امریکی ”شکست“ کی تین وجوہات


ایک ڈوبتی شام کو آخری جہاز بھی رخصت ہوا تو یاروں نے عزت اور ذلت کا ترازو ہاتھ میں تھام کر فتح اور شکست کا وہی راگ چھیڑ دیا جو افغانستان کے لیے کئی دہائیوں سے ان کو یاد واحد نغمہ ہے۔ ان یاروں کا خیال ہے کہ افغانستان اور امریکا کے مابین غالباً کرکٹ ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا جس میں افغانستان نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوتے امریکا کو دس وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔

بتانا یہ تھا کہ جنگی فتح اور شکست کے پیمانے سمجھنا کوئی ایسا خاص دشوار نہیں ہے۔ جذبات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو قومی پیداوار کی کمی، صنعتی اور معاشی ڈھانچے کی تباہی، افراط زر اور افرادی قوت کا فقدان ماپنا بھلا کیا مشکل ہے۔ ان زاویوں سے تجزیہ کر لیجیے تو معلوم ہو جائے گا کہ اگر فیصلہ کرنا ہی ہے تو وہ کیا ہو گا۔

2001 میں افغانستان میں امریکا کا نزول کسی جنگی مہم جوئی سے زیادہ ایک سیاسی مسئلہ تھا۔ قدیم زمانے میں روم سے لے کر آج کی دنیا تک سپر پاور اسی کو سمجھا جاتا ہے جو اپنے شہریوں کے تحفظ اور اگر ان سے زیادتی ہو جائے تو اس کا بدلہ لینے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہو۔ قدیم روم میں مشہور تھا کہ اگر کوئی عورت سونا اچھالتی رومی سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہزاروں میل بھی چلی جائے تو کوئی اس پر بری نظر ڈالنے کی جرات نہیں کرے گا کہ اس کا ہر قدم رومی سلطنت کی بے پناہ عسکری قوت کی نادیدہ حفاظت میں ہو گا۔ ایسی کئی اور کہاوتوں کی طرح ہم نے اپنی کتابوں میں اس کو بھی دور فاروقی سے منسوب کر دیا، یہ جانتے ہوئے کہ کسی سلطنت کی عظمت اور اس کی ہیبت کا یہی واحد پیمانہ ہے۔

نائن الیون کے سانحے کے سارے سازشی مفروضات اور نظریات ایک طرف پر ایک عام امریکی کے لیے یہ لازم تھا کہ اس کی حکومت اس سانحے کا بدلہ لے کر دکھائے۔ اس بدلے کو نہ لینے کی صورت میں ری پبلکنز کا سیاسی جنازہ تیار تھا۔ سو بدلہ لے لیا گیا۔ اب آپ لاکھ دہائی دیں کہ سعودیوں اور مصریوں کا بدلہ افغانستان میں کیوں چکایا گیا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس میں کچھ حماقت ملا عمر کے مشیروں کی بھی رہی کہ انہوں نے سو جوتے اور سو پیاز دونوں کھانا قبول کر لیا۔ القاعدہ کا شیرازہ افغانستان کی حد تک تو بکھرنا تھا ہی، طالبان کی حکومت بھی گئی اور افغانستان میں انسانی تباہی کی ایک خونچکاں داستان بھی رقم ہو گئی۔

افغانستان کی حکومت ظاہر ہے کہ کوئی جمہوری حکومت نہیں تھی۔ طاقت کے بل پر اقتدار طاقت کے ہی بل پر ایک دن چھین لیا جاتا ہے۔ جو تلوار سے قتل کرتا ہے، ایک دن تلوار سے ہی قتل ہوتا ہے۔ افغانستان کے عوام کل بھی ایک کے بعد دوسرے وار لارڈ کے زیر دست تھے، آج بھی ہیں۔ عوامی رائے کی قبر بہت پہلے کھود کر اس میں جمہوریت، آزادی اظہار اور انفرادی زندگی پر اختیار کو اجتماعی طور پر دفن کر دیا گیا تھا۔ اب تو شاید بوسیدہ ہڈیوں کا نشان تک نہ ملے۔

پچھلے بیس سال میں امریکا افغانستان سے کیوں نہیں نکلا تو اس کی تین بنیادی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ سمجھنے کے لیے آپ کو مالیات اور صنعت سے کڑی امریکی معیشت کی تھوڑی سی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے، ساتھ ہی ساتھ ذاتی مفادات کی سیاست پر قربان ہونے والے قومی مفاد سے بھی واقفیت ضروری ہے۔

اس حوالے سے جان شوارٹز کا حال ہی میں لکھا گیا ایک مضمون چشم کشا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مضمون میں مضمون نگار نے امریکا کے دفاعی ٹھیکیداروں پر ایک تجزیہ کیا ہے۔ ٹھیکے دار کے لفظ سے دھوکا مت کھائیے گا۔ امریکی معیشت میں یہ کردار کارپوریٹ اداروں کے پاس ہیں جو کسی بھی حکومت سے زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔

اٹھارہ ستمبر 2001 کو صدر بش نے جنگ کے اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔ اگر اس دن دفاعی ٹھیکیداروں کے حصص کی اوسط قیمت دس ہزار ڈالر فرض کر لی جائے تو اگست 2021 میں یہی قیمت بڑھ کر قریبا ایک لاکھ ڈالر ہو گئی ہے۔ جب کہ اس دوران سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں اضافہ 61 فی صد رہا ہے۔ حساب لگائیے تو دفاعی ٹھیکے داروں کے اوسط حصص میں اضافہ باقی سٹاک مارکیٹ سے 59 فی صد زیادہ ہے۔ مالیات کی دنیا میں یہ ایک ناقابل یقین کارکردگی ہے۔

اب سن لیجیے کہ یہ دفاعی ٹھیکے دار کون ہیں۔ ان میں پانچ سب سے بڑے نام بوئنگ، رے تھیون، لاک ہیڈ مارٹن (حاجی ایف سولہ والے ) ، نارتھروپ گرومن اور جنرل ڈائنامکس ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان اور شیئر ہولڈرز کے لیے خصوصی اور امریکی سٹاک مارکیٹ کے لیے عمومی طور پر افغان جنگ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار رہا۔ اس سے جس قدر فائدہ اٹھایا جا سکا، وہ اٹھا لیا گیا ہے اور یہ فائدہ صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کے اکثر ہمسایوں سے بھی سمیٹا گیا ہے چاہے وہ اسلحے کی فروخت کی صورت ہو یا طویل المدتی دفاعی معاہدوں کی صورت۔ اس مرغی نے بیس سال انڈے دیے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہی بازار کہیں اور لگانے کا اہتمام کر لیا جائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان تمام کمپنیوں کے بورڈ پر اعلی امریکی فوجی افسروں کی بعد از ریٹائرمنٹ تعیناتی بھی محض اتفاق نہیں ہے۔

یہ وہی عسکری صنعتی ڈھانچہ ہے جس کی طرف امریکا کے ایک سابق صدر آئزن ہاور نے پہلی دفعہ توجہ دلائی تھی اور جس کے بارے میں شارلمز جانسن نے کہا تھا کہ جب جنگ اتنی منافع بخش ہو تو پھر یہ ہوتی رہے گی۔

افغانستان میں بیس سالہ امریکی قیام کی ایک وجہ منافع تھا تو دوسری وجہ خالصتاً ایک انتہائی خود غرض لیکن موثر ترین دفاعی حکمت عملی تھی۔ نائن الیون کا حادثہ اس بات کا ثبوت تھا کہ عالمی دہشت گرد اب امریکا کے اندر نہ صرف پہنچ رکھتے تھے بلکہ اس پر بڑے حملے کرنے کے بھی قابل تھے۔ کیا ان دہشت گردوں کو ختم کرنا ممکن تھا تو اس کا جواب ہاں میں نہیں تھا۔ یہ دہشت گرد نہ کوئی چہرہ رکھتے تھے، نہ کسی خاص جگہ پر مقیم تھے اور نہ ہی ان کی کوئی ایک شناخت تھی۔ اگر سیلاب کو روکنا ممکن نہ ہو تو دریا کا رخ موڑنا دوسرا راستہ ہوتا ہے۔ افغانستان اور اس کے بعد سارے مشرق وسطی میں امریکی جارحیت کا لامحالہ نتیجہ ان دہشت گردوں کی مختلف کیمپس میں تقسیم تھی جو طاقت، حکومت، نظریے یا محض دولت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے بھڑ گئے۔ 2001 کے بعد سے ان گروہوں کی خونریز جنگ کا میدان مشرق وسطی یا افغانستان اور کسی حد تک برصغیر تک محدود ہو گیا۔ امریکا کو شیطان بزرگ اور اپنا واحد دشمن سمجھنے والے یہ گروہ بیس سال سے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں مصروف ہیں جبکہ ان بیس سالوں میں امریکا میں کوئی ایک بھی بڑی دہشت گردی کی کارروائی نہیں ہو سکی۔ اس کی قیمت اس خطے کے عوام نے چکائی ہے لیکن امریکی عوام اور مفادات اس دوران بالکل محفوظ رہے ہیں۔ اس سے بڑی کامیابی امریکا کے لیے بھلا اور کیا ہو سکتی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ مقاصد تو شاید پہلے دس بارہ سالوں میں حاصل ہو گئے تھے۔ دفاعی ٹھیکیداروں نے اس جنگ سے جو فائدہ اٹھانا تھا اس کا بڑا حصہ بھی چودہ پندرہ سالوں میں انہیں مل گیا تھا تو پھر یہ بیس سالہ قیام کیوں۔ اس کے لیے تیسری وجہ پر غور کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک کہانی سن لیجیے جو آپ کے اپنے ملک سے متعلق ہے۔

ستر کی دہائی میں پاکستان کے سارے بڑے بنک قومیا لیے گئے اور اس کے بعد سیاسی تقرریوں اور بدعنوانی کی نئی داستانیں لکھی گئیں۔ ان قومیائے گئے بنکوں کا حال یہ ہوا کہ پہلے جمہوری اور پھر مارشل لائی دور میں قرضوں کا اجراء اس بات پر ہونے لگا کہ کس صنعت کار یا زمین دار کے لیے اہل حکم میں سے کس کا فون آتا ہے۔ قرضے دیے تو گئے لیکن ان کی واپسی ایک خواب بن گیا۔ ہوتے ہوتے ان قرضوں کا حجم اربوں میں چلا گیا۔ جن کمپنیوں کے نام پر قرضے کیے گئے ان کی اکثریت بیمار صنعتی یونٹوں میں بدل گئی۔ یہ لفظ بیمار بھی ازراہ تفنن ہی تھا وگرنہ یہ یونٹ مردہ حالت میں ہی تھے۔ قانونی طور پر بنکوں کے پاس یہی چارہ تھا کہ وہ ان کمپنیوں کے ان اثاثہ جات کو نیلام کر کے اپنے قرضوں کی وصولی کریں جن کو کاغذات میں ظاہر کر کے قرضہ لیا گیا تھا۔ زمینی حقیقت یہ نکلی کہ یہ اثاثے یا تو موجود ہی نہیں تھے یا اگر تھے تو ان کی مالیت کاغذات کی نسبت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مطلب یہ ٹھہرا کہ نیلامی میں سو کے بدلے شاید تین روپے حاصل ہوتے۔ یہ کر کے یا نہ کر کے دونوں صورتوں میں باقی رقم کو منسوخ کرنا یا اکاؤنٹنگ کی زبان میں رائٹ آف کرنا ہی منطقی قدم تھا۔

اب یہ قدم اٹھانا مالیات یا حساب داری کی رو سے تو ضروری اور مستحسن تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ رائٹ آف والے سال میں بینک کے نفع نقصان کا گوشوارہ لہو رنگ ہو جاتا۔ ایک پیشہ ور کیریئر بینکار کے لیے شاید یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن قومیائے گئے بینکوں میں صدور کی تقرری تین سال کے لیے سیاسی بنیادوں پر ہوتی تھی اور کوئی صدر اپنے دور میں گوشوارے کو منفی دکھانے کا ہر گز متمنی نہیں تھا۔ سو ہر صدر یہ کار عظیم اپنے جاں نشین کے لیے چھوڑتا گیا اور یوں ان مدفون قرضوں پر برسوں گزر گئے۔ اس دوران ان قرضوں کے لیے باقاعدہ شعبے بھی تشکیل پا گئے جن نام سپیشل ایسٹ مینجمنٹ گروپ یا ایس اے ایم جی رکھ دیا گیا۔ ان کا کام سوائے ان قرضوں کے قبرستان میں درود فاتحہ کے انتظام کے اور کچھ نہیں تھا پر اس بہانے کچھ اور نوکریاں لوگوں کو ضرور مل گئیں۔ لے دے کر بینک قومی ملکیت سے نکلے تو پھر ان قرضوں کے بڑے پیمانے پر رائٹ آف کا عمل شروع ہوا۔

اب آپ پوچھیے کہ اس رام کتھا کا افغانستان سے کیا تعلق تو یہ سمجھ لیجیے کہ جہاں افغانستان میں آنا ایک سیاسی فیصلہ تھا اسی طرح یہاں سے نکلنا بھی ایک سیاسی فیصلہ تھا کہ امریکی عوام کے جذبات کسی صورت بھی انگیخت نہ ہوں۔ امریکی عوام جو یوں بھی تصویر کو پوری طرح دیکھنے کے معاملے میں کوتاہ بینی کی شہرت رکھتے ہیں، ان کا سوال بس یہی تھا کہ اس جنگ میں ان کے مرنے والے بچوں اور ان کے ٹیکس کے پیسوں کا حساب کیونکر ہو گا۔ امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے یہ جانتی تھی کہ افغانستان کو کسی مستحکم حالت میں چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا اور نہ ہی یہ کبھی ان کی ترجیحات میں تھا لیکن اس کا دفاع وہ سیاسی میدان میں ایک عام امریکی کے آگے کیسے کرتے۔ اس لیے بش کے بعد اوباما انتظامیہ چاہ کر بھی افغانستان سے انخلا کا فیصلہ نہیں کر پائی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ امریکی فوجوں کی تعداد میں مستقل کمی ہوتی گئی۔

ہمارے قومیائے گئے بنکوں کے صدور کی طرح سولہ سال تک کوئی صدر بھی اس فیصلے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھا گو کہ اوباما کے دوسرے دور میں اس حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی۔ اس حوالے سے ٹرمپ جیسے شخص کا صدارت سنبھالنا ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا جو فیصلے کرنے سے پہلے زیادہ سوچنے کا عادی نہیں تھا اور اس کا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ اس کے حامی یا اسے ووٹ دینے والے ایسے فیصلوں کے بعد بھی اس کے کیمپ میں رہیں گے۔ 2020 میں مکمل انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوئے پر اس کا ثمر چکھنا ٹرمپ کو نصیب نہیں ہوا۔ اس کا یہ تاریخی قدم اسے انتخابات میں شکست سے نہیں بچا سکا اور اس انخلا کا سہرا ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کو تقریباً مفت میں نصیب ہو گیا۔ امریکی میڈیا پر اس کے بعد متوقع تنقیدی بحث چھڑی لیکن اس کی شدت وہ نہیں تھی جس کے ڈر سے پچھلے ادوار میں اس فیصلے سے احتراز کیا گیا۔

آخری تجزیے میں ایسے تمام فیصلوں کو نفع نقصان کے میزانیے میں ڈال کر تولا جاتا ہے تو وہ بھی تول کر دیکھ لیتے ہیں۔ مالی نقصان دیکھیں تو بیس سالہ جنگ میں امریکا کا دفاعی خرچہ ساڑھے آٹھ سو ارب ڈالر تھا جو مڑ مڑ کر اسی کے دفاعی ٹھیکیداروں میں بٹ گیا جبکہ اصلاحات، انتظامات اور انفراسٹرکچر پر خرچہ ایک سو تیس ارب ڈالر رہا جو کہ ایک دفعہ پھر امریکی کمپنیوں کے ذریعے خرچ ہوا۔ کل ملا کر یہ خرچہ 980 ارب ڈالر یا ایک ٹریلین ڈالر سے کچھ کم رہا۔ بالواسطہ قیمت کا اگر حساب لگایا جائے تو کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ تخمینہ 2 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جاتا ہے لیکن محمکہ دفاع کے کاغذات کے حساب سے ہونے والا خرچہ وہی ایک ٹریلین ڈالر سے کم رہتا ہے۔

سننے میں یہ بڑی رقم ہے۔ ایک ہزار ارب ڈالر۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے جہاں ہر سال ہمیں ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اسے ذرا امریکی پس منظر میں دیکھ لیجیے۔ 2008 کے امریکی مالیاتی بحران میں امریکی اداروں کو پہنچنے والا نقصان دو ہزار ارب ڈالر تھا جو کہ افغانستان میں بیس سالہ خرچے سے دوگنا تھا۔ امریکی معیشت نے نہ صرف اسے برداشت کیا بلکہ اس بحران کی دو مرکزی کمپنیوں فینی مے اور فریڈی میک کو بچانے کے لیے حکومتی خزانے سے مزید دو سو ارب ڈالر بھی خرچ کیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں میں کورونا سے نپٹنے کے لیے بھی پہلے ایک ہزار نو سو اور پھر دو ہزار دو سو ارب ڈالر محض ایک سال کے لیے مختص کر دیے گئے جو کہ افغانستان کے بیس سالہ مجموعی خرچے سے پھر دوگنے ہیں۔

اب ہمارے یہاں پائے گئے پاپولر بیانیے کے برعکس یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس افغان جنگ نے امریکی معیشت پر کیا برے اثرات مرتب کیے۔ 2001 میں جب امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو اس کی مجموعی قومی پیداوار گیارہ ہزار ارب ڈالر تھی جو کہ 2021 میں انخلا کے وقت دگنی ہو کر بائیس ہزار ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ ڈاؤجونز صنعتی اوسط جو کہ 2001 میں 10,199 پوائنٹس پر تھی وہ اب 2021 میں 33,379 پر ہے۔ نیسڈیک انڈیکس جو کہ سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کا مظہر ہے، 2001 میں 2029 پوائنٹس پر کھڑا تھا جب کہ 2021 میں یہی انڈیکس 13,868 پوائنٹس پر ہے۔ یاد رہے کہ 2021 میں کورونا کے باعث امریکا کے تمام معاشی اشاریے سخت متاثر ہوئے ہیں ورنہ یہ اعداد اس سے کہیں بہتر ہوتے۔

اب آ جائیے جانی نقصان کی طرف۔ اس بیس سالہ قیام میں امریکی افواج کے قریبا 2400 فوجی مارے گئے۔ یعنی فی سال 120 فوجی۔ ایک باقاعدہ جنگ اور اس کے بعد گوریلا وار زون میں بیس سال کی مدت میں یہ جانی نقصان ہر موازنے پر بہت کم رہا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ کسی ایک جان کی قیمت کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس دور میں قریبا ستر ہزار افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے اپنی جان دی۔ پچاس ہزار سے زائد جانوں کا نقصان امریکا مخالف دھڑوں نے برداشت کیا جبکہ شہری اموات کا تخمینہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے بیچ میں ہے۔ کچھ تجزیہ کار ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک پانچ لاکھ شہری اموات اس خطے کو سہنی پڑی ہیں جس کا الزام امریکی مداخلت اور افغان وار لارڈز کی آپس کی کشمکش دونوں پر ڈالا جا سکتا ہے لیکن اس سے کوئی منکر نہیں ہے کہ 2001 میں امریکی مداخلت نے ہی اس عظیم جانی نقصان کی بنیاد رکھی۔

اس المیے میں امریکی جانوں کا زیاں ایک ڈیڑھ فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے بعد بھی امریکی میڈیا پر یہ سوال اب بھی اٹھ رہا ہے کہ ان جانوں کی قربانی آخر کس مقصد کے لیے دی گئی کہ افغانستان پہلے سے زیادہ غیر مستحکم ہے۔ اس کا جواب جو کارپوریٹ مفادات، خطے میں امریکی بالادستی، افغان خانہ جنگی، دہشت گرد گروپوں کی علاقائی کشمکش کے فروغ اور عالمی منظر نامے کی نئی تشکیل کی دھند میں لپٹا ہے، شاید اس امریکی کو قابل قبول نہ ہو جس نے اپنی اولاد اس جنگ میں کھوئی ہے لیکن کڑوا سچ یہی ہے اور اس سے امریکا کو طویل المدتی فائدہ ہی ہوا ہے، نقصان نہیں۔ پر ہمارے خوش فہم افغان فتح اور امریکی شکست کا ڈھول بجانے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں اب ایک نئی بھڑکتی ہوئی آگ نظر ہی نہیں آ رہی جس میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا جلنا بھی مقدر ٹھہرا ہے۔

اسے سادہ لوحی ہی کہا جا سکتا ہے اگر کوئی یہ یقین رکھے کہ امریکا اس خطے سے ہزیمت اٹھا کر فرار ہوا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی ایوانوں میں 2014 میں ہی ہو چکا تھا کہ اس خطے سے اب بتدریج انخلا ہی امریکی مفاد میں ہے۔ سوال صرف یہ تھا کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بٹھایا جائے کہ انخلا کے بعد بھی کسی اور قوت کو، خواہ وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو، اس خطے میں قدم جمانے کا موقع نہ مل سکے۔ پاکستان، روس اور چین تو کسی بھی صورت نہیں۔ اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کیا حکمت عملی وضع کی جا سکتی ہے۔

یہ بات سمجھنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ طالبان نے افغانستان کا اقتدار ہلمند، بامیان یا ہرات کے میدانوں میں نہیں، دوحا کی مذاکراتی میز پر حاصل کیا ہے۔ ایسے مذاکرات ہمیشہ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے رہے ہیں۔ کیا اس نئے دور میں طالبان نئے امریکی مہروں کا کردار ادا کریں گے یا پڑوس میں پائے جانے والے خدشات کے مطابق پاکستان اور چین کی گود میں پلیں گے، یہ تو وقت ہی بتا سکے گا لیکن یہ امر واضح ہے کہ امریکا کم ازکم اس وقت طالبان کے اقتدار کا خواہاں نظر آتا ہے۔

بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے لیے یہ حقیقت حیران کن تھی کہ تین لاکھ افغانی افواج نے طالبان کے آگے کوئی مزاحمت نہیں کی البتہ وہ لوگ جو افغانستان کی بدلتی صورت حال کو قریب سے دیکھ رہے تھے ان کے لیے اس میں بھی کوئی چونکا دینے والی بات نہیں تھی۔ 2017 میں منظر عام پر آنے والی کئی رپورٹوں میں اس بات کی طرف اشارے دے دیے گئے تھے کہ افغان فوج کا کم ازکم ساٹھ سے ستر فی صد ایک بھوت فوج یا گھوسٹ آرمی پر مشتمل ہے جس کا وجود محض کاغذوں میں ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں وارلارڈز کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے یہ بنیادی طور پر ایک رشوتی حربہ تھا کہ ان کی پرائیویٹ ملیشیاز کو افغان فوج کا حصہ دکھایا جائے اور ان کی تنخواہوں اور مراعات کے نام پر بڑی تعداد میں رقومات ان وار لارڈز کو دی جاتی رہے۔ ظاہر ہے کہ اس گھوسٹ آرمی کا کبھی کسی مرکزی ڈھانچے سے تعلق رہا اور نہ ہی کبھی ان کی کسی ایسی عسکری تربیت کا اہتمام ہوا جس میں انہیں مزاحمتی یا جارحانہ وار فیئر سکھائی جاتی۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے یہ گروہ ہمیشہ طاقت کے مرکزی دھارے کے ساتھ جڑنے میں اپنی عافیت دیکھتے ہیں خواہ وہ مرکزی دھارا واشنگٹن سے پھوٹتا ہو خواہ قندھار سے۔

جو فوج اس کے بعد باقی بچی اس کی بیس سال میں جو بھی تربیت ہوئی اس کا محور امریکی فضائی قوت تھی جس کی چھتر چھایا میں انہوں نے لڑائی کرنا سیکھی۔ اشرف غنی سے لے کر اجمل عمر شنواری اور جنرل میر اسداللہ تک اس بات کے شاکی نظر آئے کہ یہ فضائی چھتری راتوں رات غائب ہو گئی اور اس کے بغیر ان کے لیے لڑنا ناممکن ہو گیا۔ ان شکووں کے باوجود یہ بات ماننا مشکل ہے کہ افغان کے ایوان اقتدار میں یہ احساس اچانک ہوا ہو۔ کئی ماہ سے جاری طالبان امریکا مذاکرات کس سمت جا رہے تھے، یہ سب کو معلوم تھا۔ اگر امریکا افغانستان کی موجودہ حکومت کو اقتدار میں رکھنے میں دل چسپی رکھتا تو شاید ان سالوں میں وہ ایک چھوٹی لیکن مستعد افغان فضائیہ میں سرمایہ کاری کر سکتا تھا، تربیت اور اسلحے کا اہتمام اور چھوٹی ملیشیاؤں کو ایک مرکزی دھارے کے تحت لانا بھی ایک حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مرکزی حکومت مالی معاملات میں خود انحصاری کیسے حاصل کر سکتی ہے، اس پر توجہ مرکوز رکھی جا سکتی تھی۔ لیکن اس میں سے کچھ نہیں کیا گیا۔

امریکا افغانستان میں اپنے قیام کے آخری سال تک پیداواری اور صنعتی ڈھانچے کو مربوط بنانے کے بجائے محض جہازوں میں بھر کر آنے والے کاغذی ڈالرز سے افغان معیشت کو چلانے میں مشغول تھا۔ جس دن یہ جہاز آنے بند ہوئے، کاروبار معیشت بھی ٹھپ ہو گیا۔ پچھلے کئی ماہ سے افغان فوج کے بڑے حصے کو تنخواہیں تک ادا نہیں کی گئیں جبکہ مختلف علاقوں میں امریکی انخلا سے تین چار ماہ پہلے سے طالبان نے انہی فوجیوں اور ان کے رہ نماؤں میں رقوم کی براہ راست تقسیم شروع کر دی تھی اور اس رقم کے ساتھ شرط یہ تھی کہ ان میں سے کوئی دھڑا طالبان کی پیش قدمی کے وقت مزاحم نہیں ہو گا۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان نے یہ رقم ہیروئن ٹریڈ اور جرائم کے نیٹ ورک سے کمائی لیکن کوئی بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد اس دادودہش کے پیچھے بھی کچھ بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کا کھرا نکل آئے۔

طالبان اپنے پچھلے دور میں مالیاتی، صنعتی، تعلیمی اور طبی ہر لحاظ سے ناکام رہے تھے۔ بڑے شہروں میں بجلی تک موجود نہیں تھی۔ مرکزی بینک کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔ انتظامی اخراجات کمانداروں کے پاس تھے اور ترقیاتی منصوبے صفر تھے۔ ہاں، ایک مبنی بر خوف امن کا دعوی ضرور تھا۔ اب ان کا نیا دور پچھلے دور سے کتنا مختلف ہو گا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں انہوں نے دل و جان سے امریکی فوج کو سیف پیسج فراہم کیا ہے وہاں انہوں نے موسیقی پر پابندی لگا دی ہے۔ فنکاروں اور صحافیوں کے روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ عورتوں کی کاروبار زندگی میں شمولیت پردے سے مشروط کر دی گئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا ہے اور ایک عام افغان جہاز کے پہیوں سے لٹک کر ہجرت پر مجبور ہو گیا ہے۔ باقی رہی ان کی ٹیم تو اس کی قابلیت تو اظہر من الشمس ہے ہی۔

ہم نے افغانستان میں مقدس سمجھی جانے والی تزویراتی گہرائی سے منشیات اور اسلحے کے علاوہ دہشت گرد گروپ کمائے، سوات اور اے پی ایس کی بربریت کمائی۔ افغان دشمنی کمائی، مہاجر کمائے، اپنے شہری اور دیہی ڈھانچے کی سرحدوں کے قریب تباہی کمائی، اپنی ہی سرحدوں کے اندر بمباری پر مجبور ہونے کی روایت کمائی، نیٹو سپلائی سے اپنی سڑکوں کی بربادی کمائی، ہزار کلومیٹر طویل خاردار تار کمائی اور ہاں، اس سب کے ساتھ ساتھ کچھ ڈالر بھی کما لیے۔ اب دوبارہ یہی تاریخ دہرائے جانے کا وقت ہے پر ہم صرف اس بات پر خوش ہیں کہ وقتی طور پر سہی، بھارت کو افغانستان سے مراجعت کرنی پڑی ہے۔ پر یاد رہے کہ آگ بھڑکتی ہے تو دور پار کے گھر اس کی لپیٹ میں نہیں آتے ہاں جن سے دیوار ملی ہو ان تک تپش ضرور پہنچتی ہے اور مزید احتیاط نہ برتی جائے تو ادھر کے شعلے ادھر بھی گھر پھونک دیتے ہیں۔ آپ جس بات کا بھی جشن منانا چاہتے ہیں، شوق سے منائیے پر اب کی بار آنکھیں کھلی رکھیے گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments