ طالبان کا اسلامک موومنٹ آف ازبکستان سے اتحاد بھی پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا خواب چکنا چور کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر وسط ایشیائی ریاستوں کی خوشنودی کے لیے اگر طالبان اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی مخالفت کرتے ہیں تو شمالی افغانستان میں مضبوط اسلامک موومنٹ آف ازبکستان شمالی اتحاد کی طرف ہاتھ بڑھائے گی جو پہلے ہی طالبان پر خار کھائے بیٹھے ہیں۔

طالبان مذہبی طور پر سنی دیوبندی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ داعش سلفی اہلحدیث مکتب فکر کی حامل جماعت ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہر دو بزعم خود اسلامی شریعت کے نفاذ کے دعویدار گروہ باہم متحارب ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان بھی سلفی رجحانات رکھتی ہے چنانچہ تحریک طالبان پاکستان کی نظریاتی وابستگی افغان طالبان کی نسبت داعش سے زیادہ ہے۔ ہرچند کہ طالبان اس وقت دارالحکومت میں ایستادہ ہیں لیکن پاکستانی سرحد سے متصل مشرقی صوبوں، کنڑ، نورستان اور لغمان میں سلفیوں کی تعداد زیادہ ہے اسی لیے طالبان کو ترکانی قبائل کی ماموند شاخ سے تعلق رکھنے والے مولوی فقیر محمد کو رہا کرنا پڑا جن کی قبائلی رشتہ داریاں کنڑ اور لغمان تک پھیلی ہیں۔

پاکستان اپنے تئیں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کی خوشی منا رہا ہے مگر مستقبل قریب خطروں سے بھرا پڑا ہے۔ جلد ہی افغانستان میں نئی دھڑے بندیاں واضح ہو جائیں گی۔ چونکہ امریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ افغانستان سے مشرق بعید کی طرف منتقل ہو رہی ہے لہذاٰ علاقائی گروہ بندیاں سرخ نشان ہیں۔ چین کی افغان قدرتی وسائل میں دلچسپی اور اویغور مسلمانوں کے مسئلے سے مستقل نجات، ایران کی شیعہ مفادات کی حفاظت اور داعش کے خطرے کو قابو میں رکھنے کی کوشش، ترکی کی علاقائی طاقت بننے کی خواہش اور علیحدگی پسند کرد تحریک کا سر کچل دینے کی سعی اور وسط ایشیائی ریاستوں کی امریکی واپسی سے پریشانی اور طالبان نما بغاوت کا خوف سب مل کر خوفناک مستقبل کی نشاندہی کر رہا ہے۔

علاقائی و خارجی مسائل برطرف، پاکستان کے لیے مقامی حالات بھی خاص حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ پاکستان میں متعدد متشدد گروہ مذہب کے بزور قوت نفاذ کے لیے کوشاں ہیں جن کو افغان طالبان کی طالع آزمائی مہمیز دے گی۔ طالبان کے قبضے سے ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ تشدد کے زور پر کوئی بھی گروہ اپنی مرضی کی مذہبی تشریح نافذ کر سکتا ہے۔ ان گروہوں کی اکثریت طالبان سے نظریاتی یا عملی طور پر وابستہ ہے جو ہمسائے کے سرخ گال دیکھ کر اپنا چہرہ تھپڑوں سے لال کرنا چاہیں گے۔

پھر اس کی ایک سیاسی قیمت بھی ہے۔ چونکہ طالبان نسلی طور پر پختون اکثریت ہیں لہٰذا وہ پختون آبادی کو اکٹھا رکھنا چاہیں گے جس کے لیے وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کے مرتکب ہو کر پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ اس کے علاوہ طالبان چونکہ امریکہ کے متبادل کے طور پر سامنے آئے ہیں چنانچہ ان کی خود اعتمادی آسمانوں کو چھو رہی ہو گی جس سے وہ پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈالنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔

یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ علاقے کے دو اور با اثر کھلاڑی، سعودی اور بھارتی بھی، چپکے بیٹھنے والے نہیں۔ یقیناً وہ بھی اس اکھاڑے میں کودنا چاہیں گے جہاں پہلے ہی متصادم مفادات کا گھمسان پڑا ہوا ہے۔ حال ہی میں طالبان نے بھارت کو افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور پراجیکٹس بلا جھجک مکمل کرنے کا کہا ہے۔ اس سے پہلے بھی، دوحہ مذاکرات کے دوران، اشرف غنی کو تنہا اور بے بس کرنے کے لیے، طالبان بھارت سے بیک چینل رابطے کر چکے ہیں۔

ماسوائے اس سب کے، پاکستانی گھریلو مجاہدین اس بات پہ بلیوں اچھلیں کہ بالآخر افغانستان میں امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی چاہے اس کی خاطر وہ بغض معاویہ میں محبت حسین سے بھی گزر گئے ہوں باوجود اس کے، بہرحال، چبھتے ہوئے سوال اپنی جگہ پہ جوں کے توں ہیں کہ اگر پاکستانی سرحد کے اس طرف طالبان کھڑے ہیں جو کہ طور خم، پشاور سے لے کر سپن بولدک، کوئٹہ تک برابر ٹیکس وصول کر رہے ہیں تو پھر گزشتہ سے پیوستہ یوم پاکستانی فوج پر سرحد پار سے کس نے حملہ کر کے تین جوانوں کو شہید کر دیا؟

اگر طالبان قیادت نے تین رکنی کمیٹی بنا کر تحریک طالبان پاکستان کو نکیل ڈالنے اور افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نا ہونے دینے کی یقین دہانی کروائی ہے تو پھر وزیرستان میں فوجی جوانوں پر بم حملے کون کروا رہا ہے؟ اور ملا عبدالسلام ضعیف اور ملا عبد الغنی برادر کی پاکستان سے گرفتاری بھلا اتنی جلدی بھولنے والی چیز ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments