محنت کا اسلوب


انسانی زندگی انسانی سوچ ہی کی مانند پیچیدہ ہے۔ جیسے ہر فرد اپنے مزاج اور اپنی سوچ میں یکتا ہے اسی طرح زندگی اور اس کی آزمائشیں بھی منفرد ہیں۔ ہر فرد کے لحاظ سے یہ مختلف صورت اور مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں کیونکہ اس کا انحصار اور دار و مدار انفرادی مزاج ’انفرادی سوچ اور انفرادی ردعمل پہ ہے۔ دانائے راز بتاتے ہیں کہ کسی ایک کا کھانا دوسرے کے لئے زہر ثابت ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک ہی صورتحال میں مختلف طرز عمل یقیناً مختلف نتیجہ ہی دے گا۔ کوئی بھی ایک انجام صرف انجام نہیں ہے وہ ایک نئی شروعات کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔

بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ اللہ کریم کوئی بھی در اس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک وہ کوئی متبادل در نہیں کھول دیتا۔ لیکن بسا اوقات انسان کم ہمتی ’بے یقینی‘ تھوڑ دلی اور پژمردگی میں اس بند کواڑ کو ہی تکے جاتا ہے کہ اسے نئے کھلنے والے دروازے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور یوں وہ ایک نئے اور شاید بہتر موقعے سے بے خبر رہتا ہے۔ زندگی میں مواقع ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی اعلیٰ و ارفع ہستی موجود ہے جو اپنے تئیں اس جہان کا نظام بہترین چلا رہا ہے۔

اس دنیا میں کچھ اصول اور ضابطے رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب کے لئے یکساں طے کر دیے گئے ہیں۔ مثلاً محنت کامیابی کی کنجی اور بنیادی شرط ہے تو یہ کلیہ اور اصول سب کے لئے ہے اور یہ سب محنت کرنے والوں پہ ایک جیسا ہی لاگو ہو گا اور اس کا ثمر بھی سب محنت کرنے والوں کو ملے گا۔ ایسا ممکن نہیں کہ خود کو مسلمان گردانتے ہوئے ہم ہاتھ پاؤں توڑ کے بیٹھے رہیں اور امید یہ رکھیں کہ اگلے موسم میں ہمیں کھجوریں ملیں گی اور وہ بھی گٹھلی کے بغیر۔

کچھ چیزوں میں انسان ضرور بے بس ہے اور وہاں اس کا دائرہ اختیار بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کسی کا چیزوں کا علم ’فہم اور ادراک بھی فرداً فرداً اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہے۔ لیکن اپنے کام میں مہارت کا دار و مدار صرف محنت پہ ہے۔ جس قدر محنت کی جائے گی‘ ہنرمند بھی ویسا ہی مشاق ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ کئی زیاں کار وہ چیز بھی دعا میں مانگ رہے ہوتے ہیں جو کافر اپنی محنت سے حاصل کر لیتا ہے۔

محنت اور دعا لازم و ملزوم ہے۔ بھرپور محنت کے بعد کامیابی کی دعا ایمان کا حصہ کہلائے گی۔ ہمارا ایمان ہے کہ خیرو شر سب اسی وحدہ لاشریک ہی کی جانب سے ہے اور وہ قادر مطلق بے نیاز ہے۔ ہمارا چاہنا بھی اس کے چاہے جانے سے مشروط ہے۔

محنت اور دعا میں ایک قدر یہ بھی مشترک ہے۔ کہ جیسے دعا رد نہیں کی جاتی۔ یعنی یا تو آرزو پوری کر دی جاتی ہے یا اس کا بہتر نعم البدل دے دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی محنت کے ساتھ بھی ہے کہ محنت بھی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ فوراً اگر پھل نہ بھی دے تو کچھ وقت بعد اپنا اثر اور ثمر ضرور دکھاتی ہے۔ محنت اور دعا دونوں ہی پتھر پہ دستک کا سا صبر مانگتی ہیں۔ صبر اور خلوص کی دستک سے کامیابی کا دروازہ ضرور کھلے گا اگر دروازے کے پیچھے پتھر نہ ہوا تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments