امریکہ کا افغانستان سے انخلا مکمل، آخری فوجی دستہ کابل سے چلا گیا


امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے افغانستان سے فوجی انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان کیا۔

امریکہ نے پیر کی شب افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کر لیا ہے جس کے ساتھ ہی امریکہ کی طویل ترین جنگ کا اختتام بھی ہو گیا ہے۔

انخلا کے عمل کے دوران خودکش بم دھماکوں سے 180 سے زائد افغان باشندے اور امریکی سروسز کے 13 اہل کاروں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی عمریں اس جنگ کی طوالت سے کچھ ہی زیادہ تھیں۔

صدر جو بائیڈن کی جانب سے منگل 31 اگست تک انخلا مکمل کرنے کے وعدے سے چند گھنٹے قبل امریکی ایئرفورس کے ٹرانسپورٹ طیاروں پر کابل سے امریکی فوج کے آخری دستے کے اہلکار سوار ہوئے۔

ان فوجیوں نے ہزاروں افغان باشندوں کے بحفاظت انخلا اور دیگر انتظامات کے لیے کابل ایئرپورٹ پر دو ہفتوں تک انتہائی مشکل مشن سرانجام دیا۔

بیس برسوں پر محیط اس جنگ میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے نیوز بریفنگ کے دوران افغانستان سے انخلا کے عمل کے مکمل ہونے کا اعلان کیا اور بتایا کہ کابل ایئرپورٹ سے امریکہ کے آخری طیارے نے واشنگٹن کے وقت کے مطابق سہ پہر تین بج کر 29 منٹ پر پرواز کی یعنی کابل میں آدھی رات سے ایک منٹ پہلے۔

جنرل میک کینزی نے افغان جنگ سے متعلق کہا کہ یہ وہ مشن تھا جس میں اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے دیگر کئی افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس جنگ کے دوران دو ہزار 461 امریکی اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے جب کہ 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ انہوں نے افغانستان میں خدمات انجام دینے والے ہزاروں اہلکاروں اور شہریوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔

جنرل میک کینزی نے مزید کہا کہ افغانستان سے لوگوں کا انخلا امریکی کی فوجی تاریخ کا سب سے بڑا انخلا تھا جس کے دوران 79 ہزار سے زیادہ شہریوں کو کابل سے نکالا گیا جن میں چھ ہزار سے زیادہ امریکی شہری شامل تھے۔

دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے ایک لاکھ 23 ہزار سے زیادہ شہریوں کو کابل سے نکالا ہے جب کہ متعدد افراد اب بھی افغانستان میں ہی موجود ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نیوز بریفنگ کے دوران کابل سے انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نیوز بریفنگ کے دوران کابل سے انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے افغانستان سے انخلا سے متعلق جاری ایک بیان میں کہا کہ دنیا کی کوئی بھی فوج انخلا کا یہ کام مکمل نہیں کر سکتی جو ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے اتنے مختصر وقت میں کیا ہے۔

امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا ہے اور پیر کی شب انہوں نے جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ فائرنگ کی آوازوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ فائرنگ امریکی فوج کے انخلا کی خوشی میں ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن منگل کو قوم سے خطاب کے دوران امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے اختتام پر بات کریں گے۔

صدر بائیڈن نے سیاسی مخالفین اور بعض اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود پیر کی شب جاری کردہ اپنے ایک بیان میں افغانستان سے انخلا کے لیے 31 اگست کی ڈیڈ لائن کا دفاع کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فورسز کے جوائنٹ چیفس اور افغانستان میں موجود تمام کمانڈرز کی متفقہ رائے تھی کہ انخلا کے مشن کو منصوبے کے تحت مکمل کیا جائے۔

کابل ایئرپورٹ نے انخلا کے عمل کے دوران اس ملک میں امریکہ کے ایک جزیرے کی شکل اختیار کر لی تھی۔

ہزاروں افغان باشندے اور ان کے خاندان جنہیں امریکیوں کے جانے کے بعد طالبان سے خطرہ تھا، امریکی فوج کی نگرانی میں کابل ایئرپورٹ سے مختلف ممالک کو روانہ کیے گئے جہاں دستاویزات اور امیگریشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کی آخری منزل امریکہ ہو گی۔

انخلا کے آخری گھنٹوں میں امریکی فوجیوں کو انتہائی ڈرامائی حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں۔ انہیں نہ صرف خود کو بحفاظت طیارے میں سوار کرنا تھا بلکہ کچھ سامان بھی نکالنا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان خطرات اور دھمکیوں پر بھی گہری نظر رکھنا تھی جو انہیں داعش کی جانب سے درپیش تھیں۔

پیر کے روز داعش نے کابل ایئرپورٹ پر کئی راکٹ داغے جنہیں امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم نے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا۔

اس سے قبل جمعرات کو ایئرپورٹ کے باہر ایک خودکش حملے میں 180 افغان شہری اور امریکی فورسز کے 13 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔

(اس خبر کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے حاصل کی گئی ہیں)

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments