افغان ڈریمرز: نوعمر لڑکیوں کی روبوٹکس ٹیم طالبان سے بچ کر جانے میں کیسے کامیاب ہوئیں؟


افغان ڈریمرز
میکسیکو کے وزیر خارجہ مارسیلو ایبراڈ، میکسیکو سٹی ایئرپورٹ پر 'افغان ڈریمرز' کا استقبال کرتے ہوئے
افغانستان کی 'افغان ڈریمرز' کبھی ملک میں خواتین کے لیے امید کی ایک کرن ہوا کرتی تھیں۔

یہ 13 سے 18 سال کی 20 نوعمر لڑکیوں کا ایک گروہ ہے جنھوں نے ایک ایسے ملک کی پہلی خاتون روبوٹکس ٹیم تشکیل دی جہاں سائنس کی ترقی کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور خواتین کے لیے مواقع اس سے بھی کم تھے۔

تاہم 15 اگست کو طالبان کے تیزی سے افغانستان پر قبضے نے ان کی تمام تر کامیابیوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ طالبان نے 1990 کی دہائی میں اپنے گذشتہ دورِ حکومت کے دوران خواتین کی تعلیم اور کام کرنے پر بہت پابندیاں عائد کی تھیں۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ‘افغان ڈریمرز’ کی طرح ہزاروں افغان شہریوں کو طالبان کی جانب سے پابندیوں اور سختیوں کے خوف سے اپنا ملک چھوڑنے کا سخت فیصلہ کرنا پڑا اور دیگر ممالک میں جا کر پناہ لینی پڑی ہے۔

اسی طرح چھ ممالک اور افسرشاہی کا ایک سمندر عبور کر کے ‘افغان ڈریمرز’ روبوٹک ٹیم کی پانچ بانی اراکین: فاطمہ قدریان، لیڈا عزیزی، کوثر روشن، مریم روشن اور ساغر صالحی گذشتہ منگل میکسیکو میں عارضی پناہ لینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

’صنفی برابری والی دنیا‘

یہ لڑکیاں اس بڑے افغان پناہ گزین گروہ کا حصہ ہیں جو آنے والے دنوں میں میکسیکو اور دیگر لاطینی ممالک پہنچے گے۔ ان کے میکسیکو پہنچنے پر میکسیکو کے وزیر خارجہ مارسیلو ایبرارڈ نے ٹویٹ کیا کہ ‘خوش آمدید، یہ افغانستان کی روبوٹک ٹیم کا حصہ ہیں اور وہ صنفی برابری والی دنیا کے خواب کے لیے کوشاں ہیں۔‘

Afghan asylum seekers at their arrival in Mexico

میکسیکو نے افغان صحافیوں اور طلبا کی بڑی تعداد کو بھی پناہ دی ہے

میکسیکو کی حکومت کے مطابق ان لڑکیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزہ دیا گیا ہے جو انھیں میکسیکو میں چھ ماہ تک رہنے کی اجازت دے گا اور اس میں ممکنہ توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ انھیں مختلف اداروں کی معاونت سے مفت رہائش اور کھانا دیا جائے گا۔

حکومت کے اس اقدام کو سراہاتے ہوئے انسانی حقوق کی گروہوں نے میکسیکو کی حکومت پر تنقید کی ہے کہ افغان لڑکیوں کا جس طرح سے پرتپاک استقبال کیا ہے اس کے مقابلے میں امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر جانے والے تارکین وطن کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے اور اکثر ان تارکین وطن کو ملک میں داخلے کی اجازت نہ دیتے ہوئے ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیج دیا جاتا ہے اور بہت سے افراد کو برے سلوک اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

یہ لڑکیاں کون ہیں؟

The

’افغان ڈریمرز‘ روبوٹک ٹیم نے سنہ 2017 میں ایک بین الاقوامی مقابلے میں خصوصی ایوارڈ جیتا تھا

‘افغان ڈریمرز’ کو چار برس قبل ایک ٹیکنالوجی کپمنی کی مالک رویا محبوب نے قائم کیا تھا، جو ڈیجیٹل سٹیزن فنڈ چلاتی تھیں۔

یہ ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ترقی پذیر ممالک کی خواتین اور لڑکیوں کو ٹیکنالوجی اور سائنس، انجینئرنگ، ریاضی، روبوٹکس جیسے مظامین تک رسائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔

اس منصوبے کی بنیاد شمالی افغانستان کے صوبے ہرات میں رکھی گئی تھی تاکہ خواتین میں سائنس کو فروغ دیا جا سکے اور ایک ایسے ملک میں خواتین کو بااختیار بنائے جائے جہاں ماضی میں طالبان کے دور میں ان کا معاشرہ میں کردار بہت محدود تھا۔

اس گروہ کے قائم ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی سنہ 2017 میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک بین الاقوامی روبوٹکس چیمئین شپ مقابلے میں جب انھوں نے ایک سپیشل ایوارڈ جیتا تو انھیں دنیا کی توجہ ملنے لگی۔

ان کا یہ ایوارڈ جیتنا حیران کن تھا کیونکہ نہ صرف وہ ایک ایسے ملک سے آئیں تھی جہاں خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ انھوں نے امریکہ تک پہنچنے کے لیے بھی بہت سے مشکلات کو عبور کیا تھا۔

اس مقابلے میں شرکت کی اجازت ملنے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان سے کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ انھوں نے ہرات سے کابل میں امریکی سفارتخانے آنے تک کے لیے آٹھ سو کلومیڑ سے زیادہ زمینی سفر کیا تھا۔

جب وہ وہاں پہنچیں تو امریکی سفارتخانے نے انھیں ویزہ دینے سے انکار کر دیا، انھوں نے دوبارہ ویزہ کی کوشش کی اور انھیں دوبارہ انکار کر دیا گیا۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خصوصی اجازت ملنے پر انھیں امریکہ آنے کی اجازت ملی تھی۔ مگر امریکی ویزہ ملنے پر ان کی مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔

واشنگٹن آنے سے کچھ ہی دن قبل افغان حکومت نے ان سے وہ تمام مواد اپنے بضے میں کر لیا تھا جو وہ اس مقابلے میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ بلآخر جب یہ نوعمر لڑکیاں واشنگٹن پہنچے میں کامیاب ہوئی تو ان کو سفر میں پیش آنی والی تمام رکاوٹوں کے باعث امریکی پریس کی توجہ ان پر پڑی۔

One of the Afghan team members at the 2017 International Robotics Championship shows her medal

کووڈ 19 کی وبا سے مقابلہ

اس کے بعد ان نوعمر لڑکیوں کو افغانستان میں بھی شہرت ملی۔ جب گذشتہ برس کورونا کی وبا کا آغاز ہوا تو انھوں نے ڈاکٹروں، انجیئنیروں اور ماہر تعلیم کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر اس چیلنج سے نمٹنے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔

ہرات کو مصنوعی تنفس کی مشینوں کی قلت کا سامنا تھا۔

ان نوعمر لڑکیوں کے گروہ ‘افغان ڈریمرز’ نے امریکی یونیورسٹی میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے انجینئروں اور کاروں کے سپیئر پارٹس کے ڈیزائن کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی تنفس کی مشینوں کو تیار کرنے کے منصوبے کی تجویز پیش کی۔

امریکی ماہرین سے اس کی پروٹوٹائپ کی منظوری کے بعد انھوں نے اس پر کام شروع کر دیا۔ بہت سے لڑکیوں نے ماہ رمضان کے باعث روزے کی حالت میں اس پر کام کیا۔

سماجی دوری کے باعث انھیں اکیلے اکیلے اس پر کام کرنا پڑا۔ ان میں سے کچھ صرف اس وقت ملتی تھیں جب اس مشین کے مخلتف ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنا ہوتا تھا جس پر انھوں نے علحیدہ علحیدہ کام کیا تھا۔

ان میں سے کچھ لڑکیاں کورونا سے متاثر بھی ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان آنے والے افغان شہری ’پناہ گزین‘ کیوں نہیں ہیں؟

’دنیا نے افغانوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں لیکن انڈیا نے مجھے واپس بھیج دیا‘

’والد کی ہلاکت سے بھی زیادہ صدمہ افغانستان چھوڑتے وقت ہوا‘

افغان روبوٹ ساز لڑکیوں کے لیے امریکی ویزا مسترد

افغانستان سے انخلا

جیسا کہ ‘افغان ڈریمرز’ بین الاقوامی سطح پر اور ملک میں کافی مقبول ہو گئیں تھی۔ ان میں سے بہت سے لڑکیاں سنہ 2001 کے بعد پیدا ہوئیں تھی جب طالبان کو نائن الیون کے حملے کے بعد امریکہ نے اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔

اس قدامت پسند اسلامی گروہ کے طاقت حاصل کرنے کے بعد یہ لڑکیاں ان کی جانب سے ممکنہ سخت پابندیوں سے خوفزدہ ہو گئیں۔ ملک چھوڑنے کی متعدد ناکام کوششوں کے بعد اس گروہ کی نو اراکین ڈیجیٹل سٹیزن فنڈ کی مدد سے قطر جانے میں کامیاب ہو گئیں۔

ڈیجیٹل سٹیزن فنڈ کی بورڈ رکن الزبتھ سکیفر براؤن نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جب ہم نے یہ سنا کہ کابل پر قبضہ ہو گیا ہے تو ہم قطری وزارت خارجہ سے رابطے کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انھوں نے فوری طور پر ان کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے ویزوں کا اجرا تیز کر دیا۔’

تب انھیں معلوم ہوا کہ میکسیکو نے ان کی پناہ کی درخواست قبول کر لی ہے۔ ان لڑکیوں کا میکسیکو سٹی پہنچ کر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘ انھوں نے نہ صرف ہماری جان بچائی بلکہ وہ خواب بھی بچائے جنھیں ہم پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

’ہماری کہانی کا برا انجام نہیں ہو گا‘

An

انھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے 'حالات ان کے لیے سازگار نہیں رہے تھے۔'

‘اس حکومت میں ہم لڑکیوں کو مشکلات کا سامنا ہے اس لیے ہم یہاں آنے پر شکر گزار ہیں۔‘ ‘ڈریمرز’ کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کی اسلامی قانون کی تشریح کے تحت ان کے لیے خود کو سائنس کے لیے وقف کرنا بہت مشکل ہوتا۔

ان لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ’طالبان کی وجہ سے ہماری کہانی کا انجام برا نہیں ہو گا۔‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان لڑکیوں کو پہلے ہی متعدد امریکی یونیوسٹیوں کی جانب سے تعلیمی وظیفے کی پیشکش مل چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp