سندھ میں کورونا اسپتالوں کا نظام بنانے والی پروفیسر منیبہ احسن سعید سے گفتگو


ہم بہت عرصے سے پروفیسر منیبہ احسن سعید سے بات چیت کرنا چاہ رہے تھے جنہوں نے سندھ حکومت کے کورونا مراکز کے نظام کی تشکیل میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے لیکن یکے بعد دیگرے آنے والی وبائی لہروں میں وہ بہت مصروف رہیں۔ بالآخر کل شام ان سے تفصیلی گفتگو ہو سکی جو نذر قارئین ہے۔

انفیکشس ڈیزیز کیا ہوتی ہیں؟

منیبہ: جرثوموں کے باعث ہونے والی بیماریوں کو انفیکشس ڈیزیز کہتے ہیں۔ جبکہ ان پر مہارت حاصل کرنے والوں کو انفیکشس ڈیزیز یا آئی ڈی اسپیشلسٹ کہتے ہیں۔

پاکستان میں اس سپیشلٹی کا آغاز کب ہوا؟

منیبہ: مغربی ممالک میں تعلیم اور تربیت حاصل کر کے وطن واپس آنے والے کچھ ڈاکٹروں نے 1993 ء میں میڈیکل مائیکرو بیالوجی اینڈ انفیکشس ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی یہی اس اسپیشلٹی کی علیحدہ شناخت اور اہمیت کے اظہار کا نکتۂ آغاز تھا۔

کالج آف فزیشن اینڈ سرجن نے آئی ڈی میں فیلو شپ کا آغاز محض دس بارہ سال پہلے ہی کیا ہے۔ پورے ملک میں صرف 6 ایسے مراکز ہیں جہاں فیلوشپ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

آپ اپنی ٹریننگ اور پوسٹ گریجویشن کے متعلق کچھ بتائیے۔

میں نے 2008 ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد پہلے پہل سول اسپتال کراچی اور اس سے ملحق ڈاؤ یونیورسٹی سے انٹرنل میڈیسن میں فیلوشپ کی تربیت مکمل کی اور پھر آغا خان یونیورسٹی سے انفیکشس ڈیزیز میں فیلو شپ کی ٹریننگ حاصل کی۔

اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد 2018 ء میں ٹراما انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہو گئی۔ 2020 ء میں جب کووڈ 19 نامی ایک مہلک اور تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی خبریں پاکستان تک پہنچیں تو ابتداء میں مجھے ٹراما سینٹر میں کورونا کے مریضوں کی نگہداشت کا نظام بنانے کی ذمہ داری دی گئی اور پھر حکومت نے مجھے نئے بنائے جانے والے انفیکشس ڈیزیزز کے مرکز میں تعینات کر دیا جہاں مجھے پروفیسر شہلا باقی کے زیر نگرانی صوبائی حکومت کے تحت تمام بڑے اسپتالوں میں انفیکشس ڈزیزز کا نظام بنانے کا اعزاز حاصل رہا۔

آپ اس وقت کس اسپتال سے وابستہ ہیں؟

صوبائی حکومت نے سندھ انفیکشس ڈیزیزز اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کے نام سے ایک بالکل نیا اسپتال قائم کیا ہے۔ اس وقت میں وہیں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتی ہوں۔

یہ کتنا بڑا اسپتال ہے اور یہاں کیا سہولیات موجود ہیں؟

اس وقت ہمارے پاس 170 مریضوں کی گنجائش موجود ہے۔ ان میں 48 آئی سی یو بیڈز ہیں جو وینٹیلیٹرز اور مانیٹرنگ سمیت تمام جدید سامان سے لیس ہیں۔ ہمارے تمام بیڈ عملاً ہائی ڈپینڈنسی بیڈز ہیں یہ تصور ہم نے سب سے پہلے ٹراما سینٹر میں متعارف کرایا تھا لہذا ہم کسی بھی مریض کی حالت بگڑنے پر اسے ابتدائی مصنوعی تنفس فراہم کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے بچوں کا ایک الگ یونٹ فعال کیا ہے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ اسے توسیع دے کر 400 بستروں پر مشتمل بہت بڑا طبی اور تعلیمی مرکز بنایا جائے۔

وبا کے دوران انفیکشس ڈیزیزز کے ماہرین کا کیا کردار رہا ہے؟

وبا کے دوران سب سے اہم اور مرکزی کردار آئی ڈی ماہرین کا ہی رہا ہے اس کردار کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو ادارہ جاتی یا انسٹیٹیوشنل اور دوسرا سرکاری کردار۔ ادارہ جاتی کردار بھی آگے تقسیم ہو کر طبی اور انتظامی نوعیت کا ہو جاتا ہے۔ طبی کردار کا مطلب یہ ہے کہ مریضوں کی تشخیص سے لے کر علاج معالجہ، مریض اور ان کے لواحقین کو پیش رفت سے آگاہ کرتے رہنا جبکہ انتظامی کردار میں ہمیں ایک واضح نظام وضع کرنا تھا۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مریض کا وجود ایک حیاتیاتی ہتھیار بن جاتا ہے۔ ایسے مریض کو ہر ممکنہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسپتال میں یک طرفہ ٹریفک کے نظام سے لانا، اس کی نگہداشت کرنا اور وہ بھی اس طرح کہ دیگر مریض، لواحقین اور طبی عملہ وائرس کے ایکسپوژر سے محفوظ رہیں۔

اس کے علاوہ طبی اور غیر طبی عملے کی مسلسل تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے تاکہ وہ اس ان دیکھے خطرے سے محتاط تو رہیں لیکن اس قدر خوفزدہ بھی نہ ہوجائیں کہ فرائض انجام نہ دے سکیں۔

ہمارا حکومتی کردار یہ ہے کہ شہری، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو وائرس کے پھیلاؤ کی بابت بروقت آگاہ کریں اور پالیسی سازی میں ان کی رہنمائی کریں۔

اسی طرح میڈیا پر آ کر عوام کو آگہی فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی آئی ڈی ماہرین کی رہی۔ احتیاطی تدابیر، علاج اور ویکسینیشن کے بارے میں تمام مصدقہ پیغامات ہماری اسپیشلٹی ہی جاری کرتی ہے۔

آپ کہہ رہی ہیں کہ آئی ڈی کنسلٹنٹ نے عوام کی رہنمائی کی لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ عوام شروع سے آج تک کنفیوز رہے ہیں۔

کووڈ سے متعلقہ عوامی کنفیوژن صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دراصل یہ معلومات کے بہاؤ (انفو ڈائنامکس) کا معاملہ ہے۔ ایک نئی بیماری نے جب پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا تو لاعلمی اور خوف کا ابھرنا فطری تھا۔ بہت سی غلط معلومات دنیا میں پھیل گئیں اور عام افراد نے ان معلومات کو زیادہ آسانی سے جذب کر لیا جو پہلے سے موجود تصورات اور توہم پرستی کے مطابق تھیں۔ ہم جیسے ماہرین پوری تندہی سے رات دن اسپتالوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے لہذا میڈیا نے ایسے عناصر کو بلا کر رائے زنی کرائی جنہیں مرض کے اسباب، علاج اور احتیاط کے بارے میں کچھ بھی آئیڈیا نہیں تھا۔ ایک دفعہ جب غلط خیالات عام ہوجائیں تو ان کا تدارک مشکل کام ہے۔

آپ کی رائے میں اس کنفیوژن کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟

ابتدائی چند ماہ کی کنفیوژن کے بعد جب ڈاکٹروں کی تنظیموں نے پریس کانفرنس کیں اور حکومتی سطح پر بھی عوام کو واضح ہدایات جاری کی گئیں تو کافی مثبت اثر پڑا ہے۔

آپ کے خیال میں سرکاری سطح پر کون سے ایسے اقدامات تھے جو بروقت کیے جاتے تو صورتحال بہتر ہوتی؟

کسی بھی معاشرے میں تمام افراد کی تعلیم اور شعوری سطح ایک نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس ایسے ماہرین کا فقدان ہے جو عوام کو عوامی زبان میں خطرے کی نوعیت کا سمجھا سکیں۔ بالآخر آپ نے دیکھا کہ جب حکومت نے درست طریقے سے ڈیل کیا تو حالات یقیناً بہتر ہوئے۔

آپ کے پاس اسپتال کے بیڈز اور وینٹیلیٹر پر موجود مریضوں کی شرح کیا ہے؟

پورے پاکستان میں کورونا کی چوتھی لہر اپنے خاتمے کی طرف جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ تمام بیڈز اور وینٹیلیٹرز زیر استعمال تھے لیکن یہ شرح کم ہو کر 60 سے 70 فیصد پر آ گئی ہے۔

کیا آپ بھارت جیسا بحران ابھرتا دیکھ رہی ہیں؟

اگر یہی سوال آپ مجھ سے بیس پچیس روز قبل پوچھتے تو میرا جواب ہاں میں ہوتا کیونکہ اس وقت ہمارے یہاں یکا یک کورونا کی ایک زیادہ خطرناک قسم ڈیلٹا ویریئنٹ کا پھیلاؤ ہو رہا تھا۔ لیکن اب ہم اس خطرے سے باہر آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام تک یہ معلومات پہنچانے میں کامیاب ہو گئے کہ آکسیجن سیچوریشن کی کون سی شرح پر اسپتال آنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا اسٹاف اب پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ تربیت یافتہ ہو چکا پے اور اسپتالوں کی سہولیات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔

کیا آپ کے پاس کوئی ایسا مربوط نظام ہے جس سے یہ علم ہو سکے کہ شدید بیمار مریضوں کے لئے بیڈز اور وینٹیلیٹر کہاں موجود ہیں؟

جی ہاں بالکل ہے۔ ہم نے سول اسپتال کراچی، ٹراما سینٹر، سروسز اسپتال، ڈاو انٹرنیشنل، سندھ انفیکشس ڈیزیز اسپتال، لیاری جنرل اسپتال اور ایکسپو سینٹر کو ایک نظام میں شامل کر لیا پے جس میں ہمیں آئی سی یو بیڈ کی موجودگی کا ہمہ وقت علم رہتا پے اور جب متعلقہ عملہ مریض کی علامات، کیفیت اور دیگر کوائف 1021 پر ایک واٹس ایپ گروپ پر اپ لوڈ کرتا ہے تو فوری طور پر ناصرف بیڈ کی موجودگی کی نشاندہی ہوجاتی ہے بلکہ مریض کے گھر تک ایمبولینس بھیج کر انہیں ٹرانسفر کرنے کا انتظام بھی خود بخود ہوجاتا ہے۔

آپ نے ڈاکٹر فاوچی کا نام سنا ہوگا جو خود انفیکشس ڈیزیز کے ماہر ہیں اور جنہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کو بار بار چیلنج کیا۔ کیا آپ کو اس قسم کی اتھارٹی اور تحفظ حاصل ہے؟

یہ بہت دلچسپ سوال ہے۔ میں نہیں جانتی کہ اتھارٹی کس طرح سے ڈیفائن کی جا سکتی ہے البتہ اگر میں صرف کووڈ کے حوالے سے بات کروں تو مجھے لگتا ہے کہ حکومتی سطح پر ہماری رائے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔

پاکستان کا شمار ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جن میں پولیو ویکسین کی مخالفت سب سے زیادہ ہے کیا آپ کے خیال میں کووڈ کی ویکسین کو متنازعہ سمجھنے والے عناصر بھی اینٹی پولیو ویکسین سوچ کے حامل ہیں؟

ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور سازشی تھیوریاں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ایک عالمی وبا نے اس طبقے کو اپنی عقل و فہم کے مطابق پروپیگنڈا کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمارے پاس ایک اچھا پرائمری ہیلتھ کیئر کا نظام موجود ہو تو ہم کم از کم صحت کے معاملے میں لوگوں کا اعتماد جیت سکتے ہیں اور شک و شبہات کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

کیا ایک فلاحی ریاست کی عدم موجودگی میں ہم اس طرح کی وبا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس میں بار بار لوگوں کو گھر پر بند کر دیا جاتا ہو؟

یقیناً پاکستان ایک فلاحی ریاست نہیں لیکن ہمارے معاشرے کا اپنا سپورٹ سسٹم ہے اور متعدد خیراتی ادارے ہیں جو ہمیں سروائیو کروا رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک نے تو وائرس کی شناخت ہوتے ہی ایسی گائیڈ لائنز اپنا لی تھیں جن سے اس وائرس سے نمٹا جاسکے۔ کیا پاکستان میں ایسا کچھ ہوا؟

وبا کی ابتدا ہی سے ہم نے گائیڈ لائنز بنا کر ان پر عملدرآمد کیا۔ این سی او سی بننے کے بعد سے ہم سب آئی ڈی ماہرین کا آپس میں بہت قریبی رابطہ استوار ہو گیا اور ہم نے مل کر ملکی سطح پر گائیڈ لائن بنا کر ان کو اپنے اپنے اداروں میں نافذ کیا۔ جیسے جیسے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا گیا ہم اپنی گائیڈ لائن تبدیل کرتے رہے۔ چنانچہ اس وقت قومی سطح پر گائیڈ لائنز کا چوتھا ایڈیشن نافذ العمل ہے اور پانچواں لکھا جا رہا ہے۔

آپ چاہیں تو یہ لنک شیئر کرسکتے ہیں

https://covid.gov.pk/guideline

اس پورے عرصے میں آپ کو کن چیلنجز کا سامنا رہا؟

کئی چیلنجز رہے۔ وبا کی شروعات میں کسی کو علم نہیں تھا کہ بیماری کا اصل سبب کیا ہے اور اس سے کیسے نبٹا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت کی کئی ابتدائی ہدایات بعد میں تبدیل ہوئیں۔ ہم پورے دن مریضوں کو دیکھتے اور رات میں پڑھتے کہ دنیا میں کیا نئی بات، ریسرچ اور علاج سامنے آرہے ہیں۔ پی پی ای میں کام کرنا حد سے زیادہ مشکل رہا۔ لگتا تھا کہ اپنا دم گھٹ جائے گا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے طبی اور نیم طبی عملے کا خیال ہمہ وقت دامن گیر رہتا تھا۔ میرے لئے ایک تکلیف دہ چیلنج یہ تھا کہ شدید بیمار مریض اور اس کے عزیز کی ملاقات پر پابندی عائد کروں۔ ایسے واقعات پیش آئے کہ میں ڈیوٹی کے بعد بہت مغموم اور دل گداز رہی چنانچہ ہم نے لواحقین کو روزانہ مریض کی کیفیت سے آپ ڈیٹ کرنے کا معمول بنایا اور ان کی آپس میں وڈیو کال بھی شروع کرائیں۔

مجھے علم ہے کہ آپ کی خدمات کو کانٹریکٹ پر حاصل کیا گیا ہے۔ کیا کورونا کی وبا ختم ہونے کے ساتھ ہی آپ کی ملازمت، صحت کے یہ نئے مراکز اور آئی سی یو وغیرہ ختم ہو جائیں گے؟

منیبہ (ہنستے ہوئے ) : میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا۔ انفیکشس ڈیزیز کے مراکز کی ضرورت ہمارے ملک کو ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ یہاں ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی، ٹی بی سمیت بہت سی وبائی بیماریاں موجود ہیں۔ کورونا کے باعث بنائے جانے والے ادارے وقت کے ساتھ مزید ترقی کرتے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments