انڈیا اور طالبان کی دوحا میں پہلی باضابطہ ملاقات


کابل
امریکہ کے انخلا کے بعد کابل میں زبردست ہوائی فائرنگ کی گئی
انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکی فوج کے انخلا کے بعد پہلی مرتبہ انڈیا کا طالبان کی اعلی ترین قیادت سے منگل کو باضابطہ طور پر رابط ہوا ہے۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے اعلان کے مطابق منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انڈیا کے سفیر اور طالبان کے اعلی ترین رہنما کے درمیان ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات کے بارے میں انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک مختصر سا بیان جاری کیا گیا ہے لیکن طالبان کی طرف سے اس بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آئی۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ یہ دعوی کر رہی ہے کہ ملاقات طالبان رہنما کی درخواست پر دوحہ میں انڈیا کے سفارت خانے میں ہوئی جبکہ برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کی خبر میں کہا گیا ہے کہ یہ ملاقات دوحا میں طالبان کے سیاسی دفتر میں ہوئی۔

انڈیا نے کہا ہے کہ انڈیا کے سفیر دیپک متل سے طالبان رہنما شیر محمد عباس ستانکزی ملنے انڈین سفارت خانے آئے۔

انڈین وزارتِ خارجہ کے مطابق ملاقات میں امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں رہ جانے والے انڈین شہریوں کے تحفظ اور ان کی جلد از جلد بحفاظت انڈیا واپسی کے بارے میں بات ہوئی۔ انڈیا کے سفیر نے انڈیا سفر کی خواہش رکھنے والے افغان شہریوں اور خاص طور پر اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کا معاملہ بھی ملاقات میں اٹھایا گیا۔

انڈیا کے سفیر نے انڈیا میں پائی جانے والی اس تشویش کا اظہار بھی کیا کہ انڈیا کی مخالف شدت پسند تنظیمیں افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے انڈیا پر دہشت گردی کے حملے کر سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد شدت پسند عناصر کے خطے کے دوسرے ملکوں میں پھیلنے کے بارے روس اور چین کے علاوہ خطے کے تمام ملکوں کی طرف سے بھی خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے اور طالبان کی طرف سے سب کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کی خبر میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کو شدت پسند نظریات اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے ہمیشہ سے طالبان کے بارے میں شدید تحفظات رہے ہیں۔

انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان نے ان تمام معاملات کو مثبت انداز میں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یاد رہے کہ انڈیا اور افغانستان میں امریکی پشت پناہی میں قائم ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ قریبی سفارتی اور سیاسی تعلقات تھے اور انڈیا نے گزشتہ بیس برس میں افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبے پر 3 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی۔

روائٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت ڈھیر ہونے اور طالبان کی تیزی سے پیش رفت پر انڈیا کے اندر مختلف سیاسی، دفاعی اور سفارتی تجزیہ کاروں کی طرف سے نریندر مودی کی حکومت پر طالبان سے رابط نہ کرنے پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔

انڈیا نے اس سال جون میں دوحا میں طالبان رہنماؤں سے غیر رسمی روابط قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

انڈیا نے افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے علاوہ افغانستان کی فوج کو تربیت بھی دی تھی اور انھیں اسلحہ اور ہیلی کاپٹروں سمیت فوجی ساز و سامان بھی فراہم کیا تھا ۔

سنہ 1990 کی دہائی میں جب طالبان کے افغانستان میں پہلے دورے اقتدار کے دوران انڈیا، روس اور ایران کے ساتھ مل کر طالبان مخالف شمالی اتحاد کے جنگجو سرداروں کی مدد کرتا رہا تھا۔

روائٹرز نے انڈین ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ستانکزی جو 1980 میں افغان فوج کے ایک اہلکار کی حیثیت سے انڈیا کی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کر چکے ہیں انھوں نے گزشتہ ماہ انڈیا سے رابطہ کر کے کابل میں انڈیا کے سفارت خانے کو بند نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp