کہانی قومی بچت سرٹیفکیٹ منافع فراڈ سے بچت کی


یہ آپ بیتی ان لوگوں کو محتاط ہونے کی درخواست لئے ہے، جو قومی بچت سکیم کے کسی بھی قسم کے سیونگز سرٹیفیکیٹ خریدتے ہیں اور منافع باقاعدگی سے وصول کرنے کی بجائے سال دو سال یا کئی سال بعد جا اکٹھا وصول کرتے ہیں۔ یہ کہانی کسی ایک برانچ کی نہیں بلکہ ہاتھ ہونے کے بعد پتہ چلا بہت سی اور اکثر شہروں میں اس نیکی میں شریک ہیں اور ہر ماہ لاکھوں کا فراڈ کر کے اجتماعی ثواب حاصل کیا جاتا ہے۔ کہانی کچھ طویل ہو تو ”گھبرانا نہیں“ خود کو اور دوسروں کو بچانا ہے۔

دو ہزار سات دسمبر میں پاکستان کے آخری چکر کے بعد واپسی پہ بچی رقم میں سے کچھ کے تو فیصل آباد کی قومی بچت سکیم کے ایک مرکز سے اور نکلنے سے ایک دن قبل لاہور کے ایک مرکز سے دو لاکھ کے بہبود سیونگز سرٹیفیکیٹ خرید لئے، کہ رقم ملک عزیز میں رہے۔ ہر سال چکر لگانے کا ارادہ کچھ پاکستان میں ”دن دوگنی رات چوگنی“ ترقی کرتی ابتر امن و امان اور مذہبی عصبیت کی صورت حال کی نذر ہو گیا اور کچھ دل ناداں کی نادانیوں نے رکاوٹ ڈال دی۔

بالآخر دو ہزار اٹھارہ کی جنوری میں بیگم صاحبہ اپنی پاکستان جاتی بھانجی کا ساتھ ملنے پر جانے کی ہمت کر گئیں۔ چنانچہ قومی بچت کی ویب سائٹ سے اور کچھ پاکستانی عزیزوں کی معرفت متعلقہ برانچوں سے طریق کار کا پتہ کر ان سرٹیفیکیٹس کو معہ منافع کیش کروانے کے لیے ٹورنٹو قونصلیٹ سے مطلوبہ مختار نامے حاصل کیے اور دیگر کاغذات تصدیق کروا لئے گئے، کہ سرٹیفیکیٹس میرے نام تھے اور کیش کرانے بیگم صاحبہ نے تھے۔ سرٹیفیکیٹس کے پیچھے دو جگہ دستخط کرنے ہوتے ہیں ایک اوپر اور دوسرے بطور وصول کنندہ جو رقم وصول کرتے وقت کیے جاتے ہیں اور اصولاً وہی کرے گا نا جو رقم برانچ کے کیش کاؤنٹر سے لے رہا ہو۔

چنانچہ اوپر دستخط کر کے ساتھ ہی علیحدہ یہ لکھ کے کہ یہ رقم میری بیوی کو دی جائے دوبار دستخط کر دیے، کہ وصولی والے خانہ میں بیگم وصول کرتے وقت کریں گی۔ عرض کرتا چلوں کہ میں انیس سو چھپن میں کاروباری اکاؤنٹ کھلوا چکا تھا جب میٹرک کا طالبعلم تھا اور ساری عمر تقریباً روزانہ بنک لین دین میں گزری اور ایسا چیک جس میں اصل مالک نے کسی اور کو رقم وصول کرنے کا اختیار دیا ہو آرڈر چیک کہا جاتا ہے۔ اور یہی طریق ہے۔

اب بیگم صاحبہ لاہور پہنچتے اگلے دن متعلقہ برانچ پہنچیں تو ارشاد ہوا کہ کاغذات نامکمل ہیں۔ اول یہ کہ رقم وصولی کے خانہ میں لئیق صاحب کے دستخط ہونے چاہئیں۔ ( بغیر رقم کے اندراج یا اس کی معہ منافع عدد کے ذکر کے ) ایک آدھ اور کاغذ کے علاوہ سب سے حیران کن علیحدہ بھی بلینک یعنی رسید وصولی، پرافٹ واؤچر، پر بلا کسی اندراج کے میرے کینیڈا بیٹھے کے لاہور برانچ میں موجود ہوتے وہ رقم وصول کیے جانے کا اقرار جس کا نہ اندراج نہ تعین۔

دوسرے یہ کہ تمام رقم پھر بھی بذریعہ سٹیٹ بنک چیک، جسے ملتے دو چار روز لگ سکتے ہیں، پہلے اصل زر اور بعد میں منافع کا صرف لئیق احمد کے پاکستانی بنک کے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکنے والا ملے گا۔ ( ذرا سوچیں پھر یہ مختار نامے والی حماقت کیوں۔ ذرا ان نکات کو یاد رکھیں اور ہاں ابھی ”گھبرانا بالکل نہیں“) خوش قسمتی سے میرا ایک اکاؤنٹ ایک بنک میں موجود تھا جسے میری اجازت ہے میرا بھانجا آپریٹ کر سکتا تھا۔ تو شکر کیا کہ چلو دیر سویر، ہو تو جائے گا۔

اگلے روز فیصل آباد برانچ سے بھی یہی جواب۔ پڑ گیا پھڈا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ جس دن میں نے سرٹیفیکیٹ بنوائے تھے تو میرے اگلے دن پہ ٹالنے کے جواب میں اصرار پر کہ علی الصبح میری روانگی ہے، میرا اوورسیز شناختی کارڈ دیکھ ایک افسر نے باہر آ مجھ سے روانگی کی تفصیل پوچھی اور میرے بتانے پر خوش ہوتے درخواست کی کہ اتفاقاً ان ( ان کا فرضی نام چیمہ صاحب سمجھئے ) کی بیوی کی بہن کو بھی شادی کے بعد خاندان کے پاس اسی فلائٹ سے ٹورونٹو جانا ہے، اور پہلی دفعہ ہوائی سفر ہونے کی وجہ سے سخت خوف زدہ ہے کیا آپ اس کے ساتھ رہ کر مدد کر سکیں گے۔

میں نے اپنا موبائل فون نمبر ان کو دیا اور ان کا لیا اور وہ بہت پیاری سی بیٹی نہ صرف ہماری ہمسفر رہی بلکہ یہاں آ کر ہم نے ان کا کھانا بھی کیا اور مبارک باد دینے بھی گئے تھے۔ مجھے تلاش پر خوش قسمتی سے ان کا نمبر مل گیا۔ انہیں فون ملا تعارف کرا مسئلہ بیان کیا کہ فرمانے لگے، بدقسمتی سے یہ ایسا ہی طریق کار بیوروکریسی کی مہربانی سے بنا ہے ورنہ پہلے تو اصل وصول کنندہ کے علاوہ کوئی اور قطعاً وصول ہی نہ کر سکتا تھا۔

کاش آپ نے مجھ سے پہلے رابطہ کیا ہوتا تو میں صحیح رہنمائی کر دیتا یا یہاں آ کر پہلے بیگم مجھے مل لیتیں تو میں کوئی طریقہ نکال لیتا۔ اب آپ کو یہ کچھ کرنا پڑے گا کہ وہ کہہ چکے اور میں، گو ترقی ہو چکی دور کی برانچ میں ہوں۔ پھر اصرار سے ہدایت دی کہ کاغذات مکمل آنے پر برانچ جانے سے پہلے مجھے ضرور مل لیں۔ ( ذرا اس فقرے کو بھی ”بغیر گھبرائے“ ذہن میں رکھئے ) ۔

میری بیگم کا پاکستان میں قیام صرف پانچ ہفتہ کا تھا مگر پھر خوش قسمتی کہ سبب یوں بنا کہ جس بچی کی معیت میں بیگم پاکستان گئی تھیں اس نے صرف دو ہفتہ قیام کے بعد واپس آنا تھا اور ٹورونٹو ائر پورٹ پہ ٹرانزٹ کرتے ڈیڑھ گھنٹہ بعد آگے ونی پیگ کی فلائیٹ لینا تھی اور مزید آٹھ دس روز بعد میری بڑی بیٹی کو پرنس جارج، برٹش کولمبیا سے ماں کو واپسی کا ساتھ دینے براستہ ٹورنٹو لاہور جانا تھا۔ چنانچہ پہلے ائر پورٹ جا کے لاہور سے آئے کاغذ وصول کیے اور ”رقم، جس کا پتہ بھی نہ تھا، وصول پائی“ کی رسیدوں پر دستخط کرتے الحمد للہ بیٹی کے ہاتھ واپس بھجوانے میں کامیاب ہو گئے۔

بیگم اور بیٹی میری چیمہ صاحب سے پہلے رابطہ کی ہدایت نظر انداز کر سیدھا برانچ جا پہنچے۔ کاغذات کا سقم دور ہو چکنے کا مژدہ سناتے کچھ کارروائی کرتے اصل زر بذریعہ سٹیٹ بنک دو تین روز بعد ملنے اور منافع مہربانی کرتے دو روز بعد ہی نقد دے دیے جانے مژدہ ملا۔ حاضری پر عزت سے مینیجر آفس میں بٹھایا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو لاکھ کے ان بہبود سرٹیفیکیٹس کا دس سال کے منافع کا کا کیش ادائیگی کا واؤچر مبلغ ایک لاکھ سرسٹھ ہزار کے لگ بھگ سامنے پڑا تھا۔

بیٹی نے کہا کہ ابو نے بتایا تھا کہ منافع دو لاکھ سے خاصا زیادہ ہونا چاہیے دوبارہ چیک کیجئے کہ حساب درست ہی کیا ہے نا۔ مینیجر صاحب نے دوبارہ چیک کروایا اور دو لاکھ بتیس ہزار آٹھ سو کا واؤچر لا حاضر کرتے حساب کی غلطی کی دلی معذرت چاہی اور خواتین ہنسی خوشی یہ رقم لے میرے پہلے سے مکمل رقم وصول شدہ ہونے کے دستخطوں کے ساتھ اپنے دستخط کر پرافٹ کوپن کی فوٹو سٹیٹ لے کے مجھے خوشخبری سناتی گھر آ گئیں اور اگلے روز جا کر سٹیٹ بنک سے آمدہ چیک وصول کر فیصل آباد کا رخ کیا اور وہاں کی برانچ میں کاغذات پیش کیے جو یہاں بھی درست قرار پائے۔

لاہور برانچ سے بھی ایسے سرٹیفیکیٹس کیش کروانے کا بتا دیا مگر منافع کی رقم نہ بتانے کی نیکی ہو گئی۔ دو تین روز کے چکروں کے بعد ایک روز اصل زر بھی نقد مل گیا اور باقی کا ابھی حساب نہ ہو سکنے کی وجہ سے ایک آدھ دن میں نقد ادائیگی کا بتا دیا کہ برانچ سے پرانا تعلق تھا اور دو روز بعد خود فون کر کے بلوایا اور تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار منافع فی لاکھ کے حساب سے منافع دستخط لے کے حوالہ کیا گیا۔ جب مجھے فون پر فوری بتایا تو رقم سن کر میں پریشان ششدر ہو گیا اور یہی گمان گزرا اور کہا کہ شاید اس برانچ سے الٹی غلطی ہو گئی کہ یہاں انیس دسمبر دو ہزار سات کو رقم جمع کرائی گئی اور دس سال کا منافع ایک لاکھ ساٹھ ہزار فی لاکھ کے لگ بھگ آیا (یہ جمعہ کا روز تھا) اور لاہور چوبیس دسمبر کو صرف پانچ روز بعد ہی جمع کرائی کا ایک لاکھ سولہ ہزار فی لاکھ۔

یا الہی ماجرا کیا ہے۔ بیٹی سے کہا کہ سوموار کو دوبارہ برانچ جا پتہ کریں تا غلطی سے زائد نہ آ گیا ہو اور بعد میں آڈٹ پہ تو سامنے آنا ہے عملہ کو مصیبت اور نقصان نہ ہو۔ اچانک ذہن میں آیا کہ لاہور برانچ والے پہلے دو لاکھ کا ایک لاکھ سرسٹھ لاکھ لائے اور بیٹی کے دو لاکھ سے زیادہ ملنے کی توقع بتانے پر دو لاکھ بتیس ہزار دیے۔ کہیں گھپلا وہاں نہ ہو۔ سو بیٹی بیوی کو دو چار روز چپ رہنے کا کہہ پہلے کوٹ ادو میں فیس بک کے ایک نوجوان محنتی صحافی دوست کو فون کیا ساتھ پنڈی بھٹیاں اپنے ایک بھتیجے، کالج پرنسپل اور دو اور جگہ ایسے پرانے دوستوں سے جو صحیح پتہ لگوا سکتے تھے تھے سرٹیفیکیٹس کی نوعیت شرائط تاریخ اجرا و وصولئی رقم کی تفصیل درج کروا تکلیف دی کہ پتہ کریں کہ اندازہ فی لاکھ کتنا منافع ہونا چاہیے۔

جو جواب تین جگہ سے تین چار روز کے اندر آئے میرے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھے۔ نہ صرف یہ کہ منافع واقعی کہ دس سال کے اندر شرح منافع اور طریق شماریات میں دو چار مرتبہ بدلاؤ آ چکا تھا، ایک لاکھ ساٹھ ہزار فی لاکھ کم و بیش ہونا چاہیے بلکہ حلق خشک کرنے والا یہ دھماکہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روز افزوں بڑھتی دیانت اب اس شعبہ کو بھی دیمک لگا چکی ہے اور بہت سے شہروں کی بہت سی برانچوں میں (الا ماشاءاللہ) ان اکاؤنٹ ہولڈرز کے جو کہ ماہ بماہ یا ششماہی، جو بھی صورت حال ہو، باقاعدہ منافع وصول نہیں کرنے آتے بلکہ خاصا عرصہ یا سالوں بعد آتے ہیں ان کے منافع یا منافع در منافع کے حساب میں گڑبڑ کرتے چونا لگاتے ہیں جس میں اوپر سے نیچے برانچ کا چند یا بہت سے افراد کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ اور بعد میں بقایا غبن شدہ رقم خود پرافٹ کوپن بنا، نکلوا، حصہ رسدی بانٹ لی جاتی ہے۔ اور اس طرح ایسی برانچیں ہر ماہ لاکھوں تک بانٹ کھا رہی ہیں اور اب یہ کوئی راز بھی نہیں کہ ”کھاتے ہیں تو دیتے بھی تو ہیں“ ۔

اب پھر چیمہ صاحب کو زحمت دی۔ فرمانے لگے آپ کو کہا تو تھا بلکہ زور دے کے کہا تھا کہ برانچ جانے سے مجھے مل لیں۔ مجھے خطرہ تھا یہ نہ ہو جائے جو ہوا۔ انہوں نے مجھ سے سرٹیفیکیٹس کی تفصیل لے نوٹ کی اور فرمایا کہ بیگم سے کہیں لاہور آئیں اور مجھ سے رابطہ کریں اور جب تک میں نہ کہوں برانچ نہ جائیں۔ چناں چہ بیگم اور بیٹی لاہور بھاگیں۔ وہ مجھے حساب کر کے بتا چکے تھے کی بانوے چورانوے ہزار کا چونا آپ کو لگا تھا صبح میں برانچ بات کر کے جب کہوں جائیں امید ہے سیدھے ہو جائیں گے ورنہ دوپہر تک آڈٹ ٹیم پہنچ چکی ہو گی۔

صبح پونے دس بجے فون آیا کہ فوراً برانچ پہنچیں اور سیدھا فلاں صاحب کے پاس جائیں۔ بیگم اور بیٹی ابھی برانچ کے دروازے میں داخل ہی ہو رہی تھیں کہ فلاں صاحب لپکتے آئے اور علیحدہ کونے میں بٹھا بار بار ”حساب میں غلطی لگنے کی معافی مانگتے“ مبلغ چورانوے ہزار چھ سو اسی ”روپے کے پرافٹ واؤچر پر بیگم کے وصولی دستخط کروا وہیں رقم لا حوالے کر رہے تھے۔ اور جب اٹھتے ہوئے مزید کوئی خدمت کے الفاظ کہے گئے تو میری بیٹی اونچی آواز میں صرف یہ کہتی نکل آئی،“ہم تو یہ نقصان بفضل خدا سہ بھی سکتے ہیں مگر غریب بے سہارا یا بوڑھوں کے ساتھ یہ ظلم چھوڑ دیں تو یہی خدمت ہوگی۔ البتہ پانچ ہفتہ کے مجوزہ قیام سے دو ہفتہ معہ بھاگ دوڑ اس ”دیانت داری“ کی نذر ہوچکے تھے۔

(جب شکایت کا سوچا تو ایک بنک کے کاغذ کے پیچھے لکھا دیکھا کہ پینتالیس روز کے اندر حل ہو جانے والے مسائل کے متعلق شکایات پر بینکنگ کونسل غور نہیں کرتی)

انیس سو چھپن سے دو ہزار دو تک پاکستان میں بنکوں میں روزانہ چھوٹی سے بہت بڑی رقموں تک کا لین دین کرتے کبھی ایک شعشہ بھی شک نہ پڑا کہ شماریات میں میں دانستہ گڑ بڑ ہوگی۔ مگر اب شاید۔ ہاں جو چھوٹا سا بنک اکاؤنٹ باقی تھا وہ بھی بند کرا دیا ہے۔ البتہ دوبارہ کم از کم قومی بچت سرٹیفیکٹ میں بچت رکھنے والوں سے درخواست ہے کہ ”یا شیخ، اپنا دیکھ“ کے تحت رقم یا منافع لیتے تسلی کر لیا کریں کہ ترازو کے پلڑے کے اوپر ڈنڈی مار ہاتھ تو نہیں۔

کورونا کی مہربانیوں نے اسی سالہ اس بوڑھے کو گھر مقید کر دیا تو اپنی کچھ یاد داشتیں ”ہم سب“ کی مہربان انتظامیہ کی نوازش (میری کوتاہیوں کے باوجود) سے معزز قارئین تک پہچانے کا موقع ملا، جس کی پذیرائی بھی ہوئی۔ چند روز قبل پرانے کاغذات دیکھتے جنوری دو ہزار اٹھارہ کی پیش آمدہ اس واردات کے کاغذات پر نظر پڑی تو سوچا، اب تک جانے کتنے لاکھ لوگ ان غریبوں کا مال بے شرمی سے کھانے والوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہوں گے۔ تب یاد آیا کہ یہاں تو گریڈ اکیس تک کے لاکھوں تنخواہ اور ”جھونگے“ میں ساتھ جانے کیا کچھ سمیٹ لینے والے افسران اور بیگمات بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کے دیوانے ہیں۔ یہ قومی بچت سنٹر والے بھی تو انہی کے پالے ہیں۔

نوٹ۔ یہ تو بھول گیا کہ یہ سرٹیفیکیٹ بنواتے وقت فیصل آباد میں ایک ہزار اور لاہور برانچ میں پانچ سو روپے سے سیونگز اکاؤنٹ کھلوایا گیا کہ ہر ماہ آپ کا منافع یہاں ٹرانسفر ہوگا، جو بعد میں پتہ چلا کہ عملاً کبھی نہیں ہوتا۔ ہاں یہ اکاؤنٹ دونوں جگہ مسکراہٹ ہی میں دبا دیے گئے۔

2۔ ساتھ دی گئی تصویر میں برانچ کی تفصیلات چھپاتے ان سرٹیفیکیٹس، منافع واؤچرز ( ایک میرے دستخط کے ساتھ ایک بعد والا جس میں صرف بیگم کے دستخط ہیں کہ اب واؤچر میرے پیشگی دستخطوں کی ضرورت سے پاک ہو چکا تھا اور دونوں سیونگز اکاؤنٹ کی رسیدوں کے فوٹو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments