کابل ڈائری: ’اگر دھماکہ خیز مواد تھا گاڑی میں تھا، تو پھر وہ پھٹا کیوں نہیں‘

ملک مدثر - بی بی سی، کابل


ڈرون حملہ
گذشتہ رات امریکی جنرل مکینزی نے اعلان کیا کہ اب ہمارا کوئی بھی فوجی افغانستان میں موجود نہیں ہے۔ ان کے ان الفاظ کے ساتھ ہی امریکہ کا انخلا مکمل ہوا اور یہاں کابل میں ہمیں ایسی فائرنگ سنائی دے رہی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو گیا ہے۔

یہاں تو ایک ہی قوت اقتدار میں ہے تو یہ جنگ نہیں پھر یہی لگتا ہے کہ انخلا کے اعلان پر طالبان جشن منا رہے ہیں۔ ان لمحوں میں انھیں عملی طور پر اس ملک کا مکمل قبضہ مل گیا ہے۔

ایئرپورٹ دھماکے کے بعد وہاں رش کافی کم ہو گیا تھا اور اب وہاں کا رخ کرنے والوں کی امیدیں حقیقی معنوں میں دم توڑ چکی ہیں۔

بم دھماکے کے بعد اب امریکی ڈرون حملے نے کابل میں اضطراب میں اضافہ کر دیا ہے۔

جس گھر پر ڈرون حملہ ہوا اس کے بارے میں شہر میں لوگوں سے پوچھتے پوچھتے ہم اس گھر تک پہنچے تنگ سی گلی میں وہ ایک عام سا کچا پکا گھر تھا۔ ایک نارمل سی گاڑی کھڑی تھی مگر اس کا کچومر نکل چکا تھا۔

لوگوں کا سوال تھا اگر دھماکہ خیز مواد گاڑی میں تھا، تو پھر وہ پھٹا کیوں نہیں۔

ڈرون حملہ

ہمیں بتایا گیا کہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے جو کچھ ہی دیر پہلے اس صحن میں کھیل رہے تھے۔

اس گھر کے باہر بہت لوگ موجود تھے۔ کیمرے کو دیکھ کر انھیں غصہ آیا تو انھوں نے کہا کہ بتائیں یہاں کون سے داعش والے ہیں؟ یہ دیکھیے یہاں تو سب محلے والے ہیں۔ آپ میڈیا والے کیوں بار بار یہ چلا رہے ہیں کہ یہ داعش والے ہیں۔

پھر میں ڈرون حملے کی زد میں آنے والے گھر میں داخل ہوا۔

وہاں ایک لڑکا مرنے والوں کے جسموں کے ٹکڑے اکھٹے کر رہا تھا۔ میں اسے وہاں قریب کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ مرنے والوں کے دانت، انگلیاں اکٹھی کر رہا تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ ایک لاش بھی اس گاڑی میں سے سالم حالت میں نکل پائی ہو گی۔

کابل

امریکہ کا انخلا تو مکمل ہوا لیکن افغان روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ کابل کے فقط دو بینکوں سے محدود تعداد میں پیسے نکالے جا سکتے ہیں۔ لوگ بے روز گار ہیں تو ایسے میں جمع کی ہوئی رقم نکالنے کے لیے گھنٹوں انتظار اور لمبی قطار میں طالبان کی نگرانی میں کھڑے شدید پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

کل مجھے بھی اے ٹی ایم جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کی لمبی قطار میں کھڑے کچھ لوگوں سے بات ہوئی۔ وہیں ایک خاتون نے سامنے کھڑے طالب کو نظر انداز کرتے ہوئے بہت اعتماد سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے زیورات بیچ کر رقم برے وقت کے لیے رکھی تھی لیکن وہ سب اب بینک میں پھنس چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کابل کی شاہراؤں سے اٹھتا تعفن اور سناٹے میں غیر یقینی کی کیفیت

’تین روز سے سن رہے تھے کہ ایئرپورٹ پر دھماکے کا خطرہ ہے اور پھر وہی ہو گیا‘

کابل ہوائی اڈے پر دہشت گردی، طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش؟

افغان اویغور: ’ہمیں خوف ہے کہ طالبان ہمیں پکڑ کر چین کے حوالے کر دیں گے‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بینک کا سٹاف تھوڑے سے پیسے ڈالتا ہے، ہمیں کیڑے مکوڑے کی طرح مار رہے ہیں، دنیا کے لوگ کہاں ہیں ہم ان سے کیا توقع رکھیں۔’

میں خاتون کی جرات سے حیران ہوا لیکن میرے پاس انھیں جواب میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا نہ تسلی اور نہ ان کی بہادری پر داد۔

کابل

مجھے ایک بس اڈے پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں موجود ایک ڈرائیور نے کہا کہ ’اتنے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ افغانستان خالی ہو جائے گا پتا نہیں اسلامی امارات والے حکومت کس پر کریں گے۔‘

طالبان نے تو مائیک لگا کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ اب ہوٹل کے باہر سے ہٹ جاؤ اب قطر سے ٹرانزٹ نہیں ملے گا لیکن کسی نے نہ سنی۔

آج آخری دن شاید ان کی آخری امید بھی توڑ رہا ہے۔

کابل

باہر مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے اور میں گذشتہ روز ایک کیفے میں ملنے والے تین دوستوں کو یاد کر رہا ہوں جن کی کہانی اس ملک کے اندر بسنے والے ہر فرد کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔

ایک دوست بزنس مین تھا ایک اینٹی نارکوٹس میں تھا اور ایک وزارت داخلہ میں۔

بزنس مین نے کہا کہ میں خوش ہوں اب مجھے رشوت نہیں دینی پڑے گی۔ وزارت داخلہ والے نے کہا کہ پریشان ہوں کہ کوئی رشتہ دار ملے جو مجھے یہاں سے لے جائے۔ نارکوٹکس والے نے کہا میں نے خود کو گولی کھانے کے لیے بھی تیار کر لیا ہے۔

اس کی کہانی ہر سرکاری اہلکار کی کہانی ہے جن کا کہنا ہے کہ ہم اول تو دفتر جاتے نہیں، جاتے ہیں تو طالبان ہم سے وہ چیزیں واپس مانگتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp