سٹریٹ وزڈم


ہر بندے کا ریلیکسیشن، ذہنی سکون اور سوچ کے بدلاؤ کے لئے الگ الگ طریقے اور وسیلے ہیں۔ میں چونکہ وکیل ہوں اور مڈل کلاس سے میرا تعلق ہے تو میرا زیادہ تر موکل بھی مڈل کلاس کے ہوتے ہیں۔ لہذا میرے ذہنی ریلیکسیشن کا واحد ذریعہ یہ مڈل کلاس کے لوگ ہیں جب میں ان کے درمیان ہوتا ہوں تو میں خاموشی سے صرف اور صرف ان کو سنتا ہوں۔ اسی طرح ایک حضرت گل کاکا ( چاچا ) میرے پرانے موکل ہیں اور اکثر ایک سماجی خدمت گزاری کے لئے لوگوں کے ساتھ کورٹ کچہری آتے رہتے ہیں۔

لیکن جب بھی آتے ہیں تو میرے پاس ضرور آتے ہیں، بیٹھتے ہیں، چائے شائے پی کر جو بھی تازہ صورت حال ہوتی ہے اس پر اپنی سمجھ کے مطابق رائے زنی کرتے ہیں اور میں ان کو جب تک وہ بولتے ہیں سنتا رہتا ہوں اور ان کا ایک تکیہ کلام ہے کہ باتوں کے دوران بیچ بیچ میں بات کو میرے سامنے دہراتے ہیں مثلاً جب وہ بول رہے ہوتے ہیں کہ آج پیٹرول دس روپے مہنگا ہو گیا تو مجھ سے دھرا کر پوچھتے ہیں وکیل صاحب کتنے روپے مہنگا ہو گیا؟

تو میں جواباً بولتا ہوں دس روپے یا جب وہ بولتے ہیں کہ کل میں رش کی وجہ سے چار گھنٹوں کی تاخیر سے گھر پہنچا ہوں تو دہرا کر پوچھتے ہیں کہ کتنے گھنٹوں کی تاخیر سے پہنچا ہوں تو میں ان کے ساتھ تکرار کر کے بولتا ہوں چار گھنٹوں کی تاخیر سے تو تب وہ آگے مزید بولنے کے لئے بڑھتے ہیں گو کہ مجھے ان کی اس عادت سے کوفت ہوتی ہے پر خود کو بولنے سے بچانے یا خود کو ایزی رکھنے کے لئے ان کو سنتا ہوں اور ان کو یہ احساس دلاتا ہوں کہ میں ان کو توجہ سے سن رہا ہوں جب ہی تو وہ بہت انہماک سے بول رہے ہوتے ہیں اور میں ان کو ایک اچھے سامع کی طرح سنتا ہوں۔ نصابی لحاظ سے تو اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں پر زمانے کے اکتسابی تجربہ گاہ میں اتنا پڑھ لکھ گئے ہیں کہ مجھ جیسے نصاب زدہ کو تو کبھی کبھار اتنا حیران کر دیتے ہیں کہ مجھے مہا کے دانشور، باخبر، باشعور اور مہا مہا کے پڑھے لکھے لگنے لگتے ہیں۔

آج جب اکتیس اگست کو آئے تو معمول کی دعا سلام اور چائے نوشی کے بعد وہ بڑے بے صبرے دکھائی دے رہے تھے جیسا کہ آج ان کے ساتھ بولنے کو بہت کچھ ہے لیکن میں دیگر موکلین کے ساتھ قانونی معاملات کے باہم مشوروں میں جکڑا ہوا تھا لیکن ان پر بھی نظر رکھی ہوئی تھی جیسے کہ وہ یہ بول رہے ہوں یا چاہتے ہوں کہ یہ موکلین جلد سے جلد یہاں سے چلے جائیں اور وہ اپنے بولنے کی ساری جمع پونجی میرے سامنے رکھ دیں۔ آج ان کے صبر کا امتحان تھا لیکن وہ اس ازمائش میں کامیاب ہوئے اور جب رش، مشوروں اور موکلین کا سمے سماپت ہوا تو وہ اپنا گلہ تازہ کرتے ہوئے بولے اور وکیل صاحب کیا نئی تازی ہے؟

گو کہ نئی تازی ان کے پاس تھی لیکن بات شروع کرنے کا بہانا ڈھونڈنا چاہ رہے تھے یا یہ کہیں کہ یہ ان کی بات کرنے کا معمول کا حربہ تھا۔ تو میں نے ویسے ہی ان سے کہا کہ بس امن ہے خیریت ہے کوئی نئی تازی تو اب تک نہیں ہے۔ جس پر وہ بولے اتنا کچھ ہوا اور آپ بولتے ہیں کوئی نئی تازی بات نہیں۔ یہ جو امریکہ افغانستان سے چلا گیا یہ معمولی بات ہے۔ تو میں نے پھر ان کو چھیڑنے کے لئے بولا چلا گیا، تو چلا گیا، طالبان نے بھگا دیا طالبان نے ایک اور سپرپاور کو شکست دے دی۔

جس پر وہ بیٹھے بیٹھے بات کرنے کے لئے اپنے جسم کے احاطے کا زاویہ بدل کر بولے وکیل صاحب یہ امریکہ کی کوئی شکست نہیں یہ ان کی چال ہے اور یہ ساری چال چائنہ کے لئے ہے۔ اب سرد جنگ کا ایک اور دور شروع ہونے والا ہے پھر سے ہم پر امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا نظر کرم ہونے والا ہے۔ جس طرح روس کے خلاف میدان جنگ افغانستان بنا رہا اور ہم پر عنایات کی بارش برس رہی تھی۔ جس طرح عام افغانی مر رہا تھا اور ان کے وارلارڈ دونوں ہاتھوں سے ڈالر لوٹ رہے تھے اس بار بھی یہی ہوگا۔

یہ جو سی پیک ہے پتہ نہیں بولا جا رہا ہے کہ یورپ تک جائے گا تو آپ خود وکیل ہیں آپ بتائیں امریکن وہاں تک یہ جانے دیں گے، ہرگز جانے نہیں دیں گے۔ روس کو تو گرم پانی تک آنے سے روکا گیا لیکن چائنا تو آ چکا ہے اس بات کو امریکہ اور اتحادی برداشت کر لیں گے۔ روس کو مارنے کے لئے عالمی طاقتوں نے افغانستان میں باچاہی نظام ختم کر دیا تھا جو اس وقت کی ضرورت تھی لیکن اب یہ اس باچاہی نظام کو پھر بحال کرنے جا رہے ہیں کیونکہ یہ اب اس وقت کی ضرورت ہے۔

اس وقت پاکستان میں مارشل لاء لگایا گیا جو اس وقت کی ضرورت تھی اور اس وقت چائنا کو مارنے کے لئے امریکن کو کس طرح نظام کی ضرورت ہے یہ اس وقت کی بات ہے بس تھوڑی سی صبر کی ضرورت ہے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ وہ تکیہ کلام کے مطابق تکراراً بولے کیا ہو جائے گا؟ میں نے اس کی بات دھرا کر بولا سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ لیکن میں نے اپنی خاموشی توڑ کر ان سے کہا حضرت گل یہ ممکن نہیں ہے اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ وہ بولے وکیل صاحب کچھ نہیں بدلا، بدلاؤ تو اب آئے گا۔

میں نے ان سے کہا کہ کس ذریعے اور وسیلے سے آپ اتنی بڑی بات کہہ رہے ہو؟ تو وہ پھر بولے وکیل صاحب میرا دل میرا بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہے میرا دل بولتا ہے کہ ایسا ہوگا۔ تو میں نے بولا آج کل تو دل بھی دھوکہ دے دیتا ہے، ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ دل کا کیا بھروسا تو وہ بولے اگر دل کا تم خیال رکھو گے تو وہ کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور میں اپنے دل سے مطمئن ہوں میں نے ساری عمر اپنے دل کا خیال رکھا ہے میں نے اس دل کو مطمئن اور صحیح سالم رکھنے کے لئے ہر اس غذا سے پرہیز کیا جو اس کے لئے درست نہیں تھا۔

میرا دل مجھے دھوکہ نہیں دیتا وہی ہوگا جو میرا دل کہتا ہے۔ اگر امریکہ اور مغربی دنیا کو طالبان کی حکومت یا ان کا لایا ہوا نظام قابل برداشت ہے تو یہاں اگر پھر سے ضیائی صورت میں بدلاؤ آتا ہے تو وہ امریکہ اور مغربی دنیا کو کیوں برداشت نہیں ہوگا بلکہ لانے والے ہی وہ ہوں گے! اور دونوں ہاتھوں سے تالی بجا کر ایک زناٹے دار آواز کا ارتعاش پھیلا کر چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments